پاکستان کرونا سے بھی بڑے خطرے کی دہلیز پر

آج میں بہت ہی حساس موضوع کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں، جو کہ اس وقت کی بہت اہم ضرورت ہے، اگر آج ہم نے اس کو درخو اعتناء نہ سمجھا تو خدا نخواستہ نہ صرف انسان بلکہ دیگر حیوانات بھی اس عذاب شدید کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ اور اگر اس صورتحال کے تدارک کی سعی نہ کی گئی تو کہیں خاکم بدہن غذائی قلت اور قحط و بدحالی کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔ آج کل ہم سب کے زہن میں کرونا کا خوف سمایا ہواء ہے مگر اصل میں کرونا سے بھی بڑی آفت پاکستا ن جیسے زرعی ملک کے لئے جو ہے وہ ٹڈی دل ہے۔ جون اور جولائی میں ٹڈی دل اللہ تعالیٰ رحم کرے خوفناک صورتحال پیدا کر سکتی ہے،

ابھی تک تقریباٗ 2 لاکھ ایکڑ کے قریب کھڑی فصلوں کو ٹڈی دل پاکستان میں تباہ کر چکا ہے ، جب کہ 10 لاکھ ایکڑ فصلوں کو جزوی نقصان پہنچ چکا ہے، ابھی تک تقریباٗ 50 ارب کا نقصان ٹڈی دل کی وجہ سے ہو چکا ہے اور کہا جارہا ہے کہ نقصان خدا نخواستہ 100 ارب مالیت سے تجاوز کر جائے گا،

اب آپ خود سمجھ لیں کہ پاکستان جیسے لوئر مڈل انکم کنٹری کی معیثت کے لئے یہ بہت بڑے دھچکے کے مترادف ہے۔

اگر ٹڈی دل کے سفاک حملے جو پہلے سندھ اور بلوچستان میں بہت بڑی تباہی مچا چکے ہیں اور اب پنجاب خصوصاٗ جنوبی پنجاب کی زرخیز فصلوں کی بربادی کا سبب بن رہا ہے، اگر صورتحال میں مناسب بہتری کی کوشش نہ کی گئی تو 22 کروڑ عوام کے ساتھ ساتھ کروڑوں کی تعداد میں مال مویشی بھی ہلاکت کے دہانے پر ہیں کیونکہ غذائی قلت بہت بڑی آفت کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ ہمارے پاس اس وقت صرف سامنے ایک ہی آپشن ہے جو ہے سپرے۔ حکومت نے اگرچہ اعلان تو کیا تھا کہ ٹڈی دل کے حوالے سے نیشنل ایمرجینسی کا مگر عملی اقدامات بہت ناکافی ثابت ہوئے، اس میں زیادہ غفلت کے مرتکب ہمارے زرعی ادارہ جات ہیں، اور خصوصاٰ پلانٹ پروٹیکشن کا محکمہ جس کی بنیادی زمہ داری ہی ایسے مضمرات کی پیش بندی اور سرکوبی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں کسی زرعی ادارہ یا ارباب اختیار نے اپنے قیمتی اوقات کو یا اپنی توجہ کو ایسے معاملات کی طرف مرکوز کرنا اپنے وقت کا ضیاع جانا، معذرت کے ساتھ مگر حقیقت کے بعین

پچھلے پندرہ دن میں ٹڈی دل نے جنوبی پنجاب میں 60 ہزار ایکڑ زمین کے اوپر کھڑی فصلیں تباہ کر دیں، پچھلے 14 ماہ کے دوران یہ ٹڈی دل ہماری ارض پاک میں تقریباٰ 900 ارب کی فصلوں کو کھا چکا ہے،

اس طرح سے آپ خود اندازہ لگائیں کہ نہ صرف کسانوں کی امیدوں کے چمن خاکستر ہو چکے بلکہ اجتماعی طور پر وطن عزیز خوراک کی مد میں بہت زیادہ خود کفالت کی منزل سے ہمکنار ہونے کی بجائے مشکل صورتحال سے دوچار ہو چکا ہے۔ اس وقت ٹڈی دل ہمارے 3 صوبہ جات میں تباہی پھیلا رہی ہے، بلوچستان اور سندھ کے ساتھ ساتھ پنجاب بھی اس کی لپیٹ میں ہے، خصوصاٰ جنوبی پنجاب کے اضلاع سے لے کر بھکر تک اس آفت کی لپیٹ میں ہے، ہمارے ہاں جو سب سے بڑا مسلہء ہے وہ زمہ داری کا تعین کہ کرے گا کون اور کیسے اس میں (planning & implementation) یعنی منصوبہ بندی اور عمل درآمد یہ دو پہلو بہت اہمیت کے حامل ہیں، آپ خود سوچیےء شاید ہماری ترجیات میں زراعت جو ہماری ریڑھ کی ہڈی ہے اور کسان جو مین پلر ہے ان کے بارے میں غورو خوص کوئی اتنی بڑی اہمیت کا حامل نہیں ہے، ورنہ انڈیا میں بھی ٹڈی دل آیا مگر حکومت ہند نے اس پر اتنا زیادہ فوکس کیا کہ تقریباٰ 10 لاکھ ایکڑ زمین کو ڈرون کے زریعے سپرے کر کے کلیئر کر لیا ، بلکہ اس کے بعد یہ کیا مختلف ریاستوں میں کسانوں کو ٹریننگ دی گئی کہ اگر ان کو کچھ ایسی صورتحال سے واسطہ پڑے تو اس سے کیسے عہدا براہء ہونا ہے کیسے اور کون سا سپرے کتنی مقدار میں کرنا ہے، کون سے آلات درکار ہونگے، اور کہاں سے آلات اور سپرے کی دستیابی ممکن ہوگی۔ اس کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسانوں کی مدد تو کی جا رہی ہے ساتھ ہی ان کو خود انحصاری کی تربیت بھی دی جا رہی ہے، یہ رویہ پاکستان میں بھی ڈیویلپ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی ترقی اور معاشی چیلنجز سے نبردآزما ء ہونے کا دارومدار صرف اس بات پر ہے کہ لائیو سٹاک اور زراعت کو پروموٹ کیا جائے۔ کیوں کہ اسی میں ہماری بقا ء کا دارومدار ہے۔ ٹڈی دل ہے کیا، یہ ایک صحرائی کیڑا ہے جو کہ بہت ہی خطرناک مانا جاتا ہے، عام طور پر یہ افریقہ یا صحرائے صحارا میں پائی جاتی ہیں یا ہندوستا ن کے کچھ علاقہ میں مگر جب یہ سبزی خور بن کر ایک دل یا جھنڈ کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو برا ء عظم ایشیاء، افریقہ اور یورپ کے دور دراز علاقہ جات تک پہنچ جاتی ہیں، کیوں کہ ان میں دور افتادہ علاقوں تک تیزی سے ہجرت کرنے کی صلاحیت ہے، کیوں کہ اس میں بہت تیزی سے اُڑنے کی صلاحیت ہے، دوسرا یہ جب دل یعنی جُھنڈ کی صورت اختیار کرتا ہے تو بہت ہی زیادہ نقصان دہ بن جاتا ہے، کیوں کہ یہ آسمان کو کور کر لیتا ہے۔

ٹڈی دل کا ایک جھُنڈ ایک کلومیٹر کے علاقہ میں اتنی فصل کو کھا جاتا ہے جتنی 35 ہزار لوگ مل کر کھاتے ہیں۔ ٹڈی دل کا ایک جھُنڈ یا جتھا 80 کروڑ سے لیکر ایک ارب ٹڈیوں پر مشتمل ہوتا ہے، اور یہ ایک دن میں 10 کروڑ کلو خوراک کھاتا ہے۔ یہ دوسرے لفظوں میں اپنے وزن سے دُگنی خوراک کھا جاتا ہے۔

 

ہمیں چاہیے کہ خاتمہ لاروا سٹیج پر کرنا چاہیے اگرچہ ہمارے پاس وسائل کی کمیابی ہے مگر کرنا تو ہے۔ ہم کیڑے مار ادویات کے سپرے کے ساتھ ساتھ مرغیاں یا بطخ اگر زیادہ مقدار میں پالیں تو ٹڈی دل کو وہ کافی مقدار اور شوق سے کھا لیں گی، کیونکہ چائنہ نے بڑی مقدار میں بطخ پالی جس نہ صرف فصلوں کی حفاظت ممکن ہوئی بلکہ پروٹین کی وافر مقدار میں دستیابی انڈے اور گوشت کی مقدار میں اضافہ کی صورت میں مہیاء ہوئی۔ اُڑنے والے پرندے بھی ٹڈی کا شکار کرتے ہیں بلکہ اتنا زیادہ شکار کرتے ہیں کہ ان سے اُڑنا مشکل ہو جائے، ہم نے ماحول دوست پرندوں کا غیر ضروری شکار کر کے بھی اپنے لئے مشکل کھڑی کر لی ہے، لہسن کا سپرے بھی اگر ممکن ہو تو فصل پر کیا جائے کیونکہ لہسن کی بو ٹڈیوں اور نقصان دہ کیڑوں کو فصلوں سے دور بھگاتی ہے، کہتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران ملک شام پر ٹڈیوں نے حملہ کیا تو کثیر تعداد میں فصلوں اور باغات کو تباہ و برباد کر دیا، جس کی وجہ سے بہت قحط پڑا جس سے لوگوں کی اکثریت موت کے گھاٹ اتر گئی، اسی ٹڈی دل کی آفت کے دوران غوطہ کے گاؤں داریا میں ایک شخص کا باغ تباہی سے محفوظ رہا تو اس کے بد خواہوں نے حکومت وقت سے شکایت کی کہ اس کے پاس ٹڈی دل کا علاج اور دوائی تھی مگر اس نے دوسروں کو نہ دی جس سے اتنا زیادہ نقصان ہواء، حکومت نے ایک فوجی دستہ اس شخص کو سزا دینے کے لئے بھیجا، فوجی دستہ کے افسر نے کوڑا اُٹھایا اور پوچھا تم نے علاج یا ٹڈی دل کی دوائی کو خفیہ کیوں رکھا، اس شخص نے جواب دیا جو دوائی میں استعمال کرتا ہوں اس کا پتا سب کو ہے مگر استعمال کوئی نہیں کرتا، پوچھا گیا کیا اس نے جواب دیا کہ زکوٰۃ ۔ افسر نے جواب دیا کیا ٹڈی دل زکوٰۃ دینے والے اور نہ دینے والے باغ میں فرق کر سکتا ہے ، اس شخص نے کہا آپ آزما کر دیکھ لیں، چنانچہ فوجیوں نے کچھ ٹڈیاں پکڑیں اور اس کے باغ میں چھوڑیں ، وہ ٹڈیاں چھوڑتے تھے مگر ٹڈیاں بھاگ جاتی تھیں، اس کے بعد اس شخص نے یہ حدیث سنائی کہ اپنے مال کی حفاظت زکوٰۃ سے کرو، مریضوں کا علاج صدقے سے اور بلاوئں کی لہروں کا علاج اللہ کے سامنے عاجزی سے کرو، ہمیں چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ مستحقیقن زکوٰۃ کو ڈھونڈ کر زکوٰۃ دیں تاکہ ہمارا مال محفوظ اور پاکیزہ رہے، اب آتے ہیں موجودہ صورتحال کی طرف وہ یہ کہ اگر صورتحال جوں کی توں رہتی ہے تو اور مشکل ہو جائے گی کیوں کہ برسات کے دنوں میں اس کی افزائش نسل میں اضافہ ہو جائے گا۔

 

 

عام طور پر ایک مادہ ٹڈی ایک وقت میں 80 انڈے دیتی ہے سال میں عام طور پر 3 سے 5 نسلیں پروان چڑھتی ہیں ٹڈیوں کی آپ خود دیکھیں کہ کتنی خطرناک صورتحال ہے۔

 

 

یہ انڈے زمین کے اندر دیتی ہیں، چاہیے یہ کہ جہاں ٹڈیاں انڈے دیں اس جگہ سپرے کیا جائے اور ساتھ ہی ہل چلا دیا جائے، تب ہی لاروا سٹیج پر اس کو تلف کیا جاسکتا ہے، NDMA اپنے طور پر اس مصیبت کا سدباب کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر ایک تو ان کو بہت دیر سے یہ بار گراں دیا گیا بنیادی زمہ داری تو پلانٹ پروٹیکشن کے ادارہ کی تھی کیونکہ یہ معاملہ زراعت اور خوراک سے متعلقہ ہے۔ مگر وہ اپنے فرائض جب کماحقہُ ادا نہ کر سکے تو NDMA پر زمہ داری ڈال دی گئی حالانکہ ان پر پہلے ہی بہت زیادہ زمہ داریاں ہیں جو وہ احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں خصوصاٰ کرونا جیسی عالمی وباء کی گھمبیر مشکل کو وہ سنبھال رہے ہیں۔ پاکستان میں کلچر ایسا بن گیا ہے کہ جو کام کرتا ہے اس کے لئے کام ہے اور جو پہلو تہی کرتا ہے اس کو شائد اس طرح کوئی نہیں پوچھتا جیسے پوچھنا چاہیے۔ ماہرین کی رائے میں پاکستان سے ٹڈی دل کو نکلنے میں تقریباٰ تقریباٰ 2 سال لگ سکتے ہیں اور اس دوران ان کی آبادی میں کم و بیش 6 گنا اضافہ ہو سکتا ہے جو کہ ہماری اور جانوروں کی خوراک کی کمی کے حوالے سے بہت مہلک ہو سکتا ہے۔ ہمارے پاس ادارے موجود ہیں مگر ان کو activate کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نقصان کو کم سے کم کیا جاسکے۔ ہم اکیسویں صدی میں بھی صرف ٹونے ٹوٹکوں پر نظام چلا رہے ہیں کہیں ٹین ڈبے اور کہیں پر ڈھول ڈھمکے سے غریب چھوٹا کسان اپنے ڈنگ ٹپا رہا ہے، یہ کوئی مناسب حل نہیں ہے۔ سائنس اور تحقیق کے ادارے آخر کس مرض کی دواء ہیں، ان کو اتنے وسائل دئیے جاتے ہیں کبھی کسی نے ان کی پراگریس بھی پوچھی، ریٹرن کیا دے رہے ہیں اتنے بھاری مشاہرے لے رہے ہیں اور اتنے فنڈز استعمال کر رہے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ لیڈنگ رول لے 70 سال گزر گئے ہیں اب تو غریب اور چھوٹے کسان کو سینے سے لگا کر اس کی مشکلوں کا مداوا کیا جائے خدانخواستہ کہیں بہت دیر نہ ہو جائے۔

شاید کہ تیرے دل میں اُتر جائے میری بات

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے