کرونا وائرس: پاکستانی طلباء کو پڑھائی جاری کرنے میں پریشانی کا سامنا

طلباء، اساتذہ اور تعلیمی ماہرین کے ساتھ انٹرویوز سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستانی تعلیمی ادارے ریموٹ تعلیم کے لیے تیار نہيں ہیں۔

پاکستان میں Covid-19 کا پہلا کیس 26 فروری کو سامنے آیا تھا اور اس وقت سے اب تک اس وبا کے پھیلاؤ میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ شروع میں بلوچستان میں وائرس کی روک تھام اور طلباء، اساتذہ اور دیگر عملے کے تحفظ کے لیے دو ہفتے کے لیے اور صوبہ سندھ میں دو روز کے لیے تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا گیا۔ 15 مارچ تک پورے ملک میں تعلیمی اداروں پر پابندیاں لگ چکی تھیں اور عوام الناس کو گھر میں رہنے اور خود کو دوسروں سے دور رہنے کی ہدایات جاری کی گئيں۔

نیشنل کوآرڈینیشن کونسل (National Coordination Council – NCC) کی ابتدائی میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ یہ پابندی 5 اپریل تک قائم رہی گی۔ تاہم بگڑتی ہوئی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے، وفاقی حکومت نے 27 مارچ کو ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو 31 مئی تک بند رکھنے کا اعلان کیا۔

پابندی کی اس توسیع کے نتیجے میں 2019ء تا 2020ء کے تعلیمی سال کے آخری چند ماہ میں خلل اندازی ہونے لگی، اور تعلیمی شعبے سے وابستہ فریقین کو احساس ہوا کہ اب صورتحال سے نمٹنے کے لیے اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن (Higher Education Commission – HEC) نے کالجز اور یونیورسٹیوں کے لیے ہدایات جاری کیں۔ ملک بھر کے کئی سکولوں نے لاک ڈاؤن کی میعاد کو موسم گرما کی تعطیلات قرار دے کر اگست اور ستمبر کے بجائے جون میں نیا تعلیمی سال شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں کو کسی نہ کسی طرح طلباء کی پڑھائی جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔

[pullquote]ایچ ای سی کا آن لائن تعلیم پر زور[/pullquote]

ایچ ای سی نے ملک بھر میں کرونا وائرس کے باعث عدم یقینی کو مدنظر رکھتے ہوئے آن لائن تعلیم کی فراہمی کا مشورہ دیا۔ سکولز کی طرح یونیورسٹیوں کے پاس بھی 31 مئی تک بند رہنے کا اختیار موجود ہے، لیکن اگر لاک ڈاؤن 31 مئی سے تجاوز کر جائے تو ایچ ای سی کی ہدایات کے مطابق انہیں بھی آن لائن کلاسز اور ریموٹ تعلیم کا سلسلہ شروع کرنا ہوگا۔

ایچ ای سی نے مزید اعلان کیا کہ ٹیکنالوجی سے آراستہ یونیورسٹیاں فوری طور پر ریموٹ کلاسز شروع کرسکتی ہیں، جبکہ دیگر یونیورسٹیوں کو ضروری اقدام کرنے کے لیے وقت دیا جائے گا۔

نیز، تعلیمی اداروں کو جون تک پابندی ختم ہونے کی صورت میں حسب معمول تعلیمی سال جاری رکھنے کی اجازت دی جائے گی۔ تاہم اگر لاک ڈاؤن جون کے بعد بھی جاری رہا تو یونیورسٹیوں کو آن لائن تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کے علاوہ نئے طلباء کے داخلوں کے لیے بھی انتظامات کرنے کی ضرورت ہوگی۔

داخلے کے وقت سب سے بڑا مسئلہ بورڈ کے امتحانات کی تاخیر کے باعث کھڑا ہوگا۔ ایچ ای سی کے مشورے کے مطابق طلباء کو عارضی بنیاد پر داخلہ دیا جائے گا اور داخلے کی تصدیق کے لیے ہدایات بعد میں جاری کی جائيں گی۔

ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو پاکستان نے ریموٹ تعلیم کی راہ میں کھڑی رکاوٹوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی اور ہمیں معلوم ہوا کہ طلباء اور اساتدہ دونوں ہی کو پریشانی کا سامنا ہے۔

[pullquote]وسائل کا فقدان[/pullquote]

ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں کو آن لائن تعلیم کی فراہمی میں معاونت فراہم کرنے کے لیے ایک تکنیکی سپورٹ کی کمیٹی کے علاوہ نصاب، ٹیکسٹ بکس، ڈیجیٹل لائبریریز، اسباق، لیکچرز، پریزنٹیشنز اور امتحانات سمیت مختلف قسم کے مواد پر مشتمل ڈیٹابیس شائع کیا تھا۔ کمیشن نے مزيد اعلان کیا کہ ملک بھر کے اساتذہ کے لیے آن لائن تعلیم کی فراہمی کے لیے ضروری صلاحیتوں پر آن لائن ٹیوٹوریلز کی فہرست بھی فراہم کی جائے گی۔

اس کے علاوہ، ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں کو ریموٹ کلاسز کے لیے ٹیکنالوجیکل معاونت، سافٹ ویئر تک رسائی اور مشمولات کی تیاری میں معاونت فراہم کرنے کے لیے متعدد کمیٹیاں بھی قائم کی ہیں۔ تمام سرکاری یونیورسٹیوں کو مائیکروسافٹ ٹیمز سافٹ ویئر تک بالکل مفت رسائی فراہم کی گئی ہے اور انہيں اپنے اساتذہ کو ریموٹ کلاسز منعقد کرنے کے متعلق تربیت فراہم کرنے کی ہدایات جاری کی جاچکی ہيں۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اساتذہ کو نئی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے باوجود بھی وہ اکثر اس کا استعمال نہيں کرتے۔ اسی لیے تعلیمی نظام کو اچانک تبدیل کرنے کی کوششوں کے بجائے اسے آہستہ آہستہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم موجودہ صورتحال میں اساتذہ کے پاس کوئی چارہ نہيں ہے۔ ان کے پاس کم از کم لیپ ٹاپ یا سمارٹ فون موجود ہیں اور انہيں ان آلات کا بھرپور استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ہنزہ کیمپس میں امور طلباء کے محکمے سے وابستہ نوشاد اللہ بیگ بتاتے ہيں کہ گلگت بلتستان میں کئی طلباء کے پاس نہ تو انٹرنیٹ ہے اور نہ ہی کمپیوٹرز اور سمارٹ فونز۔ اسی لیے اس لاک ڈاؤن کے دوران وہ یونیورسٹی سے کسی بھی طریقے سے رابطہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر لاک ڈاؤن اسی طرح جاری رہا تو ان کے پاس پرنٹ شدہ مواد تقسیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہيں رہے گا، جس میں الگ قسم کے مسئلے سامنے آئيں گے۔

[pullquote]آن لائن تعلیم کے دوران درپیش مشکلات[/pullquote]

ڈیجیٹل سہولیات سے آراستہ یونیورسٹیوں کی جانب سے آن لائن کلاسز متعارف ہوتے ہی طلباء کی آن لائن تعلیم، انٹرنیٹ کے مسائل، اور فیس کی ادائيگی کے متعلق شکایتیں بھی سامنے آنے لگیں اور اپریل کے پہلے ہفتے میں ٹوئٹر پر #WeRejectOnlineClasses کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگا۔

ان مسائل سے تنگ آکر کئی طلباء نے اپنی یونیورسٹیوں اور ایچ ای سی کے پاس تحریری شکایتیں جمع کروانا شروع کردیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ریموٹ تعلیم کی فراہمی کا عمل روک دیا جائے اور Covid-19 کی صورتحال بہتر ہونے تک سیمسٹر بریک کا اعلان کیا جائے۔ ان شکایتوں میں گریڈنگ سسٹمز کی خامیوں اور پریکٹیکلز پر مشتمل کلاسز کا تذکرہ کیا گيا تھا۔

اس کے علاوہ، طلباء اس بات سے بھی سخت ناخوش تھے کہ کیمپس کی سہولیات کی عدم دستیابی اور مطلوبہ معیار تعلیم کی عدم فراہمی کے باوجود بھی فیس میں کسی بھی قسم کی رعایت نہيں کی گئی۔

تاہم دوسری طرف چند طلباء اور اساتذہ نے ریموٹ کلاسز کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس مشکل وقت میں ان چھوٹے چھوٹے مسئلوں کو درگزر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مل کر کام کرنے سے سسٹم کی خامیوں کو کم کیا جاسکتا ہے۔

صوبہ خیبر پچتونخواہ میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ جہانزیب کالج کے شعبہ حیاتیات کے چیئرمین نظير احمد نے بھی انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کے متعلق خدشات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم ان کا خیال ہے کہ پاکستان کو بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرح ریموٹ لرننگ کے سسٹمز قائم کرنے میں دیر نہيں کرنی چاہیے۔

[pullquote]معیار تعلیم پر اثرات[/pullquote]

ملک بھر سے تعلق رکھنے والے طلباء کی ڈسٹنس لرننگ پروگرامز کے معیار کے متعلق شکایتوں کے بعد، ایچ ای سی نے آخرکار تعلیمی اداروں سے ویڈیو لیکچرز، اسباق، تعلیمی مواد، اور نصاب اور امتحانات کے متعلق ریئل ٹائم ڈیٹا سمیت تفصیلی معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

ایچ ای سی کے چیئرمین طارق بنوری نے اعلان کیا کہ ان کا ادارہ آن لائن تعلیم فراہم کرنے والی تمام یونیورسٹیوں کے نصاب اور اساتذہ کی ڈیجیٹل صلاحیتوں پر کڑی نظر رکھے گا۔ آن لائن تعلیم کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر اداروں کو ایچ ای سی کے معیاروں پر پورا اترنے تک آن لائن تعلیم فراہم کرنے سے روک دیا گيا۔

پنجاب یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمینیسٹریشن (Institute of Business Administration) کے ایک طالب علم کا خیال ہے کہ ویڈیو کانفرنسنگ ایپس کے ذریعے سے فراہم کردہ آن لائن لیکچرز غیرمعیاری ہونے کے باوجود بھی طلباء کا وقت ضا‏ئع ہونے سے بچ رہا ہے اور ان کے گریجویشن میں تاخیر نہيں ہوگی۔ تاہم کئی طلباء کا خیال ہے کہ ضروری ڈیوائسز اور سافٹ ویئر موجود نہ ہونے کی وجہ سے کچھ کورسز کو آن لائن نہيں پڑھایا جاسکتا۔

بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ اینڈ مینیجمنٹ سائنسز (Balochistan University of Information Technology, Engineering and Management Sciences) کی فنون لطیفہ کی ایک طالب علم بتاتی ہیں کہ ان کے ڈرائنگ اور پینٹنگ کے کورسز آن لائن نہيں پڑھائے جاسکتے۔ اسی طرح گلگت سے تعلق رکھنے والی ماس کمیونیکیشن کی ایک طالب علم بتاتی ہیں کہ میڈیا اور ریڈیو پروڈکشن کے کچھ کورسز کے لیے ایسے ہارڈویئر کی ضرورت ہے جو ان کے شہر میں یونیورسٹی کے علاوہ کہیں بھی دستیاب نہيں ہے۔

تعلیمی ٹیکنالوجی کی ماہر مائدہ علی بتاتی ہیں کہ آن لائن تعلیم کے معیار اور اثراندازی میں کئی عناصر کا ہاتھ ہے جن میں سے اساتذہ کی ٹیکنالوجکل صلاحیتیں اور نئی ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی رضامندی سرفہرست ہیں۔ تاہم ان کا خیال ہے کہ طلباء کو بھی صبر سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں احساس ہونا چاہیے کہ اساتذہ کو بڑے کم عرصے میں آن لائن سسٹمز پر کام کرنا سیکھنا پڑا اور وہ خود بھی بہت پریشان ہیں۔ علی اعتراف کرتی ہيں کہ ریموٹ کلاسز کلاس روم کی تعلیم جتنی موثر نہيں ہیں لیکن ساتھ ہی انہيں امید ہے کہ شعبہ تعلیم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آن لائن تعلیم کو عام کرنے کی کوشش جاری رکھے گا۔

[pullquote]دلچسپی کی کمی[/pullquote]

کئی طلباء کا کہنا ہے کہ گھر بیٹھنے کی وجہ سے ان کی پڑھائی میں دلچسپی ختم ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ، ان کی پڑھائی کا بوجھ بھی کافی بڑھ گیا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے محکمہ مطالعہ سماج و ثقافت کی ایک طالب علم نے بتایا کہ آن لائن کلاسز میں سنجیدگی کا عنصر پیدا نہیں ہوپاتا جس کی وجہ سے مزيد وقت ضائع ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ”ڈیڑھ گھنٹے کی کلاس میں کام کی بات صرف 10 سے 15 منٹ کے لیے ہوتی ہے۔“ ان کے مطابق آدھے سے زیادہ طلباء کلاس میں شرکت نہيں کرتے، جس کی وجہ سے دوسروں کی بھی دلچسپی قائم نہيں رہ پاتی۔

مائدہ علی کا کہنا ہے کہ اساتذہ کو آن لائن اور باقاعدہ آن کیمپس تعلیم کے درمیان فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق اساتذہ کو نصاب تیار کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ طلباء اپنے گھروں میں اپنے گھر والوں کے ساتھ موجود ہیں اور ان کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے اس صورتحال کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ علی کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی میں دوستوں کے ساتھ گھلنے ملنے سے طلباء کی پڑھائی میں دلچسپی قائم رہتی ہے اور اب جب وہ اپنے گھروں میں بند ہیں، اساتذہ کو ہمدردی سے کام لینا چاہیے اور نصاب میں ردوبدل کرنی چاہیے۔

لاہور کے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی ایک لیکچرار کی بھی یہی رائے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ”اس وقت ایک عالمی بحران چل رہا ہے اور ہم سب ہی اپنے گھروں میں بند ہیں۔ یونیورسٹیوں کو بچوں سے پہلے جیسی دلچسپی کی توقع نہيں رکھنی چاہیے۔“ ان کے مطابق نوجوان نسل پہلے سے ہی ذہنی اضطراب اور ڈپریشن کا شکار ہے اور قرنطینہ کے باعث ان کی ذہنی صحت مزید بگڑ سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ”کئی اساتذہ عمر میں بہت بڑے ہیں اور انہيں ان چیزوں کا احساس نہیں ہے۔ وہ طلباء کی پریشانیاں نہيں سمجھ پاتے اور ان کا خیال ہے کہ بچے گھر بیٹھے چھٹیاں منا رہے ہيں۔“

پنجاب یونیورسٹی کی ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ اساتذہ آن لائن تعلیم فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن کئی طلباء سنجیدگی کا مظاہرہ نہيں کرتے۔ وہ کہتی ہیں کہ جو طلباء آن لائن کلاس کے دوران دوسروں کو تنگ کرتے ہيں، وہی بعد میں سوشل میڈیا پر ویڈیوز بنا کر کہتے ہيں کہ انہيں لیکچر سمجھ نہيں آیا۔

کراچی یونیورسٹی کے عمیر باشا انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طالب علم دانیال دانش کا خیال ہے کہ مسئلہ دراصل اساتذہ کی طرف سے ہے۔ وہ کہتے ہيں کہ ان کی یونیورسٹی کے اساتذہ آن لائن کلاسز پڑھائی کی کوشش ہی نہيں کرنا چاہتے۔ لاک ڈاؤن کے باعث دانش کی پڑھائی میں بہت خلل ہوچکا ہے اور آن لائن کلاسز متعارف کرنے میں جتنی تاخیر ہوگی، انہیں ڈگری ملنے میں بھی اتنا زیادہ وقت لگے گا۔ وہ کہتے ہيں کہ ”آن لائن کلاسز کا سلسلہ شروع کرنے والی تمام یونیورسٹیوں کو ان سے مستفید ہونے میں وقت لگا۔ ہم جتنی زیادہ دیر لگائيں گے، ہمیں سسٹمز کو سمجھنے میں اتنی ہی زیادہ دیر لگے گی۔“

[pullquote]انٹرنیٹ کے مسائل[/pullquote]

آن لائن تعلیم کی فراہمی کی سب سے بڑی رکاوٹ انٹرنیٹ کی عدم دستیابی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کو ہوتا ہے۔ تیز رفتار انٹرنیٹ کنکشن تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یونیورسٹیوں کے لیے طلباء سے رابطہ کرنا اور ویڈيو کانفرنسنگ کے ذریعے کلاسز منعقد کرنا ناممکن ثابت ہوتا ہے۔

اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایچ ای سی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی جیسے سرکاری اداروں نے انٹرنیٹ سہولیات فراہم کرنے والی کمپنیوں سے طلباء کے لیے تیز رفتار انٹرنیٹ کے کم قیمت پیکیجز متعارف کرنے کی درخواست کی ہے۔

تاہم گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی لیکچرار کا خیال ہے کہ اس سے کوئی فائدہ نہيں ہوگا کیونکہ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں انٹرنیٹ تو کیا، بجلی بھی دستیاب نہيں ہے۔ ان کے طلباء کو صرف موبائل ڈیٹا کی سہولت دستیاب تھی اور اسی لیے انہوں نے زوم، واٹس ایپ اور انسٹاگرام کا لائیو فیچر، سب ہی کچھ استعمال کرنے کی کوشش کی، لیکن کوئی فائدہ نہيں ہوا۔ آخرکار ان کی یونیورسٹی نے آن لائن کلاسز کی کوشش ترک کرکے 31 مئی تک موسم گرما کی تعطیلات کا اعلان کردیا۔

الیزہ خان، جو گلگت کی ایک یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن پڑھ رہی ہيں، کہتی ہیں کہ ”گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے طلباء کو خاص طور پر زيادہ مشکل ہوتی ہے کیونکہ یہاں دن میں صرف چار سے پانچ گھنٹے ہی بجلی میسر ہے۔“ وہ انٹرنیٹ اور بجلی کے مسائل کے باعث اب تک ایک بھی کلاس نہيں لے پائی ہیں۔ اس کے علاوہ، ان کے لیے اسائنمنٹس مکمل کرنا اور اپ لوڈ کرنا بھی مشکل ثابت ہورہا ہے۔

کئی طلباء کا خیال ہے کہ اگر ان کے اساتذہ لیکچرز ریکارڈ کرکے انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کردیں تو انہيں زيادہ آسانی ہوگی۔ آن لائن کلاسز کے لیے ضروری ہے کہ صحیح وقت پر تیز رفتار انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہو۔ تاہم پہلے سے ریکارڈ شدہ لیکچرز کو سہولت کے مطابق ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے اور انٹرنیٹ سہولیات سے محروم طلباء کے ساتھ یو ایس بی ڈرائیوز کے ذریعے شیئر کیا جاسکتا ہے۔

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ایسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر امجد علی کا خیال ہے کہ اگر طلباء کو انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہوجائے تو ان کا وقت ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ وہ اعتراف کرتے ہیں گلگت بلتستان میں زیادہ لوگوں کے پاس انٹرنیٹ تک رسائی نہيں ہے لیکن اگر یہ سہولت دستیاب ہوجائے تو انہیں جلد ہی اس کی عادت ہوجائے گی۔ ان کی نظر میں ایسے علاقہ جات میں ریئل ٹائم کلاسز کے بجائے لیکچرز پہلے سے ریکارڈ کرکے انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرنا زیادہ فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر علی بتاتے ہيں کہ قراقرم یونیورسٹی انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں سے اس سلسلے میں مذاکرات کررہی ہے۔

پنجاب یونیورسٹی اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی جیسے تعلیمی ادارے دور دراز علاقہ جات میں رہائش پذیر طلباء کی پریشانی سے بخوبی واقف ہیں۔ انہوں نے سرویز کے ذریعے تیز رفتار انٹرنیٹ تک رسائی کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ چند تعلیمی اداروں نے طلباء کو کچھ کورسز ملتوی کرنے کی اجازت دی ہے۔ تاہم دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے کئی طلباء ان اقدام سے خوش نہيں ہیں۔

پاکستان میں آن لائن تعلیم کے مستقبل پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہے۔ طلباء اور اساتذہ دونوں ہی اس صورتحال سے پریشان ہیں، لیکن انہیں آگے بڑھ کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر یونیورستیاں عارضی بنیاد پر ہی آن لائن کورسز متعارف کریں گی تو ان سسٹمز میں مزید بہتری لائی جاسکتی ہے جس سے آگے چل کر بہت فائدہ ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے