چشمِ یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو!

چشمِ یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو!

یہ اعترافات اور وضاحتوں کا موسم ہے۔
آپ تاریخ کے کس طرف کھڑے ہیں؟ یہ سوال ہر اس شخص کو پیش آتا ہے جو کارگہ حیات ہی میں نہیں، بارگاہِ خداوندی میں بھی خود کو جواب دہ سمجھتا ہے۔ جو خدا کی عدالت کو نہیں مانتا، وہ اسے ضمیر کی عدالت کہتا ہے۔ یہ فیصلہ دو بنیادوں پر ہوتا ہے: فکری دیانت اورذہنی بلندی۔ دونوں کا اجتماع ہی عام طور پر کسی کو درست جگہ لاکھڑا کرتا ہے۔ پہلی چیز آپ کے اخلاق کا امتحان ہے۔ دوسری آپ کی بصیرت کا۔

عالم کا پروردگار یہ کہتا ہے کہ ہم نے ہر کسی کا ریکارڈ سنبھال رکھا ہے۔ دو کاتب اس پر مامور ہیں کہ ایک ایک جنبش اور ایک ایک حرف کو لکھ ڈالیں جو قدموں سے اور زبان سے صادر ہو۔ یہی نہیں، قیامت کے دن، یہ تمہارے اعضا ہیں جنہیں ہم قوتِ گویائی دیں گے اور وہ بول اٹھیں گے۔ انسان فرشتوں کے لکھے پہ ‘ناحق‘ نہیں پکڑا جائے گا، اس کا وجود اس کے خلاف گواہ بنے گا۔ میں یہ عجیب منظر اسی دنیا میں دیکھ رہا ہوں۔

مورخ نے جو لکھنا تھا، وہ تو لکھ ہی رہا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس بار قدرت نے معاملے کو صرف مورخ کے سپرد نہیں کیا۔ اب تو لوگوں کے اعضا بول اٹھے ہیں۔ زبانیں گواہی دے رہی ہیں اور ہاتھ لکھ رہے ہیں۔ وہ سب کچھ بیان کر دیا گیا ہے جو چھپایا جاتا تھا۔ ایک ایک بات کہہ دی گئی اور لکھ دی گئی ہے۔

2018ء کے انتخابات میں عمران خان صاحب کی جیت کیسے ہوئی؟ امیدواروں کا انتخاب کہاں ہوا؟ 2014ء کے دھرنے کے پیچھے کون تھا؟ اقتدار کی بساط کس نے بچھائی؟ انسانی بت کیسے تراشا اور استوارکیا گیا؟ اس کو بھگوان کیسا بنایا گیا؟ ہر سوال کا جواب آچکا۔ یہ جواب کسی سیاسی مخالف کے پروپیگنڈا ٹیکسال میں نہیں ڈھلے۔ یہ آستین کا لہو ہے جو پکار رہا ہے۔ وہی بات جو قیامت میں ہونی ہے۔ یہ اعضا ہیں جو گواہی دے رہے ہیں۔ وہی اعضا و جوارح جنہوں نے اس بت گری میں اپنا حصہ ڈالا۔

عمران خان صاحب کی سیاسی زندگی کے دو ادوار ہیں۔ ایک2011 ء سے پہلے، ایک اُس کے بعد۔ پہلے دور میں خوش گمانی کا پورا امکان تھا؛ اگرچہ کچھ لوگ آج بھی یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ اس وقت بھی کسی کے نگاہِ انتخاب میں آ چکے تھے؛ تاہم اگر ایسا تھا بھی تو اتنا مستور تھا کہ چند لوگ ہی جان پائے۔ اس لیے اگر اس دور میں کسی کو خوش گمانی تھی تو اس کا جواز موجود تھا۔ یہی وہ دور ہے جب معاشرے کے نیک اور بے غرض لوگوں نے ان سے امیدیں باندھیں۔

2011ء کے بعد ایک دوسرا منظر ہمارے سامنے تھا۔ اب وہ ایک خود مختار آدمی نہیں، ایک مشین کا پرزہ تھے۔ یہ مشین اب کوئی غیبی قوت چلا رہی تھی۔ ان کی شخصیت سازی اب ایک پروجیکٹ کا حصہ تھی۔ اِس نے ایک انسان کو دیوتا بنانا تھا۔ یہ پروجیکٹ، بزبان اردو منصوبہ، بڑی حکمت کے ساتھ آگے بڑھا۔ یہ حکمت مگر ایسی تھی کہ کچھ مستور نہ رہا۔ یہ سارا کھیل اگرچہ دیوار کے پیچھے تھا مگر دیوارشیشے کی تھی۔ معلوم ہوتا ہے یہ اہتمام دانستہ تھا۔

اِس دور میں، جب سب کچھ ظاہروباہر تھا، خوش گمانی کا باقی رکھنا اخلاق کا امتحان تھا اور بصیرت کا بھی۔ میں عام آدمی کی بات نہیں کررہا۔ یہ ان کی بات ہے جو محرمِ راز درونِ مے خانہ ہیں۔ جو خود ہمیں بتاتے ہیں کہ ریاست کے اعلیٰ ترین لوگ ان کے بے تکلف یار ہیں۔ ہم تمباکو و ہم مجلس۔ ان کے بارے میں یہ باور کرنا آسان نہیں کہ وہ اس کھیل کی حقیقت سے واقف نہیں تھے۔ پھر وہ اس وقت کیوں خاموش رہے؟

میں تمام تر حسنِ ظن کو بروئے کار لاؤں تو اس کا ایک جواب تلاش کر سکتا ہوں۔ وہ دیانت داری سے یہ سمجھتے تھے کہ سیاسی نظام کو نئے خطوط پر استوار کرنے کے لیے سیاسی چہرے کے پیچھے غیر سیاسی ہاتھ ہونا چاہیے تاکہ اس کو تکنیکی معاونت اور استحکام مل سکے اور یوں پاکستان کے سیاسی کلچر میں موجود خرابیوں کی اصلاح ہو جائے۔ اس گمان سے، اخلاقی سوالات سے برات ممکن ہے لیکن بصیرت کے سامنے کھڑا سوالیہ نشان پھر بھی باقی رہتا ہے۔

غیرجمہوری قوتیں اس سے پہلے براہ راست اور بالواسطہ حکومت کر چکیں۔ آج ہمارے سیاسی نظام میں جو خرابیاں ہیں یہ اسی سیاسی بندوبست کی عطا ہیں۔ پھر اس کے ساتھ عمران خان صاحب کی صلاحیت۔ ان دونوں کی موجودگی میں یہ کیسے گمان کر لیا گیا کہ پرانی دوا سے شفا مل جائے گی؟ میر کے شعر کو آخر کب تک ہم سچا ثابت کرتے رہیں گے؟

یہ عمران خان صاحب کے دوسرے دور کا ایجابی پہلو ہے۔ ایک پہلو سلبی بھی ہے۔ 2016ء کے بعد جو کچھ نوازشریف صاحب کے ساتھ ہوا، کیا اسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ ان کے ساتھ یہ سلوک، کیا اس لیے روا رکھا گیا کہ وہ کرپٹ تھے؟ کیا کوئی آدمی دل پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ سکتا ہے کہ انہیں کرپشن کی سزا ملی؟ دائیں بائیں کے تمام تجزیہ کار متفق ہیں کہ ان کو یہ سزا اس لیے ملی کی انہوں نے غیر سیاسی قوتوں کے ساتھ تعلقات خراب کر لیے تھے۔ وزیرداخلہ اعجاز شاہ ببانگِ دھل یہ کہہ چکے کہ نواز شریف اگر ان قوتوں سے بنا کر رکھتے تو اب بھی اقتدار میں ہوتے ہیں۔

اس پہلو کو سامنے رکھیں تو خوش گمانی ساتھ دینے سے انکار کر دیتی ہے۔ اس سمت میں چند قدم چل کر ہی، اس کی سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں۔ اخلاقیات کے باب میں کچھ سوالات بنیادی ہیں: کھلی آنکھوں کے ساتھ کوئی ظلم کا ساتھ کیسے دے سکتا ہے؟ قوم کا کون سا مفاد ہے جس کی عمارت ظلم پر رکھی جا سکتی ہے؟ کیا سب سے بڑی عدالت نہیں لگے گی؟ کیا ضمیر کی کوئی آواز نہیں؟ میں جب ان سوالات کے جواب کے لیے نکلتا ہوں تو خوش گمانی ہم قدم ہونے سے انکارکر دیتی ہے۔

انسان کے لیے سوال یہی ہے کہ وہ تاریخ کے کس سمت میں کھڑا ہے؟ یہ امتحان ہم جیسوں کے لیے سوا ہے کہ جو بزعمِ خویش قوم کی راہنمائی کا منصب سنبھالے ہوئے ہیں۔ تاریخ واقعات کا تسلسل ہے۔ انسان کو لمحہ موجود میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اگر آج کوئی ظلم کا شکار ہے تو ہمیں آج فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے ظالم کا ساتھ دینا ہے یا مظلوم کا؟ اس مرحلے پر یہ سوال غیر اہم ہے کہ یہ مظلوم کل کو ظالم بھی تھا۔ یہ دلیل اخلاق کی عدالت میں قابلِ لحاظ نہیں۔

ہماری تاریخ کے گزشتہ چھ سال اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ اب کوئی بات نگاہوں سے اوجھل نہیں رہی۔ عام آدمی بھی جانتا ہے کہ ‘سرِآئینہ میرا عکس ہے، پسِ آئینہ کوئی اور ہے‘۔ تاریخ اس بنیاد پر فیصلہ نہیں کرتی۔ وہ تو یہ پوچھتی ہے کہ جب تمہارے سامنے ایک معرکہ برپا تھا تو تم کس صف میں کھڑے تھے؟ ظالم کے ساتھ یا مظلوم کے ساتھ؟ یہ انتخابات میں حمایت یا مخالفت کا سادہ سوال نہیں۔

یہ اعتراف اور رجوع کا موسم ہے۔ اعضا گواہی دے رہے ہیں۔ یہ تاریخ کا ما بعدالطبیعاتی پہلو ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ضمیر کی متوازی عدالت بھی لگ چکی ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ جو اس عدالت میں اپنا مقدمہ جیت جائیں گے۔ ایک عدالت عوامی بھی ہے۔ وہاں اس وقت کیا ہو رہا ہے؟ مجھے علامہ اقبال کی ایک نظم ‘جبریل و ابلیس‘ کا ایک مصرعہ یاد آرہا جواقبالؔ نے جبریل سے کہلوایا ہے:ع
چشمِ یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے