وہ بہت غصے میں تھا، دکھ بھی تھااور ہونا بھی چاہئے تھا، روز ایسی ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ جگر ہی چھلنی ہو جائے۔۔ پٹرول کی قیمتیں بڑھ گئیں اور ظاہر ہے یہ وہ سب کو کہتا رہتا تھا کہ ایک پٹرول کی قیمت بڑھنے سے ہر چیز کی قیمت بڑھتی ہے۔
پہلے ہی اس کا اتنی کم تنخواہ میں گزارا نہیں ہوتا تھا۔۔ اب مزید مہنگائی ہو گئی تو کیا ہو گا۔۔ دوست بھی تو اب ایسے نہیں رہے تھے جو اس کی مدد کر سکتے۔ وہ سوچنے لگا کہ پہلے تو دوست اس پہ جان چھڑکتے تھے لیکن آہستہ آہستہ اسے اپنی محبت کی وجہ سے سب سے دور ہونا پڑا، بہنوں سے بھی اور رشتے داروں سے بھی۔
اس نے شادی بھی تو ایسے کی کہ سب اس سے ناراض ہوئے تھے بہرحال پھر سب نے اسے اس کے حال پہ چھوڑ دیا۔اکلوتا بھائی ہونے کی وجہ سے بہنیں جان چھڑکا کرتی تھیں اب وہ بھی نہیں رہیں حالانکہ وہ ان کے بہت کام آیا۔ دوست بھی گئے۔
اب پٹرول کی قیمت بڑھی تو اسے سمجھ نہیں آ رہا رھا تھا وہ کیا کرے، پہلے ہی بجلی، گیس کے بلوں نے تباہی مچائی ہوئی تھی۔۔ کیسے گزارا ہو گا۔ لوگ صحیح کہتے ہیں صرف گھر بنانا نہیں ہوتا بلکہ اصل کام اسے چلانا ہوتا ہے۔
اب کیسے چلے گا گھر؟۔ کیسے ہوں گے گھر کے اخراجات پورے؟۔ اب تو بھائیوں جیسا دوست بھی اس کے رویہ سے ناراض ہو کے ملنا چھوڑ چکا تھا، جو کبھی اسے پریشان نہیں دیکھ سکتا تھا، اپنی جان تک وار دیتا تھا، جانے اب کہاں ہو گا وہ؟۔
یہی سوچیں لیے وہ گھر میں داخل ہوا تو بیوی سے ملنے کے بجائے خاموشی سے غسل خانہ میں گھس گیا کہ بیوی اس کے آنسو نہ دیکھ لے وہ اس سے پہلے ہی منہ دھو لینا چاہتا تھا، ظاہر ہے انا والا مرد تھا، بیوی کے سامنے کیسے روتا؟۔
بیوی بھی جہان دیدہ خاتون تھی بھانپ گئی کہ شوہر پریشان ہے، فوراً چائے بنا کے لے گئی، بالوں میں ہاتھ پھیرا تو شوہر کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے، وہ بکھر سا گیا اور پھوٹ پھوٹ کے رو پڑا۔ماں کے مرنے کے بعد وہ شاید برسوں بعد پہلی بار رویا تھا۔
بیوی اس کے قریب ہی زمین پہ بیٹھ گئی، ہوا کیا ہے؟، کیوں پریشان ہیں؟۔ چلیں چائے پی لیں، شوہر نے آنکھیں پونچھیں اور دیکھا سامنے دو پیالی چائے رکھی تھی۔ بولا کل سے دو کے بجائے ایک چائے بنانا ہم آدھی آدھی پیالی پئیں گے۔
اب پریشان ہونے کی باری بیوی تھی، بڑی ملائمت سے پوچھا کیا ہوا ہے کیوں پریشان ہیں؟۔ دیکھیں پریشان ہونا مسئلے کا حل نہیں، اللہ پہ بھروسہ رکھیں وہ سب ٹھیک کر دے گا۔کچھ ٹھیک نہیں ہو سکتا یہ سب حالات ایسے ہی رہیں گے، جانتی ہو آج حکومت نے اچانک پٹرول کی قیمت بڑھا دی ہے وہ بھی تقریباً چھبیس روپے۔
یا اللہ خیر، اتنی بڑی خبر سن کے یوی کے ہاتھ میں چائے کی پیالی چھلک گئی۔ یہ اضافہ تو واقعی بہت زیادہ ہے۔ لوگوں کی مشکلات تو بڑھیں گی، آپ کی پریشانی لازم ہے۔
تم صرف لوگوں کا سوچ رہی ہو؟۔۔ جانتی ہو کہ ہمارا گزارا پہلے ہی مشکل سے ہو رہا تھا اب کیسے ہو گا؟۔۔ کیسے ادا کروں گا بجلی اور گیس کے بل؟۔۔ گوشت تو کیا پھل اور سبزی کو بھی ترس جائیں گے ہم، تنخواہ بھی تو نہیں بڑھتی ہماری۔۔ اس نے کہا
چلیں غصہ نہ کریں، بیٹھ جائیں، میں پیر صاحب کے پاس گئی تھی انہوں نے آپ کے لیے وظیفہ بتایا ہے، وہ پڑھا کریں انشااللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ تسبیح لیجئے۔۔میں آپ کو طریقہ سمجھاتی ہوں، عشا کی نماز کے بعد آپ نے نوافل ادا کرنے ہیں۔
اس نے بیوی کی بات درمیان میں ہی کاٹ دی، بولا نہیں اب وظیفہ نہیں، اب عملی جنگ کرنا ہو گی، ورنہ ہم یونہی گھٹ گھٹ کے مر جائیں گے، وہ غصے سے اٹھا اور باہر جانے لگا۔ بیوی بھی جلدی سے اٹھی اور بولی رات کے اس وقت کہاں جا رہے ہیں؟۔۔ بیٹھ جائیں۔
نہیں میرا جانا ضروری ہے۔ میں لوگوں کو اکٹھا کروں گا اور اب بس اب ان ظالموں سے جنگ ہو گی۔۔ انصاف کی خاطر مجھے اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے تو کوئی بات نہیں، تم چاہو تو اپنے گھر چلی جاو، میں اس جنگ کے لیے سر پہ کفن باندھ کے نکل رہا ہوں۔
سنیے تو سہی، کس کے خلاف لڑیں گے؟، آپ کی جنگ کس کے ساتھ ہے؟۔ آپ جانتے ہیں ناں؟۔۔
ہاں جانتا ہوں، میری جنگ ایک بہت بڑے مافیا کے خلاف ہے۔ یہ چور، لٹیرے اور ڈاکو حکمران۔۔ میں ان کو گریبان سے پکڑ کے چوراہوں میں گھسیٹوں گا، ظالم حکمران، انہیں غریبوں کا کوئی احساس ہی نہیں، اب ان مافیاز کو جانا ہو گا۔
سنیے، دیکھئے میری بات سنیں، میں آپ کے جذبات کی قدر کرتی ہوں لیکن اس وقت آپ ہی حکمران ہیں، آپ اب اپوزیشن لیڈر نہیں وزیر اعظم ہیں خان صاحب۔۔۔
اچھا؟۔۔۔
اوہ شکر ہے تم نے یاد کرا دیا، ایک تو مجھے یہ یاد ہی نہیں رہتا۔۔ اچھا سنو وہ پیر صاحب کا وظیفہ تو سمجھا دو، میں وضو کر کے آتا ہوں۔