عقل و فہم اور خوش اخلاقی

اگر آپ تعلیم یافتہ ہیں تو یقیناً آپ کو علم ہوگا کہ عقل و فہم اور خوش اخلاقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایک عقل و فہم والا شخص عموماً خوش اخلاق بھی ہوتا ہے۔ آئیے چند واقعات پر نظر ڈالتے ہیں جن میں عقل و فہم اور خوش اخلاقی کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔

(1) ایک خوش مزاج آدمی شہد بیچا کرتا تھا۔ اس کی مٹھاس یعنی شیریں زبانی پر لوگ فریفتہ تھے۔ وہ گویا مصری تھی جو گنّے کی طرح کمر بستہ تھی۔ اس کے گاہک مکھیوں سے بھی زیادہ تھے۔ یعنی اس کے اچھے رویے پر زیادہ تر لوگ اس سے شہد خریدتے اور اگر مثال کے طور پر وہ زہر بھی پیش کرتا تو لوگ اس کے ہاتھ سے شہد کی طرح کھا لیتے۔ ایک بدفطرت آدمی نے جب اس کے کاروبار کو دیکھا تو اس کی اس گرم بازاری پر اسے حسد آگیا۔ اگلے روز وہ شہر کے اردگرد گھومتا رہا۔ اس حالت میں کہ شہد اس نے سر پر اُٹھایا ہوا تھا لیکن اس کے ماتھے پر شکن پڑئی ہوئی تھی۔ وہ آگے پیچھے یعنی اِدھر اُدھر بڑی آوازیں لگاتا رہا (کہ شہد خرید لو) لیکن اس کے شہد پر مکھی تک نہ بیٹھی یعنی ایک بھی گاہک اس کی طرف نہ آیا۔ آخر جب رات تک اسے کامیابی نہیں ہوئی تو وہ مایوس ہو کر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔

اس کی حالت یہ تھی کہ وہ مجرم کی طرح سزا کے خوف سے منہ لٹکائے ہوئے اور عید کے دن قیدیوں کی طرح سر جھکائے ہوئے تھا۔ اس کی (زندہ دل) بیوی نے ہنسی مذاق میں اس سے کہا کہ ایک بدمزاج آدمی کیلئے شہد بھی کڑوا ہوتا ہے۔ بدمزاجی انسان کو دوزخ میں لے جاتی ہے، جبکہ خوش مزاجی کا تعلق ہی بہشت سے ہے۔ جا ’ندی کے کنارے گرم پانی پی‘ کسی بدفطرت کے ہاتھ سے ٹھنڈا (عرقِ) گلاب مت پینا۔ اس آدمی کے ہاتھ سے روٹی کھانا تو ایک طرف‘ روٹی چکھنا بھی حرام ہے‘ جس نے اپنے ابروئوں پر دستر خوان کی مانند تیور چڑھا رکھے ہوں۔ میاں! خود کو بلاوجہ؍ خوامخواہ مصیبت میں نہ ڈال‘ اس لئے کہ ایک بدمزاج انسان ہی بدبخت ہوتا ہے۔ میں نے یہ تسلیم کر لیا کہ تیری نظروں میں سونے چاندی کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں ہے‘ لیکن کیا سعدیؔ کی طرح تیرے لئے شیریں زبانی و خوش مزاجی بھی کوئی چیز نہیں ہے؟ گویا سعدیؔ میں تو یہ صفات ہیں‘ تجھ میں نہیں ہیں۔ تو یہ صفات اپنانے کی کوشش کر۔

(2) ایک بزرگ اپنی ہنرمندی کے باعث دنیا بھر میں مشہور تھا۔ اس کا غلام بڑا ہی بداخلاق تھا۔ اس کی سستی و کاہلی کی وجہ سے اس کے بال پھیلے پھیلے رہتے جبکہ اس کے چہرے پر برائی کے آثار نمایاں تھے اور اس کے دانت اژدھے کی مانند زہر سے بھرے ہوتے۔ اپنی بدشکلی کی بنا پر وہ شہر کے بدصورتوں سے بازی لے گیا تھا۔ اس کی آنکھوں کی خرابی کے باعث اس کے چہرے پر پانی بہتا رہتا۔ جب وہ کھانا پکانے لگتا تو ماتھے پر تیوری چڑھانے لگتا اور جب پکا لیتا تو دستر خوان پر اپنے مالک کے سامنے زانو ٹپک کر بیٹھ جاتا۔

لگاتار کھانا کھانے کے لئے بیٹھا رہتا اور اگر وہ (مالک) یا کوئی مر بھی جاتا تو بھی اسے پانی تک نہ دیتا۔ نہ تو اس پر کوئی بات ہی اثر کرتی اور نہ چھڑی سے مار پیٹ ہی کا وہ اثر لیتا۔ (اس کے اسی قسم کے رویے سے مالک کا) گھر دن رات بربادی کا شکار ہورہا تھا۔ کبھی تو وہ کوڑا کرکٹ راستے میں ڈال دیتا اور کبھی کوئی مرغی کنویں میں پھینک دیتا۔ اس کے چہرے سے وحشت برستی تھی اور جب کسی کام پر جاتا تو کام انجام دیے بغیر لوٹ آتا۔

کسی شخص نے اس کے مالک سے کہا کہ ’’تجھے اس بدخصلت غلام سے کس بات کی توقع ہے‘ کیا تو اس سے ادب کا طالب ہے یا ہنر اور خوبصورتی کا؟ اس کی اس قسم کی ناپسندیدہ عادتوں کی بنا پر اس کا یہاں (تیرے ہاں) رہنا مناسب نہیں ہے۔ اس لئے کہ تُو تو اس کی جفا برداشت کررہا ہے اور اس کا بوجھ اٹھا رہا ہے‘ یعنی اس پر اچھا خاصا خرچ کررہا ہے۔ میں تیرے لئے ایک اچھا اور نیک سیرت غلام لاتا ہوں تو اسے (بدخصلت غلام کو) منڈی میں لے جا۔ اگر وہ تھوڑی سی رقم پر بھی بک جائے تو فوراً بیچ ڈال‘ انکار نہ کر‘ اس لئے کہ اگر تو سچ پوچھے تو یہ مفت میں بھی مہنگا ہے‘‘۔

اس نیک فطرت آدمی یعنی غلام کے مالک نے جب اس شخص کی اس قسم کی باتیں سنیں تو وہ ہنس دیا اور بولا کہ ’’اے عالی نسب دوست! ٹھیک ہے کہ یہ غلام بدمزاج و بدفطرت ہے‘ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس کے ایسےہی رویے سے میری طبیعت میں اچھی عادت پیدا ہورہی ہے۔ سو جب میں نے اس غلام کو برداشت کر لیا ہے تو میں دوسرے لوگوں کی جفا بھی برداشت کر سکتا ہوں۔ (یوں سمجھ لے کہ) تحمل و برداشت شروع شروع میں زہر کی مانند لگتا ہے لیکن جب یہ طبیعت میں بڑھتا چلا جاتا ہے تو شہد کی مانند ہو جاتا ہے۔ یعنی انسان ایسے سخت حالات کا عادی ہو جانے پر کسی بھی سختی سے ڈرتا اور گھبراتا نہیں اور یوں اس کی زندگی سکون سے گزرتی ہے۔

(3) معروف کرخی (عراق کے شہر کرخ کے ایک ولی اللہ) کی راہ پر وہی شخص چل سکتا ہے جس نے پہلے شہرت کا خیال اپنے دماغ سے نکال دیا ہو۔ میں نے سنا ہے کہ ایک مرتبہ ان کے ہاں ایک مہمان آیا جس کی بیماری اور موت میں کچھ ہی فاصلہ رہ گیا تھا‘ یعنی بیماری کے سبب وہ قریب المرگ تھا۔ اس کے سر کے بال جھڑ چکے تھے اور چہرے کی چمک ختم ہو چکی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے اس کی جان اس کے بدن کے ساتھ ایک بال سے بندھی ہوئی ہے (بہت کمزور ہو چکا تھا)۔ (معروف کرخی نے) اسے رات وہاں لٹایا اور اس کے لئے تکیہ لگادیا۔ اس (مریض مہمان) نے لیٹتے ہی آہ و فغاں شروع کردی۔

راتوں کو وہ پل بھر کے لئے بھی نہ سوتا‘ اس کی اس آہ و زاری کے باعث دوسرے افراد بھی نہ سو سکے۔ وہ شخص پریشان طبع اور تلخ مزاج تھا۔ وہ خود تو نہیں مرتا تھا لیکن اپنی بحث و تکرار سے دوسروں کو مار رہا تھا‘ یعنی ان کا برا حال کر رکھا تھا۔ اس کے رونے اور فریاد و فغاں نیز بار بار اٹھنے بیٹھنے کے باعث لوگ اس سے بھاگ گئے۔ اس خانقاہ میں سوائے اس ضعیف اور معروف کرخی کے اور کوئی نہ رہا۔

میں نے سنا ہے کہ معروف کرخی اس شخص کی خدمت کی خاطر راتوں کو جاگتے رہے۔ وہ دلیروں کی طرح کمربستہ رہے اور جو کچھ وہ کہتا معروف کرخی وہ کر دیتے۔ ایک رات نیند نے ان پر حملہ کیا‘ یعنی انہیں نیند آگئی۔ (سیدھی سی بات ہے کہ) جو آدمی راتوں کو مسلسل جاگتا رہا ہو وہ بھلا کب تک اس بیداری کو برداشت کر سکتا ہے؟ (جاری ہے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے