خود آگہی: میں کون ہوں ؟(2)

اپنی پہچان کے سلسلے میں روح کے بعد اپنی شخصیت کے دوسرے پہلو یعنی جسم پر ایک دوسری طرح نظر ڈالتے ہیں کہ درحقیقت یہ ہے کیا؟
انسانی جسم: Human Body

جسم کابنیادی عنصر ایٹم Atomہے اور انسان ایٹم ہی سے بنا ہے۔ ایٹم ہی جسم کے مختلف اعضاء بناتے ہیں۔ہر عضؤ اپنے ساخت اور کام کے لحاظ سے بے مثال ہے۔ ان تمام اعضاء کا ایک دوسرے سے بڑا گہرا تعلق ہے یہی تعلّق زندگی کو رواں رکھتا ہے۔ سب سے اہم عضؤ ہمارا دماغ ہے جو ایک ایسا عجوبہ ہے جسے انسان ابھی تک نہیں سمجھ پایا ،انسان زندگی اور کائناتی حقائق کا جو مشاہدہ کرتا ہے وہ دماغ کے واسطے سے کرتا ہے۔ اسی واسطے سے کائنات ہمارے لیئے ایک حقیقت ہے۔یہی ہمیں بتاتا ہے کہ "میں کون ہوں”مجھے کیاکرنا ہے، یہ سوچتا ہے، دریافت کرتا ہے، گتھّیوں کو سلجھاتا ہے، سب سے بڑھ کر اسمیں جذبات جنم لیتے ہیں جن کا اِنسان کو علم نہیں کہ یہ کیسے اور کیوں پیدا ہوتے ہیں اور کیسے ہمارے جسم اور چہرے کے ذریعے ظاہر ہوتے ہیں لیکن ان غیر طبعئی جذبات کا ہما رے طبعئی جسم پر اظہار اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ان دونوں میں رابطہ کا کوئی نظا م تو موجود ہے ! مگر وہ کیا ہے ؟

یہ ہمارا دماغ ہی ہے جس میں ساری زندگی کی معلومات جمع ہوتی رہتی ہیں۔ایک چھوٹے سے عضؤ میں یہ صلاحیّت ہے کہ برسوں کے واقعات محفوظ ر کھتا ہے ،اسی میں سوال اُبھرتے ہے کہ: میں کون ہوں؟کیایہ جسم میں نے بنایا؟ میں کیسے بن گیا؟ وغیرہ
نکتۂ فکر: ) (Point to Ponder جسم پر ہمارا اختیار کہیں مکمّل ہے کہیں محدود اور کہیں بالکل نہیں،ہمارے تمام عضؤدماغ کے ذریعے ہمارے ارادے کے طابع ہوتے ہیں۔لیکن یہ کس نے فیصلہ کیاکہ میرااختیار میرے دل اور دورانِ خون اور دوسرے اندرونی نظام پر بالکل نہیں ہوگا لیکن پھیپھڑوں پر جزوی ہو گا؟

آخر وہ کیا ہے جو ہمارے عضؤ کو ہمارے طابع کرتا ہے اور سارے انسان ایک ہی طرح کیوں نمو پذیر ہوتے ہیں؟
اور یہ کیسا نظام ہے کہ میری انگلیوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ کسی چیز کو پکڑنا ہے یا چھوڑنا ہے یا یہ کہ کس موقع پر کتنی قوّت استعمال کرنی ہے؟

انسانی شعور، خواہش اور عمل میں کیسااور کیا رشتہ ہے ؟ انسانی شعور اور جذبات کا نظام آفاقی کیوں ہے؟

ہمارا جسم کس کے تابع ہے؟ دماغ کے یا روح کے؟

دماغ یا روح کا ناظم کون ہے؟

یہ بھی ہمارا مشاہدہ ہے کہ تمام اِرادوں اور احکامات کے عمل پذیر ہونے لئے ایک "حاکم”ہونا چاہیے ورنہ مربوط نظام بن ہی نہیں سکتا۔ تو سوال اُبھرتے ہیں،

وہ حاکم کون ہے؟ میں کیاہوں؟ کہاں سے آیا ہوں؟

میری اصل اور ابتداء کیا ہے ؟ کیا یہ جسم میرا محکوم ہے؟

ان تمام سوالات کے درست اور حتمی جوابات اسی وقت حاصل ہونگے جب ہم تیقّن کے ساتھ جان لیں کہ اس کائنات کی ابتداء کیسے ہوئی اور اسکا اصل حاکم کون ہے، فطرت، انسان یا خدا؟ اسکے لیئے بھی دو راستے ہیں ایک طبعئی علوم یعنی سائنس اور دوسرا غیر طبعئی یعنی وحی۔ سائنس کائنات کی ابتداء کے بارے میں ہمیشہ گو مگو رہی ہے اور جدید ترین تحقیقات بھی کوئی حتمی اور ثابت شدہ نقطۂ نظر دینے میں ناکام ہے۔جدید سائنس دان اور مفکّرین علم کے خمار اور تکبّر میں مبتلا ہیں اور اس بات پر کمر بستہ ہیں کہ اس کائنات اور فطرت کو ایسا شاہکار ثابت کردیں جو بغیر ارادے اور بیرونی قوّت کے خود بن گیا۔ خود کو روشن خیال اور وسیع القلب گرداننے والے در حقیقت بند ذہن لیئے ہوئے افراد ہیں جنہوں نے حاصل علوم کی خیرہ کن چمک سے عام انسانوں کو مغالطے میں رکھا ہوا ہے۔ جیسا کہ تذکرہ ہوچکا ہے کہ انسان ایٹم سے بنا ہے تو پھر ہمارے جسم کے علاوہ ہمارے خیالات اور جذبات ، ہمارے حواس اور شعور کا منبع بھی ایٹم ہوا۔

ابھی تک سائنس یہ نہیں بتا پائی ہے کہ ایٹم میں زندگی کیسے آتی ہے؟

زندگی میں شعور، جذبات اور حواس کیسے عیاں ہوتے ہیں؟

کیا ایٹم میں شعور ہے؟

ان بنیادی سوالات کے جوابات میں سائنس کا بے بس ہونا تو یہی ظاہر کرتا ہے کہ انسانی سائنس سے برتر کوئی اور سائنس ہے جس کو سمجھنا ہی انسانی سائنس ہے۔ کیا ہم اس برتر سائنس کو وحی کے مطالعہ کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں ؟
اسکا جواب ہی ہمیں بتائے گا کہ ہم کون ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے