پاکستان کے موجودہ وفاقی وزیر برائے ہوابازی ،۲۴ مئی۲۰۱۹ سے ہوابازی کی صنعت کی ترقی کی ذمےداری لیئَے ہوئے ہیں۔ اس عہدے پہ براجمان ہیں اس سے پہلے غلام محمد سرور کو وفاقی وزیر برائے پٹرولیم کا عہدہ دیا گیا تھا لیکن بعدزاں وزارت تبدیل کر کے ایویشن کی صنٰت میں منتقل کر دیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان کو در حقیقت ان سے کارناموں کی امید ہوتی ہو گی لیکن آج وہ پوری دنیا میں قومی شرمندگی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
۲۰۰۲ سے ۲۰۰۷ اور ۲۰۱۳ سے ۲۰۱۸ تک غلام محمد سرور ممبر قومی اسمبلی اور ۱۹۸۵ سے ۱۹۹۶ تک ممبر صوبائی اسمبلی رہے۔
۲۰۰۲ اور۳ ۲۰۱ میں غلام سرور کی حاصل کردہ ڈپلوما ڈگری اور انجینیئرگ ڈگر ی مستند نہ ہونے کو چیلنج کیا گیا اور ۲۰۱۳ میں قومی اسمبلی کی ممبررشپ کو معطل کر دیا گیا لیکن ۲۰۱۹ میں ان کی ڈگریوں کو مستند قرار دے دیا گیا ۔یعنی انکی تعلیم اور قابلیت کو فیک کہا گیا جیسے انہوں نے پی۔ آئی ۔اے کے۸۶۰ میں سے ۲۶۲پاِئلٹس کے لائسنسیز کو جعلی یا مشکو ک قرار دیا۔
ماضی کی جھلک دیکھانا اس لیئے ضروری تھی تاکہ منسٹر صا حب کو یاد دلایا جا سکے کہ جب ڈگری جعلی نا ہو اور بغیر تصدیق کے جعلی قرار دی جائے تو کتنا نقصان ہوتا ہے۔ ذاتی تجربہ ہونے کے باوجود ان سے ایسی غیر ذمے داری کی امید نہیں کی تھی۔
منسٹر ہووا بازی نے ہوا میں باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘جتنے بھی پائلٹس ہیں، جن لوگوں کے خلاف انکوائری ہوئی، یا جو لوگ ریکروٹ ہوئے یہ سب 2018 سے پہلے کے لوگ ہیں’۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے اقتدا میں آنے کے بعد پی۔آئی ۔اے کی کارکردگی پہ نظر رکھنا آپ کی حکومت کا کام تھا اور ۲۰۱۹ کے بعد سب سے بڑھ کے آپ کی اپنی ترجیح ہونی چاہیئے تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘پی آئی اے کو 141 پائلٹس کی فہرست دی گئی، ایئربلیو کو 9 پائلٹس کی فہرست دی اور کہا کہ یہ مشکوک ہیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ کس بنیا د پہ مشکوک ہیں اور تحقیات مکمل ہوئے بغیر۔
یورپی ایویشن حفاظتی ایجنسی کی جانب سے ۲۰۱۲ بھی پی آئی ای کی حفا ظتی سرٹیفیکیشن ، ٹائر کو آ گ لگ جانے والے واقعات کے بعد معطل کی گئی تھی۔ اور جو بیان منسٹر صاحب نے دیا وہ اپنے پائوں پہ خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
پی۔آئی۔اے ، سی ۔ای۔او کو جو پائلٹس کی فہرست فراہم کی گئی وہ فہرست نہ برقت پہہنچائی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ جو تفتیش ہو ئی ہے اس سے لائسینس کے مشکوک ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔ یہ بیان اس بات کا ثبوت ہے کی بغیر مکمل شواہد اور تحقیق کے پائلٹس کے متعلق ایسا بیان دینا ادارے کی اپنی بدانتطامی کو چھپانا ہے۔ اور جب ۲۸ پائلٹس کی لائسنس حقیقت میں جعلی تھے تو باقی پا ئلٹس کو کس چکر میں بلی کا بکرا بنایا گیا؟
ادارے کو لکھے گئے خط میں پالیٹس کو اپنی پوزیشن کیلئر کرنے کی اپشن بھی دی گئی ہے۔ تحقیقات پوری ہونے کے بعد، مکمل رپوٹ فائیل کرکے اس کے بعد عوامی اعلان کاکیا جانا چاہیے تھا۔ اس کی تکنیکی وجہ یہ ہے کی پائلٹس کو تحقیقات کے دوران چونکہ گراونڈڈ ہی رہنا تھا تو اس طرح کا بیان دے کر پوری دنیاکو اپنی کوتاہیوں کی طرف متوجہ کرنےکی ضرورت نہیں تھی؟
سب سے اہم سوال یہ اٹھتا ہے کی جو پائلٹس تفتیش میں کلئیر ہو جائیں گے ان کی پروفئیل پہ لگنے والے داغ کو کون صاف کے گا؟
ایاسا” کے خط میں یہ بات بھی واضع ہے کہ تمام طر ذمے داری پائلٹ پہ ڈالنا غلط ہے ۔ پی۔ کے ۸۳۰۳ جیسے کریش کی ذمےداری پورے حفاظتی اقدامات کی مینجمنٹ پہ آتی ہے۔ اور ایاسا کی پابندی کے بعد سیول ایویشن کو پاکستان کے ائیر پورٹس اور ائیر ٹریفک کنٹرول سیسٹم کو بین الاقوامی معیار کے مطابق پھر سے ثابت کرنا ہوگا۔
سعودی عرب، ملاشیائ اور دیگر ممالک میں بھی پاکستانی پائلٹس کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوََِئے یا نوکری سے نکالا جا رہا ہے یا وقتی پابندی کا سامنا ہے۔
پاکستان میں پائلٹس کو لائسنس جاری کرنے کا ایک مربوط نظام موجود ہے اور یہ نظام شہری ہوا بازی کے ریگولیٹر کے ماتحت کام کرتا ہے
پاِئلٹ بننے کے لیئے انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد سول ایوی ایشن کا وضع کردہ میڈیکل ٹیسٹ پاس کرنا ہوتا ہے۔
۳ ماہ کے ٹرینگ کے بعد سٹوڈنٹس لائینس ،۴۰ گھنٹے کی پرواز پر پرائیوٹ پائلٹ لائسنس اور ۲۰۰ گھنٹے کی پرواز مکمل کرنے پہ سیول ایویشن کا کمرشل پائلٹ لائسنس ملتا ہے۔
سول ایوی ایشن کے قوانین کے مطابق پائلٹ تقریباً 16سے 18سال تک بطور معاون پائلٹ پرواز کرتے ہوئے اپنے گھنٹے مکمل کرتا ہے اور کپتان بننے کے لیے تحریری امتحان دینے کا اہل ہوجاتا ہے۔ اس تحریری امتحان میں سو سوالات پر مشتمل 8 پرچے دینا ہوتے ہیں۔
کوئی بھی پائلٹ جو اس امتحان کو پاس کرلیتا ہے تو اس کو دیگر پریکٹیکل ٹیسٹ لینے کے بعد اے ٹی ار طیارے پر 50 گھنٹے کمانڈ پائلٹ کی تربیت دی جاتی ہے اور اس کے بعد و ہ کپتان کے لیے مختص نشست پر بیٹھنے کا حقدار ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد سول ایوی ایشن پائلٹ کو ایئر لائن ٹرانسپورٹ لائسنس دیتی ہے، اسی لائسنس کو غلام سرور صاجب نے مشکوک کہا ہے۔
اس تحریر سے صاف ظاہر ہے کہ کیسے ایک پائلٹ کو سالوں کے امتحانات اور کڑی محنت کے بعد جہاز کا کپتان بننے کا موقع ملتا ہے۔ اور سیول ایویشن ان تمام مراحل میں کارفرما ہوتی ہے تو سیول ایویشن جہاز کریش ہونے پر کیسے اپنی ذے داری سے بھاگتے ہوئے سارا ملبہ پائلٹ اور کنٹرول ٹاور پہ ڈال سکتی ہے۔انہیں پردہ پوشیوں نے بین اقوامی سطح پہ ایویشن کی صنت کی اہلیت پہ سوال اٹھا دیے ہیں۔ اور یہ کارنامہ سرانجام دینے پہ وفاقی وزیر برائے ہوا بازی کو مستعفی ہونا چاہیئے۔