میاں والی کا ریڈیو اسٹیشن

گزشتہ دنوں میانوالی جانے کا اتفاق ہوا تو ریڈیو پاکستان میانوالی بھی گیا ۔ میاں والی کا اسٹیشن 2010 میں قائم ہوا تھا ۔ 10 سال کے عرصے میں اس ریڈیو نے علاقے میں مقامی ثقافت ، موسیقی ، کھیلوں ، معلومات عامہ اور تعلیم سمیت مقامی سطح پر صلاحیتوں اور قابلیتوں کو نمایاں کرنے میں شاندار کردار ادا کیا ہے ۔ قلیل وسائل کے باوجود ریڈیو پاکستان میاں والی نے شاندار خدمات سر انجام دی ہیں جس پر اس کے سٹیشن ڈائریکٹرز اور جملہ سٹاف مبارکباد کے مستحق ہیں. ریڈیو پاکستان کے ساتھ میرا تعلق بہت پرانا ہے . میرے بچپن کی حسین اور خواشگوار یادیں ریڈیو کے پھولوں کی خوشبو سے معطر ہیں .

چھٹی کلاس میں پڑھتا تھا تو ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن نے ڈپٹی کمشنر آفس پشاور میں ضلعی سطح کے نعتیہ مقابلے کا انعقاد کیا ۔ میں نے اس مقابلے میں پندرہ برس سے کم عمر بچوں کے درمیان مقابلہ نعت خوانی کی کیٹگری میں حصہ لیا ۔

میں اپنے اسکول کے کچھ سینئرز طلبہ کے ساتھ اس مقابلے میں شریک ہوا ۔ وہاں ڈپٹی کمشنر اور ریڈیو پاکستان پشاور کی جانب سے مقابلوں کے انچارج محترم ڈاکٹر نورالبصر صاحب تشریف فرما تھے۔

میں نے 15 سال سے کم عمر بچوں کی کیٹیگری میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی ۔ ضلعی سطح پر مقابلوں میں پہلی اور دوسری پوزیشن لینے والے صوبائی مقابلوں میں شرکت کرتے اور صوبے میں پہلی پوزیشن لینے والے 9 ربیع الاول کو اسلام آباد میں منعقدہ کل پاکستان مقابلہ نعت خوانی میں صوبے کی نمائندگی کرتے یہ مقابلے اب بھی منعقد ہوتے ہیں.

تیسری پوزیشن آنے کی وجہ سے حوصلہ افزائی کے طور پر ریڈیو پاکستان پشاور نے بچوں کے پروگرام میں نعت پڑھنے کے لئے مجھے بلایا گیا۔ یہ میری اس نشریاتی ادارے سے وابستگی کی ابتداء تھی جو مجھے نعت کی بدولت ملی.

پھر اسکے بعد ریڈیو پاکستان پشاور میں میرا آنا جانا شروع ہو گیا ۔ اس ادارے سے میں نے بہت کچھ سیکھا ، میں نے بطور کمپیئر، اناؤنسر، ڈیوٹی آفیسر، ڈرامہ وائس، نیوز سمیت مختلف شعبوں میں اپنی خدمات سر انجام دیں ۔

ریڈیو پاکستان سیکھنے والوں کے لیے کسی اکیڈمی سے کم نہیں ۔ کوئی سیکھنے کی طلب لے کر اگر اس ادارے میں آئے تو یہاں بیٹھے لوگ اسے سونا بنا دیتے ہیں ۔
جو ڈھنگ سے اپنا نام نہ لے سکتا ہو وہ غالب و میر کی تلاوت یوں کرتا ہے کہ لکھنو اور دلی والے انگلیاں دانتوں میں دبا بیٹھتے ہیں ۔

ریڈیو پاکستان میاں والی کے اسٹیشن ڈائریکٹر طارق شاہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے

ریڈیو پاکستان میں پروڈکشن سے پریزینٹیشن تک، پروگرام سے ایڈمنسٹریشن تک، اور نیوز سے انجینئرنگ تک ہر شعبے میں ماہر ترین لوگ موجود ہیں.

ذرائع ابلاغ کے میدان میں مجھے جو مہارتیں ملی ہیں وہ سب میں نے ریڈیو پاکستان پشاور اور کیمپیس ریڈیو پشاور یونیورسٹی سے ہی سیکھی ہیں ۔

یہ ادارہ میرے لئے مادر علمی کی سی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ مجھے بچپن سے ہی اس کی آغوش میں سیکھنے کا موقع ملا.

ریڈیو سے محبت اور عشق اتنا ہی اب بھی کسی شہر میں جاؤں تو وہاں ریڈیو اسٹیشن موجود ہوتو وہاں ضرور جاتا ہوں ۔ مجھے اس ادارے سے انسیت ہے اور وہاں جا کر مجھ ایسا لگتا ہے جیسے میں اپنوں میں آگیا ہوں.

 

سٹیشن ڈائریکٹر جناب طارق شاہ صاحب نے گفتگو کے دوران بتایا کہ ریڈیو نے میاں والی میں برداشت ، سماجی ہم آہنگی ، مذہبی رواداری اور باہمی تعلقات کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ہم نے اپنے پروگراموں کا ڈھانچہ سماجی ضروریات کے مطابق ترتیب دیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ علاقے میں لوگوں تک بہترین معلوماتی پروگرام نشر کیے جاتے ہیں ۔ ثقافتی اور تفریحی سرگرمیوں کو ترجیحی بنیادوں پر کور کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اخبار ، ٹی وی اور سوشل میڈیا کے آنے کے بعد لوگوں نے سمجھا کہ ریڈیو کی ضرورت ختم ہو چکی ہے تاہم اب بھی ریڈیو دنیا بھر میں معلومات اور تفریح کا سب سے سستا ، آسانی سے میسر اور موثر ترین ذریعہ ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے