ایک تھی ایم کیو ایم!

آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن(APMSO) آج 10 جون 2020 کو ٹویٹر پر اپنی بیالیسویں سالگرہ کا ٹرینڈ چلا رہی ہے۔ اس کے سابق وابستگان دیگر وجوہات کے علاوہ اس کے قیام کی ایک وجہ اسلامی جمعیت طلبہ سے آزادی حاصل کرنا بھی بتاتے ہیں جیسا کہ ایک پمفلٹ سے واضح ہے۔

ایم کیو ایم کے لوگ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ”مہاجر قومی موومنٹ“ اسی طلبہ تنظیم کی کوکھ سے نکلی، کئی اتار چڑھاؤ دیکھنے کے بعد ایک وقت ایسا آیا کہ کراچی اور حیدرآباد پر اس تنظیم کا مکمل راج تھا۔

کراچی میں الطاف حسین کا نام چلتا تھا حالانکہ ایک مدت سے وہ سات سمندر پار مقیم ہو چکے تھے۔ مشرف دور میں ایم کیو ایم نے کراچی شہر میں کھل کر کھیلا، اس کے بعد پیپلز پارٹی کا دور بھی ان کے لیے سازگار ہی رہا ، اس دور میں طاقت کا گھمنڈ البتہ ان کے بہت سارے لیڈرز ، دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کے ہاں صاف محسوس ہوتا تھا۔ اور پاکستانی سیاست میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔

اس دوران کچھ برس تو ایسے بھی آئے کہ یوں لگتا تھا کراچی میں پتا بھی الطاف حسین کی مرضی کے بغیر نہیں ہل سکتا۔ کراچی کی دیواروں پر جابجا ”ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے “ درج نظر آتا تھا۔ اس دور میں اردو اخبارات کی سرخیوں میں سب سے زیادہ یہ الفاظ پڑھنے کو ملتے تھے: ”سیکٹر، یونٹ، بھائی لوگ، بھتہ، چائنہ کٹنگ، ٹارگٹ کلنگ، بوری بند لاشیں، ٹی ٹی،ڈبل سواری،فائرنگ، پٹھان، مہاجر، حق پرست ، قائد تحریک وغیرہ وغیرہ۔“

الطاف حسین لندن سے وقفوں وقفوں سے ٹیلی فونک خطاب کیا کرتے، کبھی تو مائیک پر عجیب و غریب آوازیں نکالنے لگتے لیکن کراچی کے کسی گراؤنڈ میں آئے ہوئے اور ہانک کر لائے گئے لوگوں کے سروں پر پورے خطاب کے دوران گویا پرندے بیٹھے رہتے اور ٹی وی چینلز کے کیمرا مینوں کے پاؤں میں کھڑے رہ رہ کر ورم آ جاتے تھے۔ الطاف حسین کا جب جی چاہتا رابطہ کمیٹی کے اراکین کو اپنے لڑکوں سے پٹوا بھی دیتے اور جب من کرتا شہر بند کروا دیتے۔ غرض ایک عجیب پرفریب اور دہشت ناک فضا تھی۔

پھر چند برس بعد یعنی ماضی قریب میں الطاف حسین کی ایک تقریر نے یہ سارا منظر لپیٹ لیا، کراچی کے معاملات میں دخیل رہنے والے ریاست کے طاقتور محکموں نے اپنے تیور بدل لیے اور الطاف حسین تخت سے یکلخت اتارے ہوئے ایک غیر اہم آدمی بنا دیے گئے۔ان کی آواز پاکستانی میڈیا پر ممنوع قرار پائی۔ ایم کیو ایم کو ”ایم کیو ایم پاکستان “ قرار دیے کر ”ایم کیو ایم لندن“ سے الگ کر دیا گیا۔ الطاف حسین کے ساتھی حب الوطنی کی ’لانڈری‘ سے دھل کر نئے مگر کنفیوز بیانات کے ساتھ سامنے آئے اور آپس میں گتھم گتھا ہونے لگے۔ تماشا شروع ہو گیا۔

مصطفیٰ کمال کو ”پاک سر زمین پارٹی“ کے عنوان سے آگے لگا کر اردو بولنے والوں( یا مہاجر شناخت رکھنے والوں) کے نئے محب وطن لیڈر کے طور پر تراشنے کی بھرپور کوشش ہوئی، ملٹیبلشمنٹ کے ترجمان لکھاریوں نے مصطفیٰ کمال کے قصیدے لکھے، اینکروں سے اس کی خوب پروموشن کروائی گئی لیکن یہ تجربہ بری طرح پٹ گیا، کراچی کا ووٹر اس نئے مہرے پر اعتماد کے لیے تیار نہ ہو سکا۔

پاکستان میں موجود الطاف حسین کے ساتھیوں نے نئی صورت حال کے ساتھ سمجھوتا تو کر لیا لیکن ان کی طاقت منتشر ہو گئی اور ان کا دبدبہ کہانی بن گیا۔ وہ گروپوں میں بٹ کر رسوائیوں کی ڈھلوانی راہ پر لڑھکنے لگے اور زوال کا یہ سفر ابھی رکا نہیں۔

ایم کیو ایم کا قیام ، اس کے قیام کے اسباب، کراچی میں نوے کی دہائی میں کیے گئے بے رحم آپریشنز، لفظ ”مہاجر“ کی ”متحدہ“ سے تبدیلی اور پھر اس کی کھوکھ سے ’حقیقی‘ کا نکلنا، لگ بھگ دس برس تک اس پارٹی کا سیاسی افق پر عروج اور پھر عبرت ناک زوال اور داخلی انتشار ایک اہم سیاسی مطالعے کا موضوع ہے۔

میں ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کے اس پمفلٹ میں لکھے گئے مقاصد پڑھ رہا تھا تو بہت کچھ ذہن میں آیا، یہ مقاصد بنیادی طور پر برے تو نہیں تھے۔ لیکن کراچی ایک ایسا شہر ہے جس کے متعدد اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ وہاں ماضی میں ہوئے بدترین فسادات کی ذمہ دار صرف ایم کیو ایم نہیں ہے، وہ تو بہت ساری سیاسی تنظیموں اور لسانی گروپوں میں سے ایک ہے۔ کراچی کی بربادی میں سیاست میں منہ مارنے کی عادی غیر سیاسی قوتوں سمیت کئی اور لوگ بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔

اس وقت سوال کراچی کے مہاجر شناخت رکھنے والوں کی سیاسی نمائندگی کا ہے۔ اس طبقے کو الطاف حسین کے مائنس ہو جانے کے بعد ابھی تک کوئی متبادل نہیں مل سکا۔ الطاف حسین کے منحرف ہوئے ساتھیوں پر لوگوں کا اعتماد ویسا نہیں ہے۔اور پھر ان کی داخلی چپقلشوں کی وجہ سے ووٹرز بے یقینی کی کیفیت میں ہیں۔ سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک بڑا طبقہ ہے جس کی فیصلہ ساز ایوانوں میں مؤثر نمائندگی ناگزیر ہے۔

اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ الطاف حسین نامی شخص اب کراچی کے سیاسی افق پر دوبارہ طلوع نہیں ہو سکتا، اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو بھی فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ شہری سندھ بالخصوص کراچی اور حیدرآباد اپنی سیاسی نمائندگی کے لیے کسے متبادل کے طور پر قبول کرتا ہے۔ کراچی میں موجود سیاسی خلا کا کوئی بھی باخبر آدمی انکار نہیں کرے گا اور یہ خلا اس بڑے طبقے کی مرضی کے بغیر پُر نہیں ہو سکتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے