عبیداللہ بیگ:انسانیت کا علمبردار

اُردو ادب اس لحاظ سے بڑا خوش قسمت رہا ہے کہ ہر دور میں اسے چند ایسے معتبر نام ملے جو سیاسی سماجی اور معاشرتی زمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ادبی سرگرمیوں کو بھی بخوبی سرانجام دیتے رہے۔ یوں ادب میں گراں قدر اضافہ ہوتا رہا۔ ان معتبر ناموں میں ایک نام ایسا ہے جو کہ بھلانا نہایت مشکل ہوگا۔ایسی شخصیت جنہوں نے ماحولیات کے حوالے سے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ٹیلی وژن سکرین پر انہوں نے پروگرام” کسوٹی ”سے شہرت پائی ،بے شمار اداریوں، مضامین اور ڈراموں کے خالق رہے ،ترجمے بھی کئے اور”انسان زندہ ہے” اور”راجپوت” جیسے شاہکار ناول بھی تحریر کئے۔یہ ملنسار، شفیق، اور علم دوست شخصیت عبیداﷲبیگ ہیں ۔

بنیادی طور پر بیگ صاحب بہت نرم دل، شفیق اور مخلص انسان تھے۔ اُ نہوں نے اپنے قلم اور تحریروں کے ذریعے معاشرے میں پھیلی مایوسی، غم و یاس، بے چینی، کم علمی اور کاہلی کے خلاف جہاد کیا۔وہ ایک رحم دل اور محب وطن انسان تھے۔اپنے ملک اور اس کے باسیوں سے انہیں دلی لگاؤ اور اُنس تھا۔اپنی تحریروں میں حبُ الوطنی، انسان دوستی کو فروغ دیا۔

ماحولیاتی لحاظ سے بھی ان کی گراں قدر خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ایک ادیب کا حساس دل رکھنے کی بنا پر وہ اپنے گردوپیش میں ہونے والے عوامل اور محرکات سے خود کو الگ تھلگ نہ رکھ سکے۔انہوں نے اپنے گردوپیش اور ماحول کا گہرا اور عمیق مشاہدہ کیا۔ماحولیاتی کو تاہیوں پر ان کی نظر انتہائی گہری تھی، لہذا انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے ان کی نشاندہی کر کے ممکنہ حل تک پہنچنے کا راستہ دکھایا۔ وطنِ عزیز کو درپیش معاشرتی اور معاشی بحران سے نجات دلانا اُن کا مقصد حیات تھا۔ملک و قوم سے گہری جذباتی وابستگی کی بنا پر تمام عُمر حُب الوطنی کے جذبے سے سر شار رہے۔

[pullquote]خاندا نی پسِ منظر:۔ [/pullquote]

عبیداﷲبیگ کے اجداد نسلًاترکمان مغل تھے۔ ان کی والدہ یوسف زئی پٹھان تھیں ،اب آپ اسے حسنِ اتفاق کہیے یا قدرت کا کرشمہ کہ ان کے والد کے جدِامجد بھی یوسف ہی تھے،اُن کا اسمِ گرامی یوسف خان بیگ تھا۔ عبیداﷲ کی والدہ کا خاندان بہت با اثر ، علمی ، پڑھا لکھا اور مہذب خاندان تھاجس کے واضح اثر ات ان کی زندگی پر پڑے۔یوسف خان بیگ کو ان کی بہادری کے صلے میں رستم خان بہادر فیروز جنگ کا خطاب ملااور مرادآباد کے شہر کو آباد کرنے والے بھی یہی تھے۔ان کی خدمات و محنت و لگن کے صلے میں اورنگ زیب عالمگیر نے انہیں بڑی اراضی بھی عطا کی تھی۔

یوسف زئی خاندان کے تمام بزرگ ہی علم و ادب کے دلدادہ تھے۔شاعری ، نثراور دیگرفنون میں ماہر تھے، اس کے علاوہ وضع داری رکھ رکھاؤ ، صوم و صلوۃ کی پابندی، محبت و خلوص کے پیکر، تہذیب و تمدن جیسی عمدہ خوبیوں کے مالک اور عاجزی و انکسار ی ان کاطرہ امتیاز تھا۔آپ کے والد کا خاندان بھی پڑھا لکھا تھا۔ والد مرزا محمود علی بیگ بھی نجیب الطرفین ممتاز علمی و ادبی شخصیت تھے۔ایسے نجیب الطرفین اور علمی خاندان میں پرورش پانے والے عبیداﷲبیگ کی پوری زندگی علم و ادب سے محبت اور خدمت کرتے ہوئے گزری،وہ اپنی والدہ سے بہت ما نوس تھے اور اُن سے دلی محبت و اُنس رکھتے تھے ۔انھیں اپنے مُغل ہونے پر فخر تھا۔”عبید اللہ بیگ خود کو "آخری مغل ” کہا کرتے تھے ،،

ان کی پیدائش ہندوستان میں ہی ہوئی تھی، دوسری عالمگیر جنگ کے دوران جتنے بھی حالات و واقعات پیش آئے وہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے یا اخبارات و رسائل کے ذریعے ان سے باخبر رہتے، اس جنگ نے برصغیر کے باسیوں پر گہرے اثرات چھوڑے جن میں عبیداللہ بیگ بھی شامل تھے، یہ واقعات ان کے دماغ میں محفوظ رہے، ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد ان کے خاندان نے ہجرت کی۔

[pullquote]پیدائش ،بچپن اور ابتدائی تعلیم:[/pullquote]

آپ کی پیدائش بھارت کے علاقے یوپی میں یکم اکتوبر ر ١٩٣٦؁ء میں ہوئی۔ تعلیمی، سرکاری ریکارڈ کے مطابق بھی ان کی تاریخ پیدائش یہی ہے۔ کراچی قبرستان میں ان کی قبر کے کتبہ پر بھی یہی تاریخ درج ہے۔

اُن کا اصلی نام عبیداللہ بیگ تھا، تاہم اُن کے خاندان کے تمام افراد اور دوست احباب انھیں حبیب اللہ بیگ کے نام ہی پکارتے تھے اور پیارسے انھیں ”اوبی” کہتے تھے ۔مظہر علی خان عارف اُن کے اصلی اور عرفی نام کے متعلق اک شعر کہا ہے ملا حظہ کریں :
”وہ تھا حبیب،نام اگرچہ عبیدتھا
اُس پر محبتوں کا اجارہ نہیں رہا ”

[pullquote]بچپن:[/pullquote]

عبید اللہ بیگ اپنے گھریلو ماحول، خاندانی اثرات،قدرتی ذہانت، فطری علمی و ادبی رجحان کی بنا پر ہی بچپن سے کہانیاں پڑھنے، لکھنے اور دیگر کتب کا مطالعہ کرنے میں مگن رہتے تھے۔ ان کے بہن بھائی اوردوستوں کے مطابق ان کو بچپن سے ہی لکھنے لکھانے اور پڑھنے پڑھانے کا بے حد شوق تھا، والد سے چھپ کر غیر نصابی کتب کا مطالعہ کرتے رہتے، ان کی ہمشیرہ بیگم خورشید مظہر بتاتی ہیں:
”عبید بھائی کو بچپن ہی سے کتابوں سے عشق ہے اُس زمانے میں بھی اُن کی الماری کتابوں سے بھری رہتی اُن کے ساتھ ہمارا بچپن بھی کتابیں پڑھتے اور کہانیاں لکھتے گزرا، عبید بھائی کو تقریریں کرنے کا بھی شوق تھا”۔

کتب بینی کا یہ شوق عمراورتجربے کی ترقی کے ساتھ ساتھ نشوونما پاتا ہوا بامِ عروج تک پہنچ گیا، مطالعے کی کثرت کی بدولت ان کے پاس ذخیرہ الفاظ کا ڈھیر لگ گیا، اکثر تقاریر میں اپنا علم جھاڑا کرتے تھے، وہ بہت اچھے مقرر تھے، جب تقریر کرتے تو مجمع پر سکوت طاری ہو جاتا ۔

[pullquote]ابتدائی تعلیم:[/pullquote]

عبید اﷲبیگ نے ابتدائی تعلیم جامعہ قاسمیہ اور مسلم ہائی سکول ، مرادآباد ہائی سکول، اسلامیہ کالج بریلی انڈیااورجامعہ امدادِیہ سے حاصل کی۔ تقسیم ہند کے بعد جب ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آیا تو معاشی مشکلات کے سبب اور دیگر مصروفیات کے باعث وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکے تاہم کافی تاخیر کے بعد انٹرمیڈیٹ کا امتحان اسلامیہ کالج کراچی سے پاس کیا۔

انسانی زندگی کے اوراق پلٹے جائیں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہے کہ علم کسی ڈگری، سند یا پیمانے کا محتاج مرہونِ منت نہیں بلکہ علم تو کسی بھی وقت اور عمر حاصل کیا جاسکتا ہے۔عبید اﷲبیگ کے پاس ڈگری کوئی نہیں تھی لیکن ان کے علم کا مقابلہ بڑی بڑی ڈگریوں والے بھی نہیں کر سکتے تھے بلکہ ان کی مثال دیا کرتے تھے۔

علم سے محبت نے انہیں ابتدائی عمر میں رسالہ "طالب علم ” شائع کرنے پر مجبور کیا۔یہ ایک تعلیمی رسالہ تھا، جو کہ سراسر اپنی کوششوں کا مرہونِ منت تھا ، اس میں زیادہ تر مضامین ان کے اپنے ہی ہوتے تھے، اس سلسلے میں ان کی دو بہنوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔یہ رسالہ صرف ہندوستان سے ہی چھپتا رہا، ہجرت کے بعد ”رسالہ بنات” میں بھی ان کی کہانیاں چھپتی رہیں۔ ان کہانیوںمیں ان کی شکار سے رغبت دیکھی جاسکتی ہے، اس کے بعد ”الشجاع اخبار”میں سلسلہ وار کہانی لکھنا شروع کی جس نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کی یہی کہانیاں ”اور انسان زندہ ہے!”کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئیں۔

”ان کی تخلیقات پر ان کا نام درج نہیں ہوتا تھا۔یہ سب تحریریں ان کے لیے روزگار کا ذریعے تھیں۔ خاص طور پر مختلف قسم کی کتابوں ، مضامین اور تقاریر کا اردو میں ترجمہ کرنا ان کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔اس طرح ترجمہ کرنے پر انہیں اس قدر مہارت حاصل ہوگئی کہ وہ صفحوں کےصفحے بہت ہی کم وقت میں مسلسل ترجمہ کرنے پر قادر تھے۔زبان و بیان پر ان کو اس قدر، قدرت حاصل تھی کہ ترجمہ بھی ان کی اپنی تخلیق معلوم ہوتا تھا”۔

شکار اور مذہب سے دلچسپی ان کے دونوں ناولوں میں بآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔ـ”اور انسان زندہ ہے!” اور”راجپوت ”میں انہوں نے مختلف مذاہب کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں ،علارہ ازیں شکار کے مختلف حربوں کو بھی جزئیات کے ساتھ بیان کیا ہے۔فوجی معلومات، مہمات اور نقل و حرکت وغیرہ کو بھی اپنے ناولوں میں بخوبی سمویاہے۔

[pullquote]ملازمت:[/pullquote]

ہجرت کے بعد انھوں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز لکھنے لکھانے سے شروع کیا،پاکستان ہجرت کے بعد گذشتہ پچاس سال سے زائد کی پیشہ وارانہ زندگی میں بیگ صاحب پاکستان کے معروف اخبارات، مقبول جرائد، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور ماحولیات سے متعلق اداروں سے منسلک رہے انہوں نے صرف قابِل قدر اور قابل تقلید خدمات انجام دیں بلکہ پاکستان برصغیر اور ساتھ ہی ساتھ دنیا میں نام پیدا کیا۔

ان کی تحریریں ان کا شوق بھی تھا اور آمدنی کا ذریعے بھی، اس کے علاوہ تراجم کے ذریعے بھی اُن کی آمدنی بڑھ گئی۔ ١٩٥٧؁ء تا ١٩٥٨؁ء اسٹاف رائٹر،” رسالہ الشجاع” میں جم جونیر، حبیب اللہ بیگ اور عبید اللہ بیگ کے نام سے مضامین اور کہانیاں لکھتے رہے۔ ان کا پہلا ناول "اور انسان زندہ ہے!” اِسی رسالے میں قسط وار چھپتا رہاتاہم بعد میں انھوں نے اسے کتابی شکل دے دی تھی۔اس کے بعد ١٩٦٤؁ء میں روزنامہ انجام سے منسلک ہو گئے اور ١٩٦٧؁ء میں روزنامہ حریت میں کام کا آغاز کیاا ور اس رسالے میں (٦٩۔١٩٦٨ ء؁)دوسال تک اداریہ لکھنے کا کام کرتے رہے۔ اخبارات میں مضامین، کہانیاں، قصّے اداریے اورکالم نگاری کا سلسلہ ابھی جاری ہی تھا کہ انھوں نے ریڈیو سے وابستگی اختیار کرلی۔ ١٩٦١؁ء میں انھوں نے ریڈیو پاکستان میں پروگرام کا آغاز کیا جو کہ ١٩٦٨؁ء تک جاری رہا، ریڈیو پاکستان میں عبیداللہ بیگ رواں تبصرے تراجم، کہانیاں اور ڈرامے پیش کرتے تھے.

[pullquote]کسوٹی” اور” سیلانی کے ساتھ”[/pullquote]

ان کا ٹی وی کا سفر ١٩٧٣؁ء میں شروع ہوا اور ١٩٩٢؁ء تک جاری رہا۔ اس عرصے میں ان کے دوپروگراموں ” کسوٹی” اور” سیلانی کے ساتھ”نے بے حد مقبولیت حاصل کی ۔ کسوٹی ایک معلوماتی پروگرام تھا، اس پروگرام میں وہ تنہا نہیں تھے بلکہ ان کے دوست افتخار عارف اور قریش پور بھی تھے،یہ تینوں ایک مثلث کی مانریندر تھے قریش پور(٢٠) بیس سوال کرتے اور ان سوالوں کے پورا ہونے پر انہیں جواب دینا ہوتا، یہ سوال علمی ادبی شخصیت، عمارات، علاقوں، کھیل غرض مختلف شعبوں سےلیے جاتے تھے.

افتخارعارف نے تھوڑا عرصہ عبیداللہ بیگ کا ساتھ دیا اس کے بعد غازی صلاح الدین نے آخر تک قدم بہ قدم ان کا ساتھ نبھایا، یہ پروگرام پاکستان کے سرکاری چینل(P.T.V.) پر چلتا رہا جب سرکاری چینلزکے ساتھ ساتھ نجی چینل کا بھی آغاز ہو گیا تو کسوٹی کے نام میں تبدیلی لا کر دوسرے چینل پر بھی چلایا گیا۔

آغا ناصر عبید اللہ بیگ کی ذہانت کے متعلق لکھتے ہیں: ‘اس طویل عرصے میں عبیداللہ بیگ نے اس پروگرام میں کئی ہزار سوالوں کے جوابات بوجھے، انھیں زبان و بیان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ اسی لیے اس پروگرام میں ان کی گفتگو ناظرین کے لئے بے حد دلچسپی کا باعث ہوتی تھی.

کل بھی عبیداللہ بیگ کسوٹی کے حوالے سے پہچانے جاتے تھے اور آج بھی یہی نام اور حوالہ ان کی شناخت کے لیے کافی ہے۔ جو کہ اس پروگرام کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے، یہ اپنی نوعیت کا منفرد اور انوکھا پروگرام تھا.

”کسوٹی ”کے بعد دوسرا پروگرام جس سے عبید اللہ بیگ نے شہرت پائی وہ” سیلانی کے ساتھ” تھا۔ یہ بھی منفرد نوعیت کا پروگرام تھا۔یہ ایک سفری پروگرام تھا،جس میں عبید اللہ بیگ ناظرین کو قریہ، قریہ، وادی ،وادی لیے گھماتا تھا،اس میں وہ ہر چیز کوجزئیات کے ساتھ پیش کرتے تھے، اس علاقے کے حسن و خوبصورتی کو کیمرے کی آنکھ میں بند کر کے فلم کی صورت میں وہ مناظر پیش کیے جاتے تھے، انھوں نے پاکستان کے مختلف علاقوںکو اپنی فلم کے لیے منتخب کیا، سندھ کا علاقہ خاص طور پر ان کی توجہ کا مرکز رہا، انھوں نے فطرت کو اپنی فلموں میں خاص جگہ دی اور وہ درجنوں ڈاکومنڑیوں کے خالق تھے۔ شبیہ فراز سیلانی کے متعلق لکھتی ہیں:

” پی ٹی وی پر اپنی ملازمت کے دوران انہوں نے درجنوں دستاویزی فلمیں تخلیق کیں۔ یہ ایک ہفتہ وار پروگرام ہوتا تھا، جس کا نام” سیلانی کے ساتھ” تھا۔ یہ سیلانی صاحب خود تھے، یہ فلمیں ماحول ،آبگاہوں، جنگلات، جنگلی حیات، جغرافیائی تنوع، مزاروں، مختلف ثقافتوں، رسوم و رواج اور بہت سے دور افتادہ علاقوں میں موجود نایاب پودوں، پرندوں اور جانوروں سے متعلق تھیں۔ان میں (٤٠) سے زائد صرف صوبہ سندھ سے متعلق ہیں "سندھ کی جھیلیں نامی دستاویزی فلم ایوارڈ بھی حاصل کر چکی ہی۔

انھوں نے فلم "وائلڈ لائف اِن سندھ”بنائی جسے وائلڈ اسکرین نے ١٩٨٢ء میں اپنی (١٤ )بہترین فلموں کی لسٹ میں شامل کیا اس کے علاوہ ”گیم واڈن” کو پی ٹی وی نے کیش پرا ئز دیا ،انھوں نے خواتین کے مسا ئل پر بھی فلمیں بنا ئی جسے بے حد سراہا گیا اور اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ(١٨)زبانوں میں تراجم کے ذریعے پیش کیا گیا۔ عبیداللہ بیگ کی یہ فلمیں ان کی حب الوطنی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ انھوں نے ملک کے حسین مناظر کو منظرعام پر لانے کی کوشش کی جو کہ ناظرین کی نظروں سے اوجھل تھے۔یہ فلمیں ماحولیات سے لگاؤ رکھنے والوں اور طالب علموں کے لیے بیش بہا خزانے کی مانریندر ہیں جس کو بروئے کار لا کر وہ کامیابیوں کی منزل با آسانی طے کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ قائداعظم کی حیات اور کارناموں پر بھی بے شمار فلمیں بنائیں ،جس سے اُن کی شخصیت کےنمایاں پہلو سامنے آئے ،سندھ پر فلمیں بنانے اور علم و ادب کی خدمت کرنے کے سبب بھٹو اورضیاالحق انھیں بہت چاہتے تھے اور جا بجا ان کے بہترین کام پر داد بھی دیتے رہتے تھے ۔

سیلانی مختلف موضوعات پر بنائی گئی معلوماتی فلمیں ہیں ، چونکہ عبیداللہ کو تاریخ اور تہذیب اور مذہب سے خاصا گہرا لگاؤ تھا ،اس وجہ سے ہر شعبہ میں یہ موضوعات غالب دکھائی دیتے تھے۔سیلانی میں بھی ان موضوعات کی بہتات پائی جاتی ہے۔”شکاریات اور مذہبیات سے عبیداللہ کو خاص لگاؤ تھا ،انھوں نے ان دونوں موضوعات پر فلمیں بنائیں اور سیر حاصل معلومات پیم پہنچائیں "۔

پی ٹی وی میں فلمیں بنانے کے علاوہ وہ پاکستان ٹیلی ویژن کے ہیڈ کوارٹر ز اسلام آباد میں ڈپٹی کنٹرولر اور ١٩٨١ ءمیں کنٹرولر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ جبکہ ١٩٨٧ءمیں ”ٹی وی نامہ” کے بانی مدیر مقرر ہوئے۔

عبید اللہ بیگ اُردو ادب کی وہ عظیم تخلیق کار ہیں جنھوں نے اپنے فکر و فن سے تخلیقِ ادب کی وہ راہیں متعین کی جن کے ایجاز سے اُردو ادب کے مقام و مرتبے میں اضافہ ہوا،اور نئی نسل کے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوا،تقلید کی پرانی روش سے نجات ملی اور جدّت وتنوع کو فروغ نصیب ہوا۔

اگرچہ عبید اللہ بیگ نے زیادہ کتابیں تحریر نہیں کیں لیکن جو لکھا بہترین لکھا،اُن کی تحاریر کا زیادہ موادسماج میں بکھرا پڑا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے نام کی تشہیر نہیں چاہتے تھے ، اس کے باوجود اُن کے مضامین ، ناول ااور دیگر تخلیقات اپنے فن کے معراج پر جگہ بنانے میں کامیاب ہوئیں ۔

[pullquote]ازدواجی زندگی:[/pullquote]

١٩٦٠ء؁کی دھائی میں دوستوں کے اصرار کے باوجود شادی پر رضامند نہ ہوئے، ١٩٧٥ء؁ میں گھروالوں کی رضامندی سے شادی کرنے پر راضی ہوگئے ۔ان کی شادی پروفیسر جی ایم عصر کی صاحبزادی سلمیٰ بیگ سے طے پائی، سلمیٰ ایک علمی گھرانے کی خاتون ہیں، ان کے والد پروفیسر جی ایم عصر انگریزی کے بڑے اسکالر تھے اور اخباروں کے لئے بھی اچھا لکھتے تھے، شادی سے پہلے سلمیٰ بیگ نے ٹی وی پر کئی پروگرام بھی کئے، ان کے پروگرام "لوگ تماشہ”اور”اپنی بات” جس میں انہوں نے میزبانی کی فرائض سرانجام دئیے تھے، بے حد مقبول ہوئے۔

”ان کی سلمیٰ بیگ سے شادی ١٩٧٥ءمیں ہوئی جو دو حصوں پر مشتمل تھی، نکاح٨جون ١٨٧٥ء؁ کو ہو ا جبکہ رخصتی ‘٢٤اکتوبر١٩٧٥؁ کو ہوئی ، نکاح کے گواہان میں قدرت اﷲشہاب اور ممتاز مفتی جیسے احباب شامل تھے”۔

ان کی اہلیہ ادب، تہذیب و ثقافت اور درس و تدریس سے گہرا شغف رکھتی ہیں۔گو کہ سلمیٰ بیگ کافی تاخیر سے اُن کی زندگی میں آئیں لیکن انہوں نے ہر لمحہ اُن کا ساتھ دیا، عبیداللہ بیگ اپنی کامیابیوں اور کامرانیوںکو اپنی والدہ اور اپنی اہلیہ کی دعاؤں اور خلوص خیال کرتے ہیں ، عبیداللہ اگرچہ کامیابی کی کئی منازل طے کر چکے تھے اور کافی شہرت بھی حاصل کر چکے تھے، لیکن سلمیٰ بیگ نے اُن کی کامیابیوں میں خلل ڈالنے کی بجائے آگے بڑھنے کا حوصلہ بہم پہنچایا۔

عبید اللہ بیگ کی اہلیہ پیشہ ورانہ زندگی سے تعلق رکھتی تھیں، عبید اﷲبیگ کی علمی وادبی مصروفیات کے باعث گھریلو زندگی پر توجہ دینا ممکن نہ تھا مگر سلمیٰ بیگ نے گھر کی تمام ذمہ دایوںکو اپنے سَر لیا یعنی گھر اور بچوں کی دیکھ بھال ، ان کی تعلیم و تربیت کے فرائض خود سرانجام دئیے اگر سلمیٰ بیگ کو ملازمت کے سلسلے میں جانا ہوتا توعبید اﷲگھر اور بچوں کی ذمہ داری اُٹھا لیتے ، اس طرح گھر کے معاملات دونوں مل جُل کر حل کرتے، ایک دوسرے پر اعتماد، بھروسہ اور یقین رکھتے تھے۔

کسی نے کہا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، عبید اللہ بیگ کی زندگی کی کامیابی کے پیچھے سلمیٰ کا ہاتھ تھا۔ان کی اس بااعتماد اور محبت بھری زندگی کے نمایاں کردار اور بھی ہیں ۔ قدرت نے ان کو تین بیٹیو ں سے نوازا۔
(١)    مریم عبید اﷲبیگ
(٢)    فاطمہ آدرش
(٣)    آمنہ بیگ

علمی اور ادبی ماحول اور بہترین تربیت کے طفیل ان کی تینوں بیٹاں پڑھی لکھی، سمجھدار، شائستہ اور تہذیب یافتہ ہیں ۔ سلمیٰ بیگ اور عبید اﷲبیگ کی شفقانہ تر بیت کا پھل ہے کہ انہیں اتنی نیک اور با صلاحیت اولاد عطا ہوئی۔

زندگی کے ہر شعبے میں ان کے والدین نے ان پر اعتماد کر کے انہیں آزادی دی ہے۔ اور انہیں آگے بٹرھنے کا حوصلہ اور مواقع میسر کیے۔سلمٰی بیگ بہت، نیک وفا شعار، زندہ دل، خدمت گزار بیوی ثابت ہوئیں، بیماری میں انھوں نے عبید کا بہت خیال رکھا۔

[pullquote]علمی ادبی خدمات:[/pullquote]

عبید اللہ بیگ نے علم و ادب کے لیے تسلسل کے ساتھ جو بے مثال کام کیے ہیں، وہ قابل تقلید ہیں، انھوں نے اپنے تجربات اور تحقیق سے آنے والی نسلوں کی راہنمائی کےلئے بے شمار مضامین، اداریے ،ڈرامے، تراجم اور دو ناول بھی تحریر کیے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف جرائد و رسائل سے بھی منسلک رہے ہیں ان کی تمام عمر تحقیق اور مطالعہ کرتے گزری۔

ان کے ڈراموں کے مکالمے جاندار اور پُراثر ہوتے تھے،تجسس کے پہلو کو خاص طور پر اپنے ڈراموں کی زینت بنایا اور اس پر ان کی رواں ، سلیس اور پُر اثر آواز نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا ،سا معین بڑے بے چینی سے ان کے ڈراموں کا انتظار کرتے ،عبیداللہ کے تحریرکردہ ڈرامے آنے والے نو جوانوں کے لیے راہنمائی کا کام دیتے ہیں۔خاص طور پر اسٹیج ڈراموں کے ارتقائی عمل میں یہ ایک زینے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ڈرامے کے علاوہ مختلف جرائدمیں لکھے گئے مضامین ،ادارے اور تراجم بھی ان کا بہت بڑے علمی و ادبی کارنامہ ہے۔ انھوں نے جن اخبارات میں کام کیا وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
١۔الشجاع اخبار
٢۔پی ٹی وی ٹائمز
٣۔حریت
٤۔جریدہ(IUCN)
٥۔ماہنامہ رابطہ
٦۔ماہنامہ انجام(١٩٦٤ء)

[pullquote]مضامین اور تراجم :[/pullquote]

وہ مندرجہ زیل ناموں سے مضامین ،تراجم اور دیگر تصانیف لکھتے تھے۔
١۔حبیب بیگ
٢۔عبیداللہ بیگ
٣۔جم جو نیر
٤۔تُغرل ترکمان
٥۔سبط ناصر خان

ان کے اکثر مضامین اور تحریریں بغیر نام کے بھی چھپتے تھے کیونکہ وہ اپنے نام کی تشہیر سے اکثر گریز کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ اُن کی زندگی کے متعلق زیادہ مواد بکھرا ہوا ہے۔وہ جم جونئیر کاربٹ جو کہ مشہور زمانہ شکاری تھاسے بہت متاثر تھے اور شکار کے متعلق انہوں نے جتنے بھی مضامین لکھے وہ جم جونئیر کے نام سے ہی لکھے، انہوں نے راجپوت ناول میں بھی یہی نام بار بار استعمال کیا۔
وہ جم جونئیر کاربٹ اور جنگلات سے متعلق وسیع معلومات رکھتے ہیں، ان کی عظیم کہانیاں پڑھ کر انہیں بھی لکھنے کی ترغیب ہوئی اور وہ شکاری مضامین کے خالق ٹھہرے ۔تراجم کے سلسلے میں اُن کے کارنامے بے مثال ہیں حریت سے وابستگی کے زمانے میں انہوں نے جو تراجم کیے وہ درج ذیل ہیں:
٭    آدم خور
٭    چی گؤیراکی ڈائری
٭    برازیل کے جنگلوں میں
٭    سکندر صاحب(جمس اسکنر)
اس کے علاوہ جریدہ رسالے میں بھی بہترین ترجمہ کرنے والوں کی فہرست میں وہ سرِفہرست ہیں۔اس رسالے کے مضامین کے سلیس اور رواں تراجم کیے۔

[pullquote]شکار سے رغبت:[/pullquote]

عبید اللہ بیگ کو بچپن سے شکار کا بے حد شوق تھا، وہ ابتداء میں چڑیا کا شکار کرتے تھے ،رفتہ رفتہ یہ شوق بڑھتا گیا ،اُنھوں نے نہ صرف شکار کے حربے سیکھے بلکہ وہ ایک ماہر شکاری بھی بن گئے ،شکار سے رغبت ہی اُنھیں جم کاربٹ کی تحریروں کی طرف کھینچ لائی ،شکار کے متعلق کافی معلومات انھیں ان کے مضامین کے ذریعے ملیں، اس کے بعد انھوں نے جم جونیئر کے نام سے مضامین طبع کرانے شروع کیے ،اس کے علاوہ اُن کے دونوں ناولوں ”اور انسان زندہ ہے ”اور ”راجپوت” میں انھوں نے اپنے شوق کی تکمیل کی خاطر ایک حصّہ شکار کے لیے مختص کیا ہے ۔

وہ کم ہی شکار کرتے تھے ، اگر شکار اُن کے جال میں پھنس جائے تو خود کھانے سے گریز کرتے تھے ،اس کے بجائے اپنے دوست احباب کی نذر کر دیتے ،انھیں پرندوں اور جانوروں سے بے حد پیار تھا ، یہی وجہ ہے کہ گھر میں کافی تعداد میں کبوتر پال رکھے تھے ،پاکستان آنے کے بعد بھی یہ شوق برقرار رہا،شکار سے رغبت کے باوجود انہوں نے جنگلی حیات اور جنگلی نباتات کے تحفظ کی خاطر شکار سے توبہ کر لی اور ماحولیات کے ادارے سے منسلک ہو کراس کی بہتری کے لیے بہت کام کیااور پھر منزلیں طے کرتے کرتے اس میدان میں بہت آگے نکل گئے۔اس کے علاوہ انہوں نے ماحولیات کے موضوع پر لغت کی تیاری جیسا اہم کا رنامہ سرانجام دیا۔

مضامین کے علاوہ وہ ریڈیو اور ٹی وی پر ترجمہ کا کام بھی کرتے تھے، رواں تبصروں میں وہ مختلف سروسز سے منسلک تھے۔جامعہ قاسمیہ اور امدادیہ میں تعلیم، معیاری کتب کا مطالعہ اور اساتذہ کی محنت کی وجہ سے انہیں بہت سی زبانوں پر کم عمری میں ہی عبور حاصل ہو گیا تھا۔انگریزی، فارسی، ہندی، سنسکرت کے علاوہ ملکی زبانوں میں سندھی اور بلوچی پر بھی دسترس حاصل تھی۔ ان کو ماہر لسانیات کہا جاتا تھا۔لسانیات ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔

عبید نے مذہبی موضوعات پر بہت مضامین لکھے انہیں اسلامی تاریخ خلفا ءکی تاریخ ، بنوامیہ ، بنو عباس، بنو عثمان اور باقی مملکتوں کے متعلق وسیع معلومات تھیں انہوں نے اپنے مضامین کے لیے جنگوں، تحریکوں ، مہمات اور اس سے منسلک ہر قسم کی معلومات چنی تھیں، اس کے علاوہ مغلیہ سلطنت کی تاریخ اور راجپوتوں کے متعلق باریک بینی سے مطالعہ تھے اور مضامین بھی لکھتے تھے، اکثر انگریزی کتب سے مطالعہ کر کے ترجمہ کی صورت مضامین لکھا کرتے تھے۔ ایسے مضامین لکھنے اور تراجم کرنے پر خاص دستر س حاصل تھی۔

[pullquote]”آئی یو سی این ”میں ملازمت:[/pullquote]

عبیداللہ بیگ بچپن سے شکار کے شوقین تھے، رفتہ رفتہ ماہر شکاری بن گئے۔زاہدہ حنا اپنے مضمون عبیداللہ بیگ:”اب انہیں ڈھونڈ ” میں لکھتی ہیں :
”وہ ایک ماہر شکاری تھے ۔انہیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ وہ کون سی گھڑی تھی جب ایک شکاری شیر،مارخور،بارہ سنگھا اور برفانی ریچھ کی معدوم ہوتی ہوئی نسل کا محافظ بن گیا اورماحولیات کی تباہی ان کا ذاتی مسئلہ ٹھہری ”۔

١٩٩٢ء میں عبیداللہ بیگ ـ”IUCN”سے اُس وقت منسلک ہوئے جب”IUCN”کو ماحول کی بہتری کی طرف راغب کرنے کے لیے اپنی تجاویز لوگوں تک منتقل کرنے کی ضرورت پیش آئی ، وہ”IUCN”یعنی International Union for Conservation of Nature and
Natural Resources میں کو آرڈینیٹررہے۔ عبید اللہ بیگ نے جب رسالہ ”جریدہ” کی ادارت سنبھالی تو پھر انھوں نےماحولیات کی بہتری اور اس کے متعلق معلومات ِعامہ پہنچانے کے لیے دستاویزی فلمیں بھی تخلیق کیں۔وہ بنیادی طور پر انسان دوست اور ماحول دوست شخص تھے ،مناظر فطرت ان کی کمزوری تھی، وہ ہر ممکن اس کے تحفظ کی کوشش میں لگے رہتے ، وہ ماحولیات کے ماہر تھے، انہوں نے آئی یوسی این کے سینیئر ترین عہدے تک ترقی پائی.

یہ نوے کی دہائی کے وسط کا زمانہ تھا، جب انہوں نے یہ ملازمت شروع کی، تب میڈیا نے اتنی ترقی نہ کی تھی، عوام ماحولیات سے ناواقف تھے، اس سلسلے میں حکومت پوری کوشش کر رہی تھی کہ عوام کو اس مسئلے سے آگاہ کیا جاسکے، چنانچہ حکومت وقت نے ذرائع ابلاغ اور عوام تک ماحول کی بات پہنچانا ضروری سمجھا، اس سلسلے میں آئی یوسی این نے بھرپور تعاون کا وعدہ کیا اور حکومت کے شانہ بشانہ سرگرم رہے، جب تراجم کا مسئلہ درپیش ہواتو عبیداللہ بیگ کی خدمات طلب کی گئی اورانھوں نے اسے خندہ پیشانی سے قبول کر لیا۔انہوں نے اسے چیلنج سمجھ کر کام شروع کیا، سب سے پہلے تو انہوں نے صحافی برداری کے لئے آئی یو سی این کے کنٹری آفس کراچی میں جرنلسٹ ریسورس سینٹر قائم کیا۔

جس کا مقصد ان کی تربیت، ماحولیاتی مسائل سے آگاہی، معلومات، اعدادوشمار، ملکی و غیر ملکی مسائل کے حوالے سے رائے عامہ کی بیداری، مسائل کا حل اور تحفظ ماحول کی آگاہی شامل ہے، انہوں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں ماحولیاتی حوالے سے تربیتی ورک شاپز کا اہتمام کیا، جس کے کافی مثبت اثرات مرتب ہوئے انہوں نے ہی ماحولیاتی صحافت کی داغ بیل ڈالی، اور نوجوانوں میں ماحولیاتی تحفظ کا شعور بیدار کیا۔

پاکستان میں” جریدہ” کا آغاز آج سے بیس سال پہلے شروع ہوا تھا اور اب تک جاری ہے۔صحافیوں کو اس نئے کام میں مہارت نہ ہونے کے سبب کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، عبیداللہ بیگ نے ان کی ہر ممکن اعانت کی اور ان کی آسانی کے لیے "فرہنگ ماحولیات” کے نام سے ماحولیاتی اصطلاحات پرمبنی ایک لغت بھی تیار کی، یہ لغت ہر رپوٹر کے لیے رہنمائی کا زینہ ہے جسے سر کر کے وہ باآسانی اپنا کام کر سکتا ہے۔انہوں نے صحافیوں کی تربیت کے لیے فیصل آباد میں ایک پانچ روزہ ورکشاپ منعقد کروائی۔یہ ورکشاپ فیصل آباد کے مضافات گٹ والا میں ماحولیاتی حوالے سے ہوئی، اس کے شرکاء کو ماحول جنگلی حیات اور جنگلات کے تحفظ کو بڑے سادہ اور عام فہم الفاظ میں سمجھایا گیا اور ا س طرح اُن پر غوروفکر کی راہیں ہموار ہوگئیں۔

[pullquote]عبید اﷲبیگ کے ناول:[/pullquote]

یوں تو ناول نگاری کے ضمن میں کئی نام آتے ہیں جنہوں نے ناول کی دنیا میں بہت نام کمایا، ساٹھ کی دھائی میں اس فہرست میں ایک اور نام آیا ،”عبید اﷲبیگ” نے ناول کی سرزمین میں قدم رکھا، انہوں نے فقط دوہی ناول لکھ کر اردو ادب میں اپنا نام اور مقام و مرتبہ حاصل کرلیا۔یوں تو انہوں نے بہت سے تراجم، کالم اور مضامین لکھے لیکن جس صنف نے انہیں عروج تک پہنچایا وہ ناول نگاری ہی تھی، انھوں نے تاریخ کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا کیوں کہ تاریخ اُن کا پسندیدہ موضوع تھا۔ ان کے ناول حیاتِ انسانی کے اخلاقی ، سیاسی ، معاشرتی، مذہبی اور تہذیبی پہلوؤں کے مظہر ہیں، یہ ہمیں زندگی کی کمزوریوں اور لغزشوں سے ہم آشنا کر کے اس کا حل نکالنے اور راہنمائی کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

عبید اللہ بیگ انسانی نفسیات سے خوب واقف تھے، ان کا مشاہدہ بہت گہرا اور مطالعہ بہت وسیع تھا، وہ حساس ناول نگار کی حیثیت سے منظر عا م پر آئے، وہ معاشرے کے لئے عمدہ مصلح ،اعلٰی پائے کے ناصح بھی ثابت ہوئے، ان کا سب بہترین تخلیقی اظہار ان کے ناولوں میں سامنے آیا ہے۔ برصغیر کی مٹتی ہوئی تہذیبی روایات تاریخ اور معاشرے میں پھیلی برائیاں ان کے ناولوں کا خاص موضوع تھا، ان کے دو ناول” اور انسان زندہ ہے!”اور” راجپوت” اسی فلسفے کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ان کے دونوں ناولوں کی تفصیل کچھ یوں ہے:

١۔     اور انسان زندہ ہے! ”      ٹائمزپریس لِمٹیڈ
٢۔     "راجپوت”         نیشنل بک فاونڈیشن

[pullquote](١) ناول ”اور انسان زندہ ہے!”[/pullquote]

اور انسان زندہ ہے! ” عبیداللہ بیگ کا پہلا تاریخی اور معاشرتی ناول ہے جوکہ الشجاع رسالے میں قسط وار چھپتا رہا، اس ناول کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ١٩٦٠ء میں اس کی پہلی اشاعت کی تمام کاپیاں فروخت ہوگئیں قارئین نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ، غیاث الدین جو الشجاع رسالہ کے مالک نے اسے معرکہ آراء ناول قرار دیا ہے، انھوں نے کم سنی میں یہ کہانی لکھنے کے باوجود ایسا نفیس اور عمدہ اسلوب بیان اختیار کیا ہے کہ اس پر ایک بزرگ اور ماہر مصنف کا گمان ہوتاہے،انیس بیس سال کی عمر میں ایسا نادر نمونہ پیش کیا کہ سب دھنگ رہ گے۔

اس ناول میں انھوں نے انسان دوستی کا درس دیا ہے۔ جرائم پیشہ افراد کی زندگیوں کی نقاب کشائی کی ہے۔ انسان کی زندگی کے نشیب و فراز کا بھیانک عکس دِکھایا گیا ہے۔کوئی شخص انسان سے درندہ کیسے بن جاتا ہے اس تلخ حقیقت کو ہمارے سامنے آشکارا کیا ہے، ناول میں مختلف معاشروں کی عکاسی جزئیات نگاری کی حد تک کی ، خاص طور پر پٹھانوں کی معاشرت، تہذیب وتمدن، روایات اور رہن سہن کو تفصلاً پیش کیا گیا ہے۔ معاشرے میں پھیلی ناانصافی، مذہب اور غیرت کے نام پر قتل ، انسانیت کی بے حرمتی اور بے رحمی و سنگدلی کی دل ہلانے والی داستانوں کے ذریعے حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔

ناول میں ہھتیاروں کے غلط استعمال، فسادات، قبیلوں کی ذاتی دشمنی، دولت واختیارکے ثمرات، ملک کی تباہی، انسانیت کا خون، اور خوف و ہراس جیسے حساس پہلوؤں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ کہانی کا ہیرو نریندر سنگھ جو ذات کا ہندو تھاوقت اور حالات کے ہاتھوں وحشی درندہ ناہر سنگھ بن گیا، پختہ عزم اور بلندہمتی کا یہ انسان، انسانیت کا قتل عام نہ برداشت کر سکا اور اپنی زندگی داؤ پر لگا کر ان مظلوم اور بے کس انسانوں کا آخری سانس تک بدلہ لیتا رہا۔اس ناول میں عبید اللہ بیگ تلخ حقیقت نگار کے طور پر حالات و واقعات پیش کرتے ہیں اُن کا ہر جملہ قاری کے دلوں پروارکرتا ہے اُسے معاشرے میں ہونے والے مخفی جرائم سے آشنا کر کے اس کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کادرس دیتا ہے۔ان کے ناول کا مرکزی نقطہ انسانیت سے محبت ہے۔

ولولہ انگیز ناول اپنے دامن میں انسانیت کی سیسہ کاریوں سے پردہ اٹھاتا ہے، جس میں ایک نوجوان مجبور ہو کرتباہی و بربادی کا راستہ اختیار کرتا ہے، اور اس کا ذمہ ار معاشرے کو ٹھہراتا ہے ،ناول میں اس گاؤں کی تباہی کے دل سوز حالات و واقعات درج ہیں جنھیں پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ انسانیت کا بہت بڑا المیہ ہے کہ اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سڑکوں اور بازاروں میں پھینک دیے جائیں، دولت و مرتبے اور بغض حسد کی آڑ میں پورے خاندان کا قتل عام کر دیا جائے یہ کہاں کی انسانیت ہے ؟؟قارئین اس وقت دلی سکون محسوس کرتے ہیں جب نر یندر سنگھ سجن کے پورے خاندان کا تن تنہا بدلہ لیتا ہے۔

اس ناول کی سب سے بڑی چیز اس کی زبان و بیان اور اسلوب ہے۔انھوں نے بہت سادہ الفاظ میں ہمارے معاشرے کی خامیاں اور خوبیاں بیان کی ہیں۔یہ ناول عبرتناک نتائج سے رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان ہے۔

[pullquote]٢) ناول (راجپوت):[/pullquote]

”راجپوت ”عبیداللہ بیگ کا خالصتا تاریخی ناول ہے،یہ ناول ٢٠١٠ء میں شائع ہوا۔یہ ناول ١٩٤٥ء؁کی جنگ عظیم دوم کے پس منظر میں پیش آنے والے حالات و واقعات کے زیر ِاثر لکھا گیا ہے۔انھوں نے غیر محسوس طریقے سے انتہائی خشک واقعات کو کہانی کی شکل دے کر عمدہ پیرائے میں پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ناول میں جنگِ آزادی کے بعدتقسیمِ ہند کے نتیجے میں ریاستوں کے خاتمہ اور الحاق کا مسئلہ زیر ِ بحث ہے۔

مسلمان اور ہندو انگریزوں کے تسلط سے دل برداشتہ ہو کرآزادی کے خواہاں ہیں جبکہ ایک تیسرا طبقہ اس آزادی سے ناخوش دِکھائی دیتا ہے۔ اقتدار کی بقا و سا لمیت اُن کی تحر یک کا منشورہے وہ کسی صورت اس سے ہا تھ نہیں دھونا چا ہتے، طویل مدت حکمرانی کا نشہ اتنی آسانی سے کہاں ٹوٹتا ہے، رفتہ رفتہ یہ نشہ ایک مشن کی صورت اختیار کر گیا، ہندوستان کے بیشترعلاقوں میں اس کے کارندے کام کر رہے تھے، اپنی عزت وناموس ،قدیم تہذیب وتمدن، عیش و آرام ، اور مرتبے کی سا لمیت کے لیے وہ یہ جنگ لڑتے رہے ، لیکن آزادی ان کی زندگیوں پر زلزلے کی طرح نازل ہوئی اور ان کے وقار اور اقتدار کو کچلتی ہوئی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوئی۔

عبید اللہ بیگ نے ناول میں راجپوت قوم کے اقتدار کا عدم تحفظ عیش و عشرت اور خاندان کی تاریخ کو جزئیات کے ساتھ پیش کیا ہے۔

ناول میں خفیہ ایجنسیوں کے کام اور حرکات و سکنات کو جزئیات کی حد تک پیش کیا گیا ہے ۔مختلف کرداروں کوبھیس بدل کر ان ایجنسیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔رازداری کا یہ عالم ہے کے جان بھی اس کے لئےغیر معمولی چیز نظر آتی ہے۔ انھوں نے خفیہ مشن کے واقعات کو ایسے پراسرار انداز میں بیان کیا ہے کہ عقل محو حیرت دِکھائی دیتی ہے۔یہ ایک ضخیم ناول ہے ، اس کتاب کا سائز بھی عام کتابوںکی بنسبت بڑا پرکشش ہے۔اس ضخیم ناول میں عبید نے بہت سے موضوعات کو یکجا کر کے اس کا حسن دوبالا کر دیاہے۔ خاص طور پر شکار کاموضوع بڑے دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے ،اس کا انتساب بھی بڑا پُر کشش ہے، انتساب میں لکھتے ہیں :

”برصغیر کے نسل پرستوں کے نام آخری رزمیہ داستان”۔

فوجی تاریخ کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے وہ رزمیہ داستان کو آگے بڑھاتے ہیں اور ان کی زندگی کے احوال سے پردہ اُٹھاتے ہیں۔ کرنل بریگیڈ ئیر جمشید خان کیانی کا کردار دہرا اور مثبت کردار ہے، اس کی بے لوث خدمات قارئین کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ان کے کردار میں عبید اﷲبیگ کا عکس جھلکتا ہے۔

ہندو راجاؤں کی سر توڑ کوششوں کے باوجود انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی، ان کے خواب مٹی میں مل گئے، صدیوں کے اقتدار کا گلا گھونٹ دیا گیا، وہ ایک لمحے میں آسمان سے زمین پر آگئے۔مصنف نے ایک تلخ حقیقت کا بھی انکشاف کیا ہے کہ آنے والے وقت میں ہمارا کیا حال ہوگا، ہماری قدیم تہذیب و ثقافت اور ہمارے خوابوں کا انجام کیا ہوگا، یہ فکر تجزیہ وقت کے ساتھ ساتھ درست ثابت ہوا، آزادی مذہب کے نام پر حاصل کیا جانے والا یہ ملک نفاذِ شریعت کے شور میں روز بروزدین سے دورہوتا جا رہا ہے، آج ہم بے دھڑک مغربی تہذیب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ، اسلام کے نام پر آمریتوں کے قیام نے اس آزاد وطن میں ہم سے آزادی رائے کا بھی حق چھین لیا ہے۔

[pullquote]انسان دوستی اور سادگی[/pullquote]

عبید اللہ بیگ کے اخلاق و عادات کا سب سےنمایاں وصف ان کی انسان دوستی اور سادگی تھی۔ وہ بہت منکسر المزاج تھے،د وسروں کو تکلیف دینا خودکو تکلیف دینے کے مترداف گردانتے تھے۔ ہر چھوٹے، بڑے ، امیر و غریب کی مدد جان پہچان کے بغیر کرتے تھے، اس سلسلے میں عامر سلطان خان جو کہ اُن کے بھانجے ہیں ایک واقع سناتے ہیں جو اُن کی انسان دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے واقعہ کی طوالت کے سبب میں مختصر الفاظ میں قلم بند کرتی ہوں: ؑعامر صاحب رابطہ رسالہ جولائی ٢٠١٢ءمیں لکھتے ہیں کہ عبید ماموں کے جنازے پر ہر آنکھ اشکبار تھی لیکن ایک شخص جو زاروقطار روئے جا رہا تھا میں نے جنازے کے بعد اُسے قریب بُلا کر پوچھا کہ تم کون ہو کیا رشتہ ہے تمھارا عبید ماموں سے؟؟؟ پہلے تو اُس نے بتانے سے انکار کر دیا پھر میرے بے جا اسرار پر اُس نے واقعہ سنانا شروع کیا۔

ایک دن سخت سردی تھی میں ائرپورٹ کے قریب کھڑا تھا کہ عبید صاحب نے مجھے اشارہ کیا میں نے اُن کو ٹیکسی میں بٹھا یا اور روانہ ہوگیا، رستے میں میرے گھر سے فون آیا کہ میر ی بچی بہت سخت بیمار ہے جلدی آؤ میں نے کہا میں تو سواری لے کر جا رہا ہوں، عبید اللہ نے میری یہ گفتگو سن لی میری طرف مخاطب ہو کر کر کہنے لگے کہ فوراً گاڑی کا رخ اپنے گھر کی طرف کرو ایک انسان کی زندگی خطرے میں ہے اُن کے بے حد اسرار پر میں نے گاڑی اپنے گھر کی طرف موڑ دی گھر سے بچی کو لیا ڈاکٹر کی فیس اور دوائی کے پیسے انھوں نے اپنی جیب سے خرچ کیے اپنی قیمتی گرم شال بچی پر اُوڑھوا کر خود دوسری ٹیکسی پر گھر کے لیے روانہ ہو گے تین چار دن تک مسلسل تیمارداری کے لیے آتے رہے دوائیاں بھی دلوائیں۔ جب بچی صحت یاب ہو گیا تو بہت خوش ہوئے۔

عبید اللہ بیگ ایک ہمدرد انسان تھے، کسی انسان کو دکھ اور تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے، وہ نہ صرف انسانوں بلکہ باقی مخلوقات سے بھی ہمدردی اور محبت کرتے تھے، جانوروں سے پیار کرنا اُن کی آؤبھگت کرنا اُن کا مشغلہ تھا۔ بلی کے بچوں کو سردی سے بچانے کے لیے کمبل میں لپٹتے اُن کو گرم دودھ پلاتے، شفقت سے ہاتھ پھیرتے، اسی طرح پرندوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے، زخمی پرندے یا جانور کو دیکھتے تو گھر لے آتے اور اس کی خوب خدمت کرتے، صحت مند ہونے پر چھوڑ دیتے۔

انسان سے محبت اور انسانیت کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھنے والے عبید اللہ بیگ نے اور ” انسان زندہ ہے!” کے نام سے ناول لکھ کر انسانیت کے لیے دِلی جذبات اور احساسات کو اُبھار کر تمام لوگوں کو انسانیت کا درس دیا ہے۔

اُن کے اخلاق و عادات اعلٰی معیار کے تھے، بہت نرم لہجہ تھا، آہستہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کے بولتے، غصّہ کم ہی آتا تھا۔ بڑوں سے تو ادب سے پیش آتے ہی تھے لیکن بچوں سے بھی اچھے انداز میں گفتگو کرتے تھے، خواتین کا بے حد احترام کرتے تھے۔

انھوں نے کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا، ہر ایک سے شگفتہ چہرے سے ملتے تھے، لبوں پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ رہتی تھی، تمام خاندان اُن کے اخلاق و عادات سے بے حد متاثر تھا، انھیں عبید اللہ بیگ پر فخر تھا۔

وہ پہلی ملاقات میں ایسے ملتے جیسے صدیوں سے جانتے ہیں، اجنبیوں سے بھی گھل مل جاتے، غریب غربا سے محبت اور اُن کی مدد ، امداد اُن کا خاصہ تھا، ان سے ہمیشہ شگفتہ انداز سے گفتگو کرتے ، عمر گُل آفریدی اس بارے میں لکھتے ہیں:

”میرے مشاہدے میں کبھی نہیں آیا کہ انہوں نے کسی کو جھڑکا ہو، ڈرائیور اور چپڑاسی کے ساتھ بھی احترام کر کے اور اس کی عّزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے بات کرتے تھے، نتیجہ یہ تھا کہ تمام عملہ ان کے کام میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا،تقریبات میں وہ اجنبیوں کے ساتھ اتنے تپاک سے ملتے جیسے برسوں سے شناساہوں ۔۔۔۔اور کیوں نہ ہوں؟ وہ انسان دوست جو ٹھہرے!”۔

بھٹو اور ضیاالحق بھی ان کے اعلٰی اخلاق اور ادبی کارناموں کی بہت قدر و منزلت کرتے تھے، وہ بے انتہا محبت کرنے والے با اخلاق شخص تھے، اُن کی عادات بہت نکھری نکھری اور سب سے الگ تھیں، دوسروں کی عزت کرنا ،چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا اپنا فرض سمجھتے تھے، ادب و آداب سے دوسروں کی بات کو غور سے سننا اور پھر پیار اور ہمدردی کے ساتھ اُسے سمجھانا اُن کی فطرت ثانیہ تھی۔

عبید اللہ بیگ کو اللہ تعالیٰ نے محبت و شفقت کا ملکہ عطا کیا تھا، انھوں نے اپنی زندگی انسانیت اور علم و ادب کے لیے وقف کر رکھی تھی، ان کی طبیعت ہمدردانہ اور مزاج عاجزانہ تھا، انھوں نے اپنی پوری زندگی میں حسد، جلن اور بغض کو اپنے قریب نہیں آنے دیا، اگر ان کے سامنے کسی کے غیبت کی جاتی تو وہ اس کو مثبت انداز میں بیان کر کے گفتگو کا رخ کسی اور طرف موڑ دیتے اور اُسے باتوں باتوں میں اس طرح سمجھاتے کہ اسے محسوس تک نہیں ہوتا تھا۔

طبعًاوہ بہت شرمیلے تھے لیکن جب بات علم و ادب کی آتی تو وہ بے تکان بولتے اور بحث و مباحثہ میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے، فراغ دل اتنے تھے کہ اپنی ضرورت کے باوجود بھی دوسروں پر خرچ کرتے رہتے، اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں خدا ترسی بھی ڈال رکھی تھی اپنے دفتر میں بلا ضرورت چار چار ملازمین رکھے ہوئے تھے محض اس خاطر کہ اگر میں نے ان کو نکال دیا تو ان کا کیا ہو گا۔ ان کی تنخواہ کے علاوہ جو ضرورت ہوتی وہ بھی پوری کر دیتے۔ افتخار عارف ان کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں:

” ایک مرتبہ عبید اللہ بیگ کے ساتھ دن بھر شہر گھوما اور مختلف لوگوں سے ملا اور اس دوران سارا دن عبیدنے ایک ٹیکسی کو اپنے ساتھ رکھا، جب سفر تمام ہوا، اور عبید نے تمام دن کا کرایہ جو طے ہوا تھا ، ادا کرنا چاہا تو ٹیکسی والے نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ صاحب دن بھر جو اچھی باتیں میں نے آپ لوگوں سے سنیں وہ پہلے نہیں سنی تھیں ، میرے لیے یہی بہت ہے”۔

تاریخ میں اُن جیسا محبت کرنے والا اور قدرومنزلت کرنے والا شاید اب کہیں بھی نہ ملے۔انھیں ادبی محافل سے بھی بڑی گہری دل چسپی تھی وہ اکثر اندرون ملک اور بیرون ملک ان محافل میں شرکت کے لیے جاتے تھے، وہ بہت ہنس مکھ انسان تھے ، ان کی اسی خوبی کے باعث لوگ ان سے محبت کرتے تھے، وہ انسانیت کے علمبردار اور دوسروں کے لیے فکر مند رہنے والے تھے، سادگی پسند تھے، جو مل گیا، جیسا مل گیابے چوں چراں کھا لیتے ، پہن لیتے، کسی سے تلخ کلامی نہیں کی اور اگر ان سے کوئی نازیبا گفتگو کرتا بھی تو خاموش ہوجاتے، برداشت و تحمل کا مظاہرہ کرتے۔

مجموعی طور پر وہ سادہ مزاج، منکسرالمزاج، شریف النفس، بذلہ سنج، مہذب، آدب آداب اور اعلیٰ اخلاق کے پیکر انسان تھے۔

[pullquote]اسلامی سربراہی کانفرنس:[/pullquote]

پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس جو لاہور میں منعقد ہوئی تھی اس کی براہِ راست کمنٹری کا اعزاز عبیداﷲبیگ کو حاصل ہے۔اس کانفرنس میں جب براہ راست تبصرہ کے لیے مختلف نام دئیے گئے توعبیداﷲبیگ کو ہی اس اہم کام کے لیے منتخب کیا گیا،ان کے موزوں الفاظ ،پرُ تکلف لہجہ، بہترین آواز وانداز ِبیان اور تبصرہ نگاری میں مہارت نے فیصلہ کرنے میں آسانی پیدا کر دی، اور انہوں نے کانفرنس کے دوران پُر جوش انداز اور عمدہ بیان کی بدولت تقریب کو چار چاند لگا دیئے ، انھیں اپنے اس کارنامے پر بڑا فخر تھا۔

[pullquote]اعزازات:[/pullquote]

عبیداﷲبیگ نے ہندوستان اور پاکستان کے لیے بے مثال علمی اور ادبی کارنامے سرانجام دئیے اور اپنے قلم اور زبان سے بے مثال قربانیاں دیں وہ آخری سانس تک کام کرتے رہے، اُن کی اَن تھک محنت اور کوشش کے طُفیل حکومتِ پاکستان نے ١٤/ اگست ٢٠٠٨؁ءمیں حسنِ کارکردگی کے صدارتیِ ایوارڈ سے نوازا گیا۔

عبیداﷲبیگ نے نہ صرف اپنے ملک میں نام کمایا بلکہ بیرونِ ملک بھی لوگ ان کے کام کو سراہتے تھے اور اُن کی قدر کرتے تھے،اُن کو ملنے والے سرکاری اور غیر سرکاری اعزازات کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔

”١۔    تمغہ حُسنِ کارکردگی
٢۔    پی ٹی وی کی جانب سے طویل اور اعلیٰ کارکردگی کا اعتراف و سپاس۔
٣۔    ادراہِ قلم دوست کی جانب سے گورنر ہاؤس کراچی میں منعقدہ تقریبِ پزیرائی۔
٤۔    دستاویزی فلموں پر متعدہ انعامات۔
٥۔سکالرآنسہ پروین نے اُن پرایم فِل کا مقالہ لکھ کرسند حاصل کی ۔عنوان”عبید اللہ بیگ”۔

اس کے علاوہ ان کی ادبی خدمات کے صلے میں ١٧/اپریل ٢٠١٢ء کو عبیداﷲبیگ کے نام سے ان کے اعزاز میں ایک تقریب پذیرائی بھی منعقد کرائی گئی، جس میں دنیائے صحافت و ادب کے ممتاز دانش ور، دور دراز علاقوں سے شرکت کرنے کے لیے تشریف لائے اور اپنے اپنے انداز میں ان کے علمی و ادبی کارناموں کو بھر پور انداز میں سراہا۔ بیگ صاحب نے معاشرتی طور پر بھی کئی کارنامے سر انجام دئیے اُن سے جتنا ممکن ہوا اُس میں نکھار پیدا کرنے کی کوشش کی ان کی عظمت کا اعتراف اس بات سے ہوتا ہے کہ جنرل یحییٰ خان عبید اللہ بیگ کو ستارہ امتیاز دینا چاہتے تھے لیکن انہوں نے یہ تمغہ اس لیے لینے سے انکار کر دیاکہ وہ اپنے دوسرے دوستوں افتخار عارف اور قریش پو ر کو بھی یہ ایوارڈ دلوانا چاہتے تھے، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے وہ اس تمغہ سے دست بردارہو گئے۔

[pullquote]اندرونی و بیرونی اسفار:[/pullquote]

عبیداﷲبیگ سےسیروسیاحت کے بے حد شوقین تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں پاکستان کے قابل ذکر شہروں کے علاوہ لندن، امریکہ اور اسلامی ریاستوں کی بھی سیر کی اور ان پر متعد فلمیں بھی بنائیں۔حج و عمرہ کی خواہش کے باوجود بھی انہیں یہ سعادت نصیب نہ ہوئی۔

[pullquote]بیماریاں اور انتقال:[/pullquote][pullquote]

عبید اﷲبیگ کافی مدت سے علیل رہتے تھے، ان کی طبعیت میں نقاہت روز بروز بڑھتی جارہی تھی، لیکن طبعیت کی ناسازی نے کام کی لگن کو آڑ ے نہ آنے دیا۔ وہ مسلسل کام میں محور ہتے تھے، اور اپنی بیماری کی شدت کے باوجود کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے، ان میں بہت برداشت اور تحمل تھا۔دل کے عارضہ میں مبتلا ہونے کے بعد بہت کمزور ہو گئے تھے، اُس کے بڑھ جانے کے سبب بائی پاس ہواجس سے کافی حد تک ٹھیک ہو گئے تھے، تاہم جو بیماری جان لیوا ثابت ہوئی وہ پتے کا کینسر تھا۔

عبید اﷲبیگ کی ہمشیرہ بیگم خورشید مظہر اپنے بھائی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں:
”انہیں دل کا عارضہ کافی مدت سے تھا،بائی پاس بھی کروایا ،وہ ٹھیک ہو گئے تھے، البتہ پتے کے کینسر نے ان کی جان لے لی”۔

کام کی زیادتی کے باعث دن بہ دن اُن کی صحت بگڑتی جارہی تھی ان کی بیٹیوں کے فون اور موبائل فون پیغامات آرہے تھے کہ بابا اب بس کر دیں اور کام نہ کریں آرام کریں لیکن اس بندہ خُدانے آرام نہ کرنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ایسی حالت میں بھی راتوں کو دیر تک جاگنا، کام میں مگن رہنا اُن کا معمول تھا۔

کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد جمعہ المبارک کو صبح صادق سے پہلے ان کی روح اس جہاں فانی سے کوچ کر گئی، ان کی موت ایک سانحہ سے کم نہ تھی، انتقال کے وقت ان کی عمر’ ‘٧٥” برس تھی۔٢٢جون ٢٠١٢ء؁کو علم و ادب کا ایک اور چراغ گُل ہو گیا، ان کی موت پر ہر شخص رنجیدہ اور غمگین تھا، ہر آنکھ پُر نم تھی۔کراچی کے علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی سلطان مسجد میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی، اس دوران اتنا جم غفیر تھاکہ تِل دھرنے کی بھی جگہ نہ تھی، لوگ اُن کا آخری دیدار کرنے کے لیے ترس رہے تھے، نماز جمعہ کے بعد ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور ڈی ۔ ایچ۔اے(DHA)کے گزری قبرستان میں ان کی تدفین کی گئی۔انہوں نے اپنے سوگوار خاندان میں ایک بیوہ اور تین بیٹیاں چھوڑیں۔بیگ صاحب جیسے عظیم انسان کی مو ت پر اپنے تو کیا اجنبی بھی دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے، اس کے پس منظرمیں ان کا علم و ادب ، انسان دوستی، اخلاق و عادات اور رحم دلی تھی۔

ان کی موت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، چنانچہ پاکستان میں ہر طبقہ کے افراد کا سیلاب دور دراز علاقوں سے اُمڈ آیا، ان کے دوست احباب اور دیگر عزیزواقارب کے علاوہ عام لوگوں کا ہجوم بھی موجود تھا، ان کے جنازے میں جن اہم اشخاص نے شرکت کی ان میں افتخار عارف، غازی صلاح الدین، قریش پور، اسلم اظہر، آرٹس کونسل کراچی کے صدر محمد احمد شاہ ،پروفیسر این ڈی خان، فرہاد زیدی، انور مقصود، راحت کاظمی، منور سعید، نصیر ترابی، شایداقبال پاشا، امین یوسف ، بہروزسبزواری اور دیگرنمایاں ںشخصیات بھی شامل تھے۔میڈیا نے ٹی وی اور اخبارات میں ان کے انتقال کی خبریں وقفےوقفے سے نشر کیں۔

تدفین کے بعد تعزیتی بیانات کا سلسلہ بھی شروع ہوا، ایم کیوایم کے الطاف حسین، گورنر سندھ عشرت العباد خان، کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد قیصر، انٹر میڈیٹ بورڈ کے چئیر مین انور احمد زئی اور صدر اور وزیراعظم نے علم و ادب کے قیمتی سرمایہ کے رخصت ہونے پر ملال اور افسوس کا اظہار کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے