ایک گم راہ کا مرشد ، طالب جوہری

گھر میں نماز پڑھنا اور روزے رکھنا تو سکھایا گیا لیکن کسی نے یہ نہیں بتایا کہ مسلک کس بلا کا نام ہے۔ گھر سے الگ الگ سمتوں میں تین مساجد تھیں، جہاں مختلف اوقات میں جمعہ ہوتا۔ جمعے کا دن آتا تو اصول یہ تھا کہ ابو کے ساتھ سب بھائی اکٹھے نکلیں گے۔ یہی اصول عید کی نماز کے لیے بھی تھا۔ اب کسی روز سب جلدی تیار ہو جاتے تو کسی روز کوئی ایک تاخیر کا سبب بن جاتا۔ ایک مسجد میں جمعہ یا عید نہ پڑھ پاتے تو دوسری کا رخ کر لیتے، وہاں بھی قضا ہو جاتا تو تیسری مسجد تو تھی ہی۔ نمازیوں کو دیکھتے تو ہر جگہ ان کے طریق میں کچھ فرق پاتے پر ہم اسی طریق پر ہاتھ باندھتے جیسا گھر میں سکھایا گیا تھا۔ نماز کے بعد کہیں ذکر بالجہر ہوتا تو ہم بھی کر لیتے ورنہ سیدھے سبھاؤ دعا مانگ کر گھر چلے آتے۔ یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا کہ ایک مسجد دیوبندیوں کی ہے، ایک بریلویوں کی اور ایک اہل حدیث کی اور سب کو ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کا حکم ہے کہ مسلک میں ہر وقت وبا کی حالت رہتی ہے۔

شیعہ سنی میں فرق البتہ جلدی معلوم ہو گیا کیونکہ ان کا امام باڑہ جو گھر سے نظر آتا تھا، وہاں ابو کبھی نہیں لے کر گئے۔ رمضان میں جب یہ معلوم ہوا کہ ان کا روزہ تاخیر سے کھلتا ہے تو ان پر ترس بھی آیا لیکن اس سے زیادہ کیا فرق ہے، کیا فرق ملحوظ رکھنا ہے، اس کی کسی نے تعلیم دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ محرم میں تعزیہ نکلتا تو دیکھنے والوں میں ہم بھی شریک ہو جاتے۔ کچھ اور بڑے ہوئے تو کچھ شیعہ دوستوں کے ساتھ مجلس میں بھی جانا شروع کر دیا۔ اس وقت امام باڑے کے دروازے پر کوئی نام نہیں پوچھتا تھا ، کوئی شناختی کارڈ بھی نہیں دیکھتا تھا ، لیکن یہ وہ وقت تھا جب کسی نے کمر سے قمیض ہٹا کر گولی مارنا بھی نہیں سیکھا تھا۔ ذبیحے کا تعلق ابھی صرف عید اور جانوروں سے تھا، انسانوں کی باری آنے میں ابھی دیر تھی۔

ہمارا مسلک ، گرچہ ہم اس سے واقف نہیں تھے، ذرا خشک سا مسلک تھا۔ اس میں کوئی ایسی تہذیبی رمق نہیں تھی جس کا تعلق انسانوں کے اکٹھ سے ہو، ان کی خوشی یا غم کے اشتراک سے ہو۔ موسیقی پر کوئی پابندی تو نہیں تھی لیکن یہ معلوم تھا کہ اسے کوئی اچھا بھی خیال نہیں کیا جاتا۔ عیدین پر لوگوں سے گلے مل لیتے تھے، کچھ پکوان پکا لیتے تھے، بس ہو گئیں رسومات، رواج بھی اتنے ہی تھے ، اس کے بعد ثقافت کی سرحد ختم ہو جاتی تھی ۔ ایسے میں ایک ایسے بچے کے لیے جس میں تخلیق کے کچھ جرثومے اپنا رنگ دکھا رہے تھے، عید میلاد النبی کی پہاڑیاں اور محرم کے تعزیے ہی وہ مظہر تھے جو اس کا ایک ان دیکھی مذہبی ثقافت سے رشتہ جوڑتے تھے اس لیے ہم ربیع الاول اور محرم دونوں کا بڑی دلجمعی سے انتظار کیا کرتے۔

عید میلادالنبی کا حلیہ ہمارے بچپن سے جوانی تک آتے آتے ایک غیر محسوس طریقے سے بدلتا گیا۔ لاہور میں اس عید پر دکانیں، بازار اور مساجد سبز قمقموں سے جگمگا اٹھتیں۔ جگہ جگہ لوگ مٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹیلے بناتے۔ لاہور کی روایت میں یہ پہاڑیاں کہلاتی تھیں۔ ان پر آرائشی روشنیاں لگائی جاتیں۔ کھلونے سجائے جاتے۔ کوئی اختراع کر کے اسی میں ایک چھوٹی سی پن چکی بناتا۔

کسی کی پہاڑی سے جھرنا پھوٹتا۔ کہیں سرنگوں سے کھلونا ٹرین برآمد ہوتی۔ ایک طویل بازار میں ایسی درجنوں پہاڑیاں سج جاتیں جن میں باقاعدہ مقابلہ ہوتا کہ کس کی پہاڑی خوبصورتی اور جدت میں دوسروں سے بڑھ کر ہے۔ شہر میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والے بچے کے لیے میلوں ٹھیلوں کا بس یہی نعم البدل تھا۔ لیکن پھر فلوٹس نے آہستہ آہستہ پہاڑیوں کی جگہ لے لی۔ نو آموز، کچے پکے لیکن مخلص نعت خوانوں کی جگہ لاؤڈ سپیکر پر پیشہ ور نعت خوانوں اور قوالوں کی ہر جگہ ایک ہی جیسی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ تہذیب اپنے ارتقا سے گزر رہی تھی لیکن یہ ارتقا ہمارے لیے خوش کن نہیں تھا۔ اس نئی طرح کی عید سے جلد ہی دل کھٹا ہو گیا۔

محرم میں لیکن ایسی صورت حال نہیں تھی۔ ہر برس بعینہ پچھلے برس کی طرح مجالس ہوتیں، علم برآمد ہوتے، تعزیے کا جلوس ہوتا، ذوالجناح کو سجا کر باہر لایا جاتا، ایک ردھم سے ماتم ہوتا۔ اس سب سے میری جڑت قائم رہی۔ رہی زنجیر زنی اور قمہ زنی، تو اس سے تب بھی میں وحشت محسوس کرتا اور اب بھی کرتا ہوں۔ یہ ویسی ہی وحشت تھی جو بڑی عید کے دنوں میں مجھے گھیر لیتی۔ خون کا بہنا مجھے پسند نہیں تھا خواہ انسان کی پیٹھ سے بہتا ہو یا جانور کے حلقوم سے۔ خود اذیتی کی کوئی تفہیم نہ میں تب کر پاتا تھا نہ اب کر پاتا ہوں۔ سو ادھر زنجیر زنی شروع ہوتی ادھر میں گھر کو لوٹ جاتا۔

گھر کے پاس موجود امام باڑے میں مجالس میرے لیے کوئی خوش کن تجربہ ثابت نہیں ہوئیں۔ ظاہر ہے اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ میری مذہبی تربیت غیر روایتی تھی۔ دوسرا یہ کہ اس غیر روایتی تربیت کی جڑیں بھی اس گہری عقیدت کی مٹی میں پیوست نہیں تھیں جو اہل تشیع کو رسول اللہ کے خانوادے سے تھی۔ لیکن اس سے بھی بڑی وجہ یہ تھی کہ میں بیان کے اس طریق سے اپنے آپ کو ہم آہنگ نہیں کر پاتا تھا جس میں گھنٹوں ایک ہی زاویے سے تاریخ پر روشنی ڈالی جاتی۔

وہی واقعات کا تسلسل، ذکر میں غلو کی آمیزش، مافوق الفطرت واقعات، ایک ہی طرح سے ذکر کی اٹھان اور بنت اور پھر تقریبا ایک ہی جیسا اختتام مجھے متاثر نہ کر پاتا۔ اس میں شک نہیں تھا کہ ذاکرین کا انداز بیان دلچسپ ہوتا تھا لیکن اس میں کسی سوچنے والے ذہن کے لیے کچھ نہیں تھا۔ جن مساجد میں جمعہ اور عید پڑھتا ، ان کے خطبے بھی مجھے تصنع اور بناوٹ لگتے۔ اس لیے مسجد کے خطبوں اور امام باڑوں کی مجالس، دونوں سے جلد ہی کنارہ کشی اختیار کر لی۔

لیکن اس بیچ ایک خطیب، ایک ذاکر ایسا تھا جس کو میں نے کبھی اپنے سامنے نہیں دیکھا پر اس سے میرا رشتہ روز گہرا ہوتا چلا گیا۔ زندگی کی اس گھڑی تک، جو بیت رہی ہے ، میں کبھی اس سے اپنا دامن نہ چھڑا سکا۔ تو چلیے یہ کہانی بھی سن لیجیے….

ابو یوں تو کٹر سنی تھے اور کافی مذہبی بھی۔ محرم کے دنوں میں بھی ان کے معمولات وہی رہتے جو کہ پہلے تھے ماسوائے ایک تبدیلی کے اور وہ یہ کہ اگر ٹیلی ویژن پر ضیاء محی الدین، شجاعت ہاشمی یا طلعت حسین تحت اللفظ مرثیہ پڑھتے تو وہ بڑی دلجمعی سے اسے سنتے۔ اسی طرح مجلس شام غریباں بھی وہ لازمی دیکھا کرتے۔ کیوں، یہ ایسا سوال ہے جو میں نے کبھی کیا نہیں اور ایسا جواب ہے جسے دینے کی انہوں نے کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ابو کی دیکھا دیکھی بہت چھوٹی عمر سے میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر مجلس دیکھنے لگا۔ لیکن یہاں بھی وہی مسئلہ درپیش تھا۔ چند سال بعد احساس ہوا کہ یہ تو وہی باتیں ہیں جو پچھلے برس بھی سنی تھیں۔

وہی اٹھان ہے جو پہلے بھی دیکھ چکا ہوں۔ وہی پرانے فقرے ہیں ۔ میں یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ کہاں پر گریے کا شور اٹھے گا اور کہاں دبی دبی سسکیاں سنائی دیں گی۔ کب ذاکر خاموشی کے وقفے لے گا اور کب اس کی آواز اونچی ہوتی چلی جائے گی۔ قصے بھی وہی ہیں ، کہانیاں بھی وہی ہیں۔ آغاز بھی ایک سا، انجام بھی ایک سا۔ احساس ہوا کہ اس میں تو سیکھنے کے لیے نیا اب کچھ نہیں ہے۔ پر اس سے پہلے کہ ٹیلی ویژن پر مجلس دیکھنے اور سننے کی روایت مجھ سے چھوٹتی، پاکستان ٹیلی ویژن نے علامہ طالب جوہری کو منتخب کر لیا۔

طالب جوہری کو پہلی دفعہ سننا ایک بہت ہی مختلف تجربہ تھا۔ اس سے پہلے میں نے ایسا کوئی ذاکر دیکھا تھا نہ ایسا عالم اور نہ ایسا خطیب۔ ایک ایسا مقرر جو منبر پر بیٹھ کر بڑے دھیمے انداز میں اپنی بات سامنے رکھتا ہے، ایک مقدمہ تشکیل دیتا ہے، استدلال کا انبار ایسے لگاتا ہے کہ ایک لمحہ بھی بوجھل پن کا احساس نہیں ہو پاتا۔ نہ وہ زانو پیٹتا ہے نہ اپنی دستار اتار پھینکتا ہے۔ اسے آنکھ سے بہنے والے آنسو کی نسبت دل میں گھر کرنے والی دلیل سے مطلب ہے۔ علامہ کی مجلس ایسی ہوتی تھی جیسے باخ دھن تخلیق کر رہا ہو، میکال اینجلو مجسمہ تراش رہا ہو یا ریمبراں رنگوں سے ایک شاہکار کینوس پر اتار رہا ہو۔ ایک ایک سر، ایک ایک ضرب، ایک ایک برش سٹروک ٹھیک اپنی جگہ بیٹھتا دکھائی دیتا تھا۔

ایک جھرنا تھا جو بلمپت لے میں بہتا تھا۔ آہستگی سے، دھیمے دھیمے یہ جھرنا ایک شانت دریا میں مل کر ایک وشال سمندر میں اتر جاتا تھا۔ لیکن کہیں کوئی شور نہیں تھا ، بس ایک نغمگی کی سی کیفیت تھی۔ جزو سے کل کا سفر کب طے ہوتا تھا ، معلوم ہی نہیں ہوتا تھا۔ علامہ خود تو منبر پر جم کر بیٹھتے تھے لیکن ان کے ہاتھ پر موڑ پر نرتکی کے بھاؤ بتاتے تھے۔ انگلیوں کی ہر جنبش کے ساتھ استدلال ایک نئی کروٹ لیتا تھا۔ اور گرفت ایسی تھی کہ سننے والا پلک نہیں جھپک سکتا تھا۔ علامہ کے منشور سے گزرنے والی تاریخ کی روشنی کا ہر رنگ الگ دکھائی دیتا تھا۔

منطق اور دلیل سے بنے ایک دھاگے میں ازل سے ابد تک بکھرے بے ترتیب واقعات ایک تسبیح کی شکل میں جڑتے چلے جاتے تھے۔ اس کا ورد کرتے تھے تو سوچ کے اور زاویے کھلتے چلے جاتے تھے۔ علامہ میری زندگی کے ان اولین اساتذہ میں سے تھے جن سے میں نے استنباط اور استقرا کا سبق لیا۔ اس روشنی کا پرتو آج بھی میری راہ کا چراغ ہے۔ یہ ایسا احسان ہے جس کا بار اتارنا ممکن نہیں ہے پر یہ وہ بار نہیں ہے جس سے کمر خمیدہ ہوتی ہو۔ یہ تو وہ زاد راہ ہے جو ہر نسل پر فرض ہے کہ وہ اگلی نسل کو منتقل کرے۔

علامہ کی مجالس سنیں۔ پھر فہم القرآن کے کتنے ہی پروگرام۔ انٹرنیٹ اور یو ٹیوب کی بدولت ان کے ان خطبات تک بھی رسائی ہوئی جو پی ٹی وی کی زینت نہ بن سکے۔ یہ حسرت البتہ ہمیشہ رہی کہ ان سے مل سکوں، ان کے سامنے بیٹھ کر ان کو سن سکوں۔ پر آج یہ خبر ملی کہ وہ رخصت ہوئے۔

گزرے برسوں میں وہ بچہ اب سفید بالوں والا ایک بوڑھا بن گیا ہے جس نے سوچنے کے سبق علامہ طالب جوہری سے لیے تھے۔ زندگی کے سفر میں یہ بوڑھا شاید ان راستوں کا مسافر تو نہیں رہا جس کی پگڈنڈیوں کو علامہ اس وقت تراشا کرتے تھے لیکن مجھے یقین ہے کہ علامہ اس گمراہی پر ہر گز خفا نہ ہوتے۔کیونکہ انہی کی بیعت میں راستہ جو بھی چنا، دلیل سے چنا، جو چھوڑا وہ دلیل سے چھوڑا۔

پر وہ ناراض ہوتے یا راضی ، یہ تو جب جان پاتا کہ ان سے کبھی مل پاتا۔ ان کے قدموں میں کچھ دیر بیٹھتا۔ فیض کی کوئی نظر پاتا ، حیرت کا کوئی در وا ہوتا، زندگی کی کوئی اور تفہیم عطا ہوتی۔ سو یہ امکان بھی اب معدوم ہوا۔

خواہشیں اگر اسپ ہوتیں تو مجھ سے فقیر کیا شہ سوار ہوتے۔ دیکھیے، یہ خواہش بھی حسرت ناتمام کے گوشوارے میں ایک اور اندراج ہی رہی۔ آج بچپن کی ایک یاد رخصت ہوئی، ایک عہد تمام ہوا۔ منبر ویران ہوا۔ اب کے محرم آئے گا تو شام غریباں میں دو آنسو طالب جوہری کے نام کے بھی ہوں گے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے