عام زندگی میں قوت فیصلہ

فیصلہ سازی الله کی دی گئی صلاحیتوں میں سے ایک ہے۔ جو اب باقاعدہ ایک علم بن گیا ہے ، جس کے سائنسی اصول مرتب کر دیئے گئے ہیں۔ بزنس اور منجمنٹ میں فیصلہ سازی کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔ اور اسی لئے مرحلہ وار قوائد وضوابط طالبعلموں سکھائیں جاتے ہیں۔

اس بات سے قطع نظر کے کاروبار میں بروقت اور درست فیصلے کی بہت اہمیت ہے۔ اس شعبے میں فیصلہ سازی بطور مضمون پڑھائی جانا ضروری ہے۔ متعدد “موجود متبادل” میں درست فیصلے کا انتخاب صرف پیشہ وارانہ معمولات میں ہی نہیں بلکہ ہر فرد کو اپنی روزمرہ زندگی میں ہر عمر اور ہر موقع پر کرنا پڑتا ہے۔ عام زندگی میں گھریلو اور روزمرہ کے معمولات سے لے کر زندگی کے بڑے اور اہم معاملات میں فیصلہ سازی کی ضرورت پڑتی ہے ۔

بدقسمتی سے ہمارے روایتی مڈل کلاس گھرانوں کی تربیت میں فرمانبرداری کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے کہ اولاد کی قوت فیصلہ ہی سلب کر لی جاتی ہے۔ اسے انتخاب کا اختیار کسی بھی مرحلے پر نہیں دیا جاتا۔ اسکی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ نیت بےشک انکی اپنی اولاد کو تحفظ دینا ہوتی ہے لیکن وہ ان پر غیرارادی طور پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ ان کی تعلیم کریئر اور شادی جیسے اہم فیصلے بھی خود کر لیتے ہیں۔ آج بھی اکثر گھرانوں میں خصوصاً لڑکی کو ان معاملات میں بولنے اور مرضی یا رائے دینے کا بالکل حق نہیں دیا جاتا بلکہ اسے بےشرمی اور منہ پھٹ ہونا تصور کیا جاتا ہے۔

ایسے ماحول کے تربیت یافتہ لڑکے لڑکیاں جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو انھیں ٹائم منجمنٹ اور روزمرہ کی معمولی ذمہ داریوں تک انجام دینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر سطحی سوچ اور غلط انتخاب کا شکار ہو کر اپنی زندگی جہنم بنا لیتے ہیں۔

میں نے تو ایسے ناکام بزرگ بھی دیکھے جو کہتے پائے جاتے ہیں کہ ہمیں پیشہ وارانہ زندگی میں ترقی کے کئی مواقع ملے لیکن ہم نے بزرگوں کی فرمانبرداری کی اور دنیا نہیں کمائی۔ ذاتی مشاہدے میں انھیں میں نے ڈرپوک اور قوت ارادی کی قلت کا شکار پایا۔

جو نوجوان مخصوص اداروں سے تعلیم حاصل نہیں کرتے جہاں فیصلہ سازی ایک مضمون کی طرح پڑھائی جاتی ہو وہ اعلی ڈگری لے کر بھی روزمرہ کی زندگی میں اپنی تعلیم کا استعمال کرنا نہیں سیکھتے۔

کبھی آپکا واسطہ ایسے اعلی تعلیم یافتہ سے پڑا جو ہے کہتا/کہتی ہو کہ ڈگری دنیاوی تعلیم ہے یہ یہیں رہ جانی ہے معمولات زندگی اور دینی تعلیم وہی جو ہمارے بڑوں نے سکھا دیں۔ یعنی خود پر تحقیق کے دروزاے فرمانبرادری کے جزدان میں لپیٹ کر بند کر دیئے۔

ایک اور پہلو جو میرے مشاہدے میں آیا وہ یہ ہے کہ لوگ اسلیے بھی فیصلہ سازی سے کتراتے ہیں کیونکہ وہ اس کے غلط ہونے کا بار اٹھانا نہیں چاہتے۔ اسلئے چاہتے ہیں بندوق ہمیشہ دوسروں کے کندھوں رہے۔ حالانکہ فیصلے کرنے کی پہلی سیڑھی اسے اون کرنا(اپنانا یا ذمہ داری اٹھانا) ہے۔

مشہورقول کہ “ میں ہمیشہ درست فیصلے کرنے پر یقین نہیں رکھتا میں ارادہ کرتا ہوں اور پھر اسے درست بناتا ہوں “ پختہ عظم کی نشانی ہے۔

والدین کو چاہیے کے بچوں کی تربیت میں رائے سازی بھی سکھائیں لیکن یہاں انکی مرضی اور ضد میں فرق کرنا پہلے خود بھی سیکھیں, اور اساتذہ بھی تعلیمی اداروں میں صرف سبق پڑھانے کی بجائے بچوں کو سوال کرنا اور مخالف نقطہ نظر، برداشت کرنا باضابطہ سکھائیں۔

یونیورسٹی آف ورجینا کی ایک ریسرچ کا حصہ رہنے کا موقع ملا۔ جس میں زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے لوگوں کے گروپ شامل تھے، اس میں مذہبی مسالک اور لبرل گروپس بھی تھے ، اس میں یہ جانچا گیا کہ ایک ہی نظریے کو ،مختلف مکتبہ فکر کس نظر سے دیکھتے ہیں ۔ ہمارے کواڈینیٹر کہتے ہیں جو علم آپ کے ذہن میں سوال پیدا نہیں کرتا وہ بیکار ہے۔اسی طرح برداشت کی کمی کے باعث اپنی رائے کو حتمی دلیل سمجھنا ہمارا عام رویہ بن گیا ہے۔ اپنی رائے کو ہی مقدم جاننا دراصل جہالت ہے۔

اس ریسرچ میں مخالف گروپ کے لوگوں سے شدید بحث مباحثہ ہوتا لیکن کوئی کسی کے نقطۂ نظر کو غلط سمجھ کر لڑتا جھگڑتا نہیں تھا۔ نہ ہی اپنی رائے دوسرے پر تھوپی جاتی تھی، اس ریسرچ نے سمجھایا ڈسکشن (بحث) کا مطلب کسی کو اپنی چرب زبانی سے شکست دینا نہیں ہوتا، بلکہ شخصی عزت کو فرد کی رائے کے ساتھ مشروط نہ کیا جائے۔ یہ دیکھا جائے کہ اسکی زندگی کے تجربات کی روشنی میں “موقف” کے دیگر کیا پہلو سامنے آئے ہیں۔

قوت فیصلہ تبھی مضبوط ہوتی ہے جب ہم اپنے سامنے موجود آپشنز کو بڑھاتے ہیں ، جب ہم دوسرے کی رائے کو ہی ردخور اعتنا ہی نہ سمجھیں تو ہمارے پاس انتخاب کے لئے متبادل بھی کم ہوں گے۔

والدین اور اساتذہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اگلی نسل کو اپنی ذاتی سوچ ،نقطہ نظر اور علم کی حد سے آگے جانے دیں، ان کے لئے تحقیق کے دروازے کھولیں تاکہ وہ دنیا کو مزید آگے لے جا سکیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے