عامرتہکالی کیس کامتوقع انجام کیاہوسکتاہے۔۔؟

احتساب کے نظام سے عاری ،طاقت کے نشے سے سرشوراورانتظامی نااہلی کے باعث خیبرپختونخواپولیس نے سات سالوں کے دوران اپنے کمائے ہوئے نام کی ہانڈی بیچ چوراہے میں پھوڑدی اور دہشتگردی کےخلاف جنگ میں تعریف کی مستحق پولیس کے متعلق لوگ لعن طعن کرنے لگے۔عامر تہکالی کیس کے دوران پولیس اپنے آپ کو بچانے کےلئے غلطیوں کے بعد غلطیاں کرتی رہی جسکے باعث ان کی انتظامی نااہلی طش ازبام ہوگئی ،پشاورکے تہکال پولیس سٹیشن میں افغان باشندے عامرتہکالی کوبرہنہ کرنے سے متعلق پولیس اورانسانی حقوق کی تنظیموں نے نہ صرف اس کانوٹس لیا بلکہ ایس ایس پی سے لیکر پولیس کانسٹیبل تک کاعملہ معطل ہوکرگرفتاربھی ہوگیا ۔

[pullquote]عامرتہکالی کیس میں کیاہواتھا۔۔؟[/pullquote]

11جون کو سوشل میڈیا پر نشے میں دھت ایک 24سالہ نوجوان عامرتہکالی کی ویڈیوسامنے آئی، جس میں وہ پولیس کانسٹیبل سے لیکر آئی جی تک کو گالیاں دے رہاتھا، اس ویڈیوکے وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف سیاسی وسماجی شخصیات نے پولیس سے تحقیقات کرنے کامطالبہ کیا تاہم کچھ دنوں بعد عامرتہکالی کے متعلق خبرآئی کہ اسے گرفتارکیاگیاہے اوراس نے پولیس سے اپنی کئے کے متعلق معافی مانگ لی ہے، جس کے بعد یہ موضوع سوشل میڈیا سے ہٹ گیا، تاہم بدھ کے روز عامرتہکالی کی پولیس سٹیشن میں بنائی گئی برہنہ ویڈیو منظرعام پرآئی اوروائرل ہونے کےساتھ ہی پولیس کےخلاف آوازیں اٹھناشروع ہوئیں ،جس کے بعد پولیس نے تین اہلکاروں کو گرفتارکرکے تھانے کے چار پولیس کانسٹیبلزکومعطل کردیا شام کو آئی جی پولیس نے ایس ایس پی آپریشن کوبھی انکے عہدے سے ہٹادیا۔

[pullquote]کیس کی اصل نوعیت کیاہے۔۔؟[/pullquote]

11جون کوعامرتہکالی کی ویڈیووائرل ہونے کے بعدپولیس کو اس بات کاپتہ چلاکہ یہ ویڈیویکہ توت تھانے کی حدود میں بنائی گئی ہے، پولیس نے یکہ توت کی حدود میں واقع جائے وقوعہ کا سراغ لگاکر اس گھرکے مالک کوگرفتارکرلیا اور گرفتارشخص کی نشاندہی پرتہکال میں 16جون کی رات کو تہکال پولیس کےساتھ ملکر عامرتہکالی کو گرفتارکرلیاگیا، پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکارکے مطابق گرفتاری کے بعد عامرتہکالی کوبرہنہ کیاگیا اوراس کے ساتھ انتہائی توہین آمیز اورزلت آمیز سلوک روارکھاگیا،اس دوران انکی ویڈیوبنائی گئی اسکے بدن کے مختلف حصوں پر شراب ڈالاگیا اوراسے گالیاں دی گئیں ، تہکال پولیس سٹیشن کے ایک اہلکار کے مطابق تشددمیں پانچ پولیس اہلکارملوث تھے اورتھانے میں اس وقت 9اہلکارموجود تھے، انکے مطابق عامرتہکالی کی شلوارانکے گھرمیں ہی اتاری گئی تھی اوراسے برہنہ حالت میں تھانے لایاگیاتھا۔

17جون کی شام کو تہکال پولیس سٹیشن کے اہلکاروں نے عامرتہکالی کو یکہ توت پولیس کے حوالے کردیا، جہاں اسے مزید تشددکانشانہ بناکر اس سے اعترافی ویڈیوبنائی گئی۔18جون کوعامرتہکالی کےخلاف 24گرام آئس کے برآمدگی کاکیس بناکر 9Dکی دفعہ کے تحت اس کےخلاف ایف آئی آرکااندراج کیاگیا، تاہم اسی روز پشاورکی مقامی عدالت نے اسے ضمانت دی، لیکن شخصی ضمانت کےلئے فردکے نہ ہونے کے باعث عامرتہکالی کو سنٹرل جیل پشاوربھیجاگیا، بعدازاں شخصی ضمانت ملنے کے بعدعامرتہکالی کو22جون کوپشاورسنٹرل جیل سے رہائی ملی۔

خیبرپختونخواپولیس کا دعویٰ ہے کہ پشاورکے تمام پولیس سٹیشن میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں، لیکن عامرتہکالی کیس میں کیمروں کے فوٹیج سامنے نہ آکر یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ بیشتر سی سی ٹی وی کیمرے تھانے کی حفاظتی دیواروں پر تونصب ہیں لیکن اندرون خانہ نصب کیمرے یاتومعطل کئے گئے ہیں یاعرصہ دراز سے خراب پڑے ہیں۔پولیس کے ایک اعلی افسر نے بتایا کہ عامر تہکالی کی ویڈیو21 جون کو ایک ڈی آئی جی نے واٹس ایپ گروپ میں شئیر کرتے ہوئے بتایا کہ اس ویڈیو سے نمٹنے کی لیے حکمت عملی پہلے سے ہی بنائی جائی ، سوشل میڈیا پر جانے سے یہ ویڈیو پولیس کی لیے وبال جان بن جائے گی لیکن کسی نے کان نہیں دھرا۔۔۔

[pullquote]عامرتہکالی کیس میں پولیس سے غلطیاں کہاں ہوئیں۔۔؟[/pullquote]

ویڈیوبنانے کے بعد عامرتہکالی کاکیس پولیس کے دائرہ اختیار میں نہیں آرہاتھا، قانونی ماہرین کے مطابق 11جون کو گالیوں کی ویڈیووائرل ہونے کے بعد پولیس کوچاہئے تھاکہ ایف آئی اے کودرخواست بھیجتی اور ان کے خلاف سائبرکرائم کے مقدمے کے اندراج کامطالبہ کرتی ، لیکن پولیس نے ایسانہیں کیا اور سائبر کرائم کے مقدمے کی بجائے اس کےخلاف24گرام آئس برآمدگی کا کیس بنادیا ، جوپولیس کا روایتی ہتھیار ہے۔اسی طرح تین پولیس اہلکاروں کے خلاف ویڈیو سامنے آنے کے بعد ایف آئی آرمیں 355،118اور119کے تحت جس مقدمے کااندراج کیاگیا، اس میں ویڈیوسے متعلق دفعات ہی شامل نہیں کی گئیں ، پشاورہائیکورٹ کے وکیل سیف اللہ محب کاکاخیل کے مطابق ان دفعات میں پولیس نے اپنے پیٹی بندبھائیوں کو بچانے کی ہرممکن کوشش کی ، بیشتردفترقابل ضمانت ہیں ، عامرتہکالی کے برہنہ حالت میں جو ویڈیوبنائی گئی تھی، پولیس اہلکاروں کےخلاف ان دفعات کااندراج ہی نہیں ہوا ، جمعرات کے روز جب تینوں پولیس اہلکاروں کو پشاورکی مقامی عدالت میں پیش کیاگیا، توعدالت نے انہیں پولیس کی تحویل میں دینے کی بجائے ایف آئی اے کے حوالے کردیااورایف آئی آرمیں سائبرکرائم کے تحت مزید دفعات کو شامل کرنے کے بھی احکامات جاری کردئیے۔

[pullquote]عامرتہکالی کیس کامتوقع انجام کیاہوسکتاہے۔۔؟[/pullquote]

24سالہ عامرتہکالی نے پشاوریونیورسٹی سے گریجویشن کی ہے ، وہ مختلف شادی ہالوں میں ہیڈویٹرتھا، تاہم گزشتہ تین مہینوں سے جاری لاک ڈاﺅن کے باعث وہ بیروزگارتھا، عامرتہکالی کااصلی نام ردیع اللہ ہے اوراس کی پیدائش بھی تہکال میں ہی ہوئی ہے تاہم انکے والدین کا تعلق افغانستان سے ہے، پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکارکے مطابق 2018ءمیں پشاورکے یکہ توت پولیس سٹیشن میں غیرقانونی طور پر حراست میں رکھے گئے شخص کی موت واقع ہوئی، تاہم کچھ عرصے بعد پشاورکے ایک اہم سیاسی شخصیت کے حجرے میں لے دے کران کی صلح کرائی گئی، اسی طرح 2017ءمیں پولیس کے ایس ایچ او نے معطل کئے جانے کے باوجود ارمڑ کے علاقے میں بیڈروم میں جاکر اپنے مخالف کو قتل کردیا اورکچھ عرصہ بعدان کی صلح بھی ہوگئی ۔

صرف2019ءمیں پشاورکے حوالات میں چار ملزمان مارے گئے، عامرتہکالی کیس کاانجام بھی یہی ہوگا۔پولیس افیسرکے مطابق جب یہ معاملہ کچھ عرصے کےلئے سوشل میڈیاکی توجہ سے ہٹ جائے گا، تو عامرتہکالی پردباﺅڈال کر اس سے صلح کی جائے گی، پولیس کے جواہلکار معطل ہیں ، وہ برخاست بھی ہوجائیں گے ،لیکن سروس ٹربیونل میں کیس کے ذریعے ایک یاڈیڑھ سال بعدوہ دوبارہ بحال ہوجائیں گے، کیونکہ عامرتہکالی اس کیس کے پیچھے ہوگاہی نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے