مکر و فریب زدہ اس دنیا میں کچھ لوگ زمین کا نمک تھے۔خرم مراد صاحب مرحوم ، قاضی حسین احمد صاحب مرحوم ، پروفیسر عبدالغفور صاحب مرحوم کے بعد سید منور حسن صاحب بھی راہی ملک عدم ہوئے۔یہ سب اس دنیا کے لوگ نہیں تھے یہ کسی اور سیارے کی مخلوق تھے۔غم ذات سے نکل کر امت کے غم میں مبتلا ، امت کے فکر میں گھلتے گھلتے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔یہ سارے وہ ہیں جو آئینے کی طرح صاف اور شفاف تھے۔جس طرح شیشے کے آر پار دیکھا جا سکتا ہے ان کی شخصیت میں بھی بال برابر فرق نہیں تھا۔ان کی حسنات دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ انہوں نے جو علم ، دین اور جدوجہد کی شمعیں روشن کیں ان کی روشنی قیامت تک جاری رہے گی۔اور اس راہ کے مسافر فیض یاب ہوتے رہیں گے۔
کسی نے سچ لکھا ہے کہ سید مودودی کے بعد سید منور حسن صاحب کو زندگی میں مرشد لکھا جانے لگا۔
کہتے ہیں کہ اگر کسی کے بارے میں رائے دینی ہو تو وہ صائب رائے تب ہوگی جب آپ نے اس شخصیت کے ساتھ سفر کیا ہو، لین دین کیا ہو، غصے میں دیکھا ہو، سید صاحب کے ساتھ کئی سفر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، انھیں غصے میں بھی دیکھا اور رائے وہ ہے جو اوپر بیان کی ، ایک ایسی شخصیت جس کے آر پار دیکھا جا سکتا ہو،
رزم ہو یا بزم ، پاک دل و پاک باز
1995 میں ،جب میں نویں جماعت کا طالب علم تھا تب ان کے ساتھ پہلا سفر اور دو بھی دو دن پر مشتمل کرنے کا موقع ملا۔معروف صحافی منیر احمد ذاھد کے بھائی بشیر عابد جو خود بھی ایک صحافی اور بڑی اچھی آواز کے مالک تھے۔جامعہ منصورہ کے تلامذہ میں سے تھے۔آبائی تعلق زالورہ سوپور سے تھا۔وہ مقبوضہ کشمیر میں شہید ہوئے تو ان کی یاد میں عباس پور آزادکشمیر میں کانفرنس تھی۔مہمان خصوصی سید منور حسن صاحب تھے۔سید صاحب لاہور سے تشریف لائے۔اور پھر راولپنڈی سے ہم کشمیر جماعت کے جانثار ساتھی صالح طاہر صاحب صاحب کے ساتھ عباس پور روانہ ہوئے۔اس وقت ابھی موبائل فون نہیں تھا۔اس لیے ذندگی کچھ آسان بھی تھی۔رات کو قیام راولاکوٹ کے ایک ریسٹ ہاوس میں تھا۔وہاں پر سابق امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر سردار اعجاز افضل خان اور اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق معتمد عام برادر شبیر احمد مرحوم ( 2005 کے زلزلے میں راہی ملک عدم ہوئے )وہ دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہمارے منتظر تھے۔نویں جماعت کا طالب علم ایک ملکی سطح کی شخصیت کے ساتھ پہلا سفر کر رہا تھا۔ادب اور احترام کے ساتھ ایک رعب اور دبدبہ بھی حاوی تھا۔لیکن ابھی ہم نے کوہالہ پل بھی پار نہیں کیا تھا کہ نویں جماعت کا طالب علم ایک بڑی شخصیت کے ساتھ ایسے محو گفتگو تھا کہ جیسے برسوں کو تعلق ہو۔
دہلی کے سید نہ صرف شستہ اور رواں زبان بولتے تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بذلہ سنجی، حاضر جوابی اور علم و فضل سے بھرپور گفتگو آپ کا خاصہ تھی۔کے بجے کا لفظ ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا لیکن سید صاحب کی زبان سے پہلی دفعہ سنا ۔جب راولاکوٹ ریسٹ ہاوس میں رات سونے سے قبل انھوں نے پوچھا کہ صبح کے بجے نکلنا ہے۔اگلے دن ہم وہاں سے عباس پور روانہ ہوئے۔راستے میں اعجاز افضل صاحب راولاکوٹ اور علاقے کے بارے میں بتاتے رہے۔کشمیری سرفروشوں سبز علی خان اور ملی خان کا بتایا ۔راولاکوٹ کے قریب وہ درخت ہے جہاں انگریزوں نے زندہ ان کی کھالیں کھینچی تھی۔ عباس پور جو اس وقت چھوٹا سا شہر تھا۔اس میں بہت بڑی تعداد میں لوگ جمع تھا۔تحریک آزادی جموں کشمیر کے اولین میزبانوں میں سے ایک اور کشمیریوں کے پشتی بان عبدالرشید ترابی صاحب نے کہا کہ آپ لوگ ایک شہید کی کانفرنس میں اتنی بڑی تعداد میں جمع ہوئے ہیں کہ اتنی تعداد میں جھنڈی والی گاڑیوں کا اسقبال کرنے نہیں آتے.
سید صاحب کا خطاب اور وہ بھی ایک شہید کی یاد میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے موقع پر، لوگ دم بخود تھے۔کشمیر کی جدوجہد آزادی ، کشمیری عوام کی قربانیاں اور عالمی استعمار کی ریشہ دوانیاں ایسے بیان کیں جیسے حق ہوتا ہے۔فرمایا کہ امریکہ نے افغانستان میں ہونے والی جدوجہد کو نہایت قریب سے دیکھا ہے ، دوربین بلکہ خورد بین لگا کے دیکھا ہے ۔بغیر لانچر کے بیک وقت کئی کئی راکٹ فائر کرتے مجاہدین کو دیکھا ہے۔تب ان کی تحقیق نے ان کو بتایا کہ یہ جذبہ جہاد ہے جو ان کو اپنی قیمتی متاع ہنسی خوشی قربان کرنے کے لیے تیار کرتا ہے۔اور اگر یہ افغان یہاں سے فارغ ہوئے تو پھر کشمیر کا رخ کریں گے۔لہذا انھوں نے ایسے دجل اور فریب تیار کیے کہ افغان اپنے ملک میں ہی مصروف رہیں۔
سید صاحب کی بات کتنی سچ ہوئی کہ بعد میں کیسی کیسی کہانیاں گھڑ کے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئ اور ایسے تانے بانے بنے گئے کہ آج تک افغانستان میں حقیقی امن نہیں ہو سکا۔
عباس پور سے واپسی پر حریت رہنما اشرف صراف صاحب بھی ہمراہ ہمراہ تھے۔بعد میں ان کا بیٹا مدثر ایف جی سر سید کالج میں میرا کلاس فیلو بھی رہا۔
صراف صاحب کشمیری لہجے میں صالح طاہر صاحب کو طاہر صالحہ کہتے تھے۔اور ہم اس سے خوب محظوظ ہوئے۔
عباس پور سے جب ہم واپس پہنچے تو رات ہو چکی تھی ۔میں نے سید صاحب سے درخواست کی رات کا کھانا ہمارے ہاں کھائیں۔بڑے بھائی چوہدری رضا محمد جو آج کل جماعت اسلامی پی پی 14 راولپنڈی کے امیر ہیں۔انھوں نے فورا” کھانے کا بندوبست کیا۔بھاگم بھا کر کے جب دسترخوان سجا تو سید صاحب نے بمشکل ایک روٹی کھائی۔اور ہمیشہ میں نے دیکھا کہ یہ ان کا معمول تھا۔کہ ہمیشہ کم کھاتے، کہیں پر بھی جاتے تو کھانے کی بجائے پروگرام پر زیادہ توجہ دیتے۔پروگرام کا وقت نماز کی مناسبت سے رکھتے ۔رضا بھائی بتا رہے تھے کہ اسلام آباد سے ان کو علامہ اقبال کالونی مولنا سرور صاحب کے ہاں پروگرام کے لیے لے کے جانا تھا۔پشاور روڈ ایک پٹرول پمپ کی مسجد پہنچے تو ابھی نماز میں 20 25 منٹ رہتے تھے۔میرا خیال تھا کہ مسجد مائی جان پہنچ کر نماز پڑھیں گے تا کہ اس کے بعد پروگرام میں تاخیر نہ ہو۔لیکن منور صاحب نے کہا کہ ہم وہاں پر جماعت میں شامل نہیں ہو سکتے لہذا ہم نماز یہیں پڑھیں گے اور پھر باقی وقت وہاں پر ہی مسجد میں گزارا۔ان کے ایک ڈرائیور صاحب نے بتایا کہ منور صاحب جب کراچی جاتے تو صبح کی نماز مخلتف مساجد میں ادا کرتے کہ جہاں قرات اچھی ہو۔ان کی اپنی آواز بھی ماشاءاللہ خوبصورت اور منفرد تھی۔اور سننے والوں کو مسرور کرتی تھی۔لیکن میں نے دیکھا کہ جماعت کرانے کے لیے کبھی آگے نہیں ہوتے تھے۔ہمیشہ کتراتے رہتے اور جو کوئی ساتھ ہوتا اس کو آگے کر دیتے۔کئی دفعہ سفر میں مجھے یہ سعادت حاصل ہوئی کہ مجھے انھوں نے امامت کے لیے آگے کر دیا۔
وضع داری ، احترام اور بڑوں کا احترام کمال درجے پر تھا۔ایک دفعہ ہم اکٹھے پشاور کسی پروگرام کے لیے جا رہے تھے۔اس سے پہلے نوشہرہ محترم قاضی حسین احمد صاحب مرحوم کے ہاں جانا تھا۔دوپہر کا وقت تھا۔راستے میں منور صاحب نے مجھے کہا کہ نماز ظہر کے ساتھ ہی ہم جمع کر کے نماز عصر بھی پڑھ لیں گے۔لیکن جب ہم وہاں پہنچے تو جماعت کھڑی ہونے سے پہلے مجھے زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ یہاں دیو بند حضرات ہیں اور یہ جمع بین الصلاتین کو پسند نہیں کرتے۔لہذا ہم عصر کی نماز پشاور چل کہ پڑھ لیں گے۔یہ احترام اور رواداری اور محبت تھی۔منور صاحب نے مجھے ایک دفعہ مولانا سرور صاحب کے بارے میں کہا کہ وہ بہت پہلے سے وقت لیتے ہیں اور پھر تیاری کے ساتھ بھرپور پروگرام کرتے ہیں۔
مجلس ہو یا خلوت، ایک ہی موقف اور بیان ہوتا تھا۔فی زمانہ اگر کسی بیان دیتا ہے تو سمجھ لیں کہ اس کا موقف اس کے برعکس ہے۔میر ظفراللہ خان جمالی ایک دن فلور آف دی ہاوس پر کھڑے ہو کر بیان کر رہے تھے کہ میں کہیں نہیں جا رہا اور اگلے دن پریس کانفرنس کر کے استعفی کا اعلان کر رہے تھے۔امریکی مداخلت پر ان کا موقف بڑا واضح اوردوٹوک ا تھا۔جب بڑے بڑے جغادری خاموش ہو گئے تھے تب بھی سید کا نعرہ مستانہ جاری رہا۔معصوم اور بے گناہ لوگوں کی شہادت پر اتنے واضح اور کھلا موقف اختیار کرنا اور وہ بھی علی کااعلان بڑے دل گردے کا کام ہے۔پرویز مشرف کے کردار اور سیاست میں مداخلت پر بھی ان کی سوچ واضح تھی۔
ایک دفعہ اسلام آباد میں بہت بڑی ریلی سے خطاب پر جانے سے پہلے ایک جماعتی بزرگ نے مجھے کہا کہ آپ منور صاحب سے کہیں کہ جلسوں میں فوج کے خلاف بات نہ کریں۔ایسا اس لیے کہا کہ میں عمر میں کم تھا اس لیے منور صاحب شفقت سے میری بات سن لیتے۔بہر حال میں نے مدعا سید صاحب کو بیان کر دیا۔فرمانے لگے کہ آپ کی بات ٹھیک ہے اور میں اتفاق کرتا ہوں لیکن مجھے خود پر اختیار ہی نہیں رہتا ۔ہو سکتا ہے کہ میں بات ہی یہاں سے شروع کروں ۔
یعنی جو بات دل اور دماغ میں ہے وہی زبان پر بھی ، ایسا نہیں کہ دل میں کچھ اور زبان پر کچھ،
میں زہر ہلا ہل کو کبھی کہ نہ سکا قند
تمام تر طوفانوں کے باوجود اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے۔
یادوں کی ایک بارات ہے۔بقول فیض
یاودوں سے معطر آتی ہے۔
اشکوں سے منور جاتی ہے
اایسا لگتا ہے کہ منور صاحب سامنے کھڑے ہیں۔حرف حرف موتیوں میں روکنے والا، گفتگو کرتے تو دل کرتا کہ بولتے پی رہیں۔جیو نیوز کے میرے دوست اور بھائی آصف بشیر کہتے تھے کہ سیاسی لیڈرز جب پریس کانفرنس کرتے ہیں تو پہلے کوئی خبر پیدا کر کے پھر بیان کرتے ہیں۔اور اکثر ان کے بیان سے ٹکر بنانا مشکل ہوتا ہے۔لیکن منور صاحب کا ہر جملہ ایک ٹکر ہوتا ہے۔اور یہ واحد لیڈر ہیں جن کے ساتھ بیٹھ کر ہمیشہ بہت کچھ سیکھ کہ جاتا ہوں اور ان کی تقریر نہ صرف ہر بات کو واضح کر دیتی ہے بلکہ رہنمائی کا سامان بھی لیے ہوتی ہے۔
پرویز مشرف کے زیر سایہ حکومت نے ابتداء میں بڑے بڑے منصوبے اور نکات بیان کیے تھے۔
منور صاحب صحافیوں سے کہتے تھے کہ اس پر بھی تو لکھا کریں۔اور کچھ نہیں تو پہلے صفحے پر ہر روز ان کے منشور کا ایک ایک جملہ ہی لکھ دیا کریں۔
اکثر لوگ اجتماعات میں سوال کرتے ہوئے کہتے تھے کہ لوگ یہ کہتے ہیں۔۔۔۔۔منور صاحب پوچھتے کہ یہ لوگ کہتے ہیں یا آپ کہتے ہیں۔سوال کرنے والا کہتا کہ لوگ کہتے ہیں۔تب منور صاحب کہتے کہ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ جماعت امریکی ایجنٹ ہیں ۔لیکن آپ نے مجھ سے یہ سوال کبھی آ کر نہیں پوچھا کیوں کہ آپ اس بات کو نہیں مانتے اور اعتراض کرنے والے کو خود جواب دے دیتے ہیں۔اور جو سوال آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں اس پر آپ خود بھی مطمئن نہیں ہیں۔جب سوال کرنے والا پریشان ہونے لگتا تو ایک مہربان قائد سامنے آ جاتا۔بڑی شفقت سے کہتے ارے بھائی آپ پریشان نہ ہوں آپ مجھ سے نہیں پوچھیں گے تو کس سے پوچھیں گے۔آپ کا حق ہے ۔میں آپ کو بتاتا ہوں اور پھر تفصیل سے جواب دیتے۔
وضع داری کی بات ہو رہی تھی تو یاد آیا کہ کہ پروفیسر غفور صاحب منصورہ آئے ہوئے تھے۔جب منور صاحب امیر بنے تب کی بات ہے۔میں منور صاحب کے ساتھ مہمان خانے کی طرف جا رہا تھا تو آگے سے پروفیسر صاحب آ گئے۔منور صاحب بڑے احترام سے ان سے ملے۔پروفیسر کہنے لگے کہ آپ کے امیر بننے پر مختلف چینلز اور اخبارات نے آپ کے بارے میں بڑا اچھا لکھا۔اور اچھی رپورٹس بھی دیں۔
منور صاحب نے حال احوال دریافت کیا اور پھر فرمایا کہ چوہدری شجاعت حسین آپ کی بہت عزت کرتے ہیں ۔اور ان کی والدہ فوت ہوئی ہیں۔آپ گجرات جا کر ان کی تعزیت کر آئیں ۔اور پروفیسر صاحب اگلے دن گجرات گئے اور چوہدری صاحب سے تعزیت کی۔
وقت کے بہت پابند تھے۔اور بے شک ہال یا جلسہ گاہ ابھی خالی ہو، جو وقت دیتے اس پر پہنچ جاتے اور جو بھی شیڈول دیا جاتا اس کی پابندی کرتے۔اکثر میزبان موقع سے فائدہ اٹھا کر دیگر چیزیں شامل کرتے لیکن وہ اپنے شیڈول سے نہیں ہٹتے تھے۔2006 میں جب ہماری رہائش صدر راولپنڈی میں تھی تو میں نے بازار میں ایک بڑی سیرت کانفرنس رکھی ۔ چند باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں ایک تو وہی نماز والی بات ،پروگرام مغرب کے بعد تھا ۔عشاء کی نماز کا وقت ہو گیا تو منور صاحب نے کہا کہ میں پہلے نماز پڑھ کے آوں چاہتا ہوں ۔تب میں نے گزارش کی کہ ساتھ والی مسجد کے امام صاحب یہیں موجود ہیں اور جماعت پروگرام کے اختتام پر ہو گی۔تب سکون کا سانس لیا۔
دوسری بات یہ کہ جب وہ پروگرام میں پہنچے تو معروف قاری اور نعت خواں قاری اعظم نورانی تلاوت کر رہے تھے۔تلاوت لمبی تھی۔کچھ دوستوں کے اصرار کے باوجود وہ آگے نہیں آئے اور پوری تلاوت جلسہ گاہ کے پیچھے کھڑے ہو کر سنی۔ایسا میں نے خود بھی کم ہی دیکھا کہ مہمان خصوصی آئے اور کھڑا رہے۔لیکن منور صاحب قرآن کے احترام میں کھڑے رہے۔
پروگرام کے بعد میں نے بغیر شیڈول کے گزارش کہ کہ یہاں بزرگ رکن جماعت چوہدری محمد علی صاحب بیمار ہیں اگر ان کی عیادت ہو جائے۔محمد علی صاحب بھی غریق رحمت ہوئے۔ملٹری اکاونٹس سے آفیسر ریٹائر تھے ۔قرون اولی کی یادگاروں میں سے ایک۔
منور صاحب کا اس کے بعد بھی پروگرام تھا۔بات شیڈول کی آ گئی۔میں نے کہا کہ پانچ منٹ لگیں گے۔بہر حال ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔اور جیسا کہ ہوتا ہے۔میزبان کی خواہش ہوتی کہ اتنا بڑا مہمان آیا ہے تو اس کی خاطر مدارت میں کمی نہ ہو۔اور وہاں بھی ایسا ہی ہوا۔
جب وہاں سے نکلے تو پیار سے کہنے لگے کہ یہ ان کا حق تھا ہم پر ، لیکن دنیا کا کوئی کام پانچ منٹ میں نہیں ہوتا۔اور پھر جس کی دل جوئی کے لیے جائیں اگر آپ کچھ کھا پی کے نہیں آتے تو اس کا دل خراب ہوتا ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کو کوئی میچ ہو تو اس کی بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ویسے خود ہاکی کے لیے اچھے کھلاڑی تھے۔کہنے لگے کہ عمران خان نے ایک دفعہ مجھے کہا کہ آپ اتنے اچھے کھلاڑی تو پھر ہاکی کیوں نہیں کھیلی ۔تو کہتے ہیں کہ میں نے جواب دیا کہ آپ جہاں کرکٹ کھیل کے آ گئے وہاں میں پہلے آ گیا۔اور عمران خان نے ایک قہقہ لگایا۔
ایک دفعہ پاکستان اور بھارت کا میچ تھا۔اور ہم اسلام آباد سے مظفر آباد کے سفر پر تھے وہاں سے ہم نے باغ جانا تھا۔میچ شاید شام کا تھا۔مجھے کہنے لگے کہ اب یہ آپ کا امتحان ہے کہ میچ کیسے دکھاتے ہیں۔میں نے بہرحال بندوبست کر لیا کہ ہم رات کو مظفر آباد ٹھیریں گے اور صبح باغ چلے جائیں گے۔جب پروگرام منور صاحب کو بتایا۔تو انھوں نے تفصیل پوچھی۔اب اس میں یہ تھا کہ اگر ہم رات کو وہاں ٹھہرتے تو صبح باغ کا پروگرام متاثر ہوتا۔لہذا میچ میں دلچسپی کے باوجود رات کو مظفر آباد نہیں ٹھہرے۔رات کو سفر کیا اور راستے میں ریڈیو پر کمنٹری سن لی۔
باغ میں ایک فاریسٹ ریسٹ ہاوس میں ٹھہرے ۔اگلے دن ریسٹ ہاوس سے جلسہ گاہ تک عبدالرشید ترابی صاحب نے ایک بڑے جلوس کا اہتمام کیا تھا۔باغ شہر میں کانفرنس تھی۔عوام کا جم غفیر تھا۔دوسری جماعتوں کے زعماء بھی تھے۔ہم صبح نو یا دس بجے نکلے تھے اور ۔کشمیری لیڈرز تقریریں بہت لمبی کرتے ہیں 3 بج گئے ، منور صاحب کی باری نہ آئے۔تب میں نے عثمان انور بھا ئی جو اسٹیج سیکرٹری تھے ان سے گزارش کی کہ مختصر کریں ۔انھوں نے جواب دیا جس پر میں مزید پریشان ہو گیا ۔کہ اب تین مقرر رہ گئے ہیں وہ پندرہ پندرہ منٹ لگا ئیں گے۔میں نے کہا کہ اگر آپ پندرہ منٹ کہ رہے ہیں تو وہ خود اس خو تیس کر لیں گے۔
بہر حال عصر تک منور صاحب کی باری آئی۔ازراہ تفنن فرما یا کہ مجھے مہمان خصوصی کہا گیا ہے تو جتنا وقت باقی سب نے لگا یا اس کے برابر میرا بھی حق ہے۔تھکے ہارے مجمعے کو چارج کر دیا۔لوگوں نے یکسوئی سے بات سنی۔
بعد میں جب ہم گاڑی میں روانہ ہوئے تو میں نے کہا کہ بہت تھکاوٹ ہو گئی تھی لیکن پھر بھی آپ نے بھرپور خطاب کیا۔کہنے لگے کہ تقریر مجمع سے ہوتی ہے۔تب میں نہیں انھیں علامہ طالب جوہری کی بات سنائی کہ تقریر مقرر نہیں کرتا بلکہ مجمع کرواتا ہے۔منور صاحب نے سن کے فرمایا کہ با الکل درست بات ہے۔مقرر وہی ہے جو مجمعے کو ساتھ لے کر چلے۔
مولانا فضل الرحمن صاحب کی فصاحت و بلاغت اور منطق کو کون نہیں مانتا۔ان کے دلائل پر سب خاموش ہو جاتے۔مولنا کو قائل کرنا خوب آتا ہے۔لیکن منور صاحب سے وہ بھی کتراتے تھے۔ایم ایم اے کے ایک اجلاس میں جب مولنا فضل الرحمن صاحب ہر بات میں ہم کا صیغہ استعمال کر رہے تھے تب منور صاحب نے کہا کہ جب آپ اے پی ڈی ایم کے اجلاس میں کہتے ہیں کہ ہم مشورہ کریں گے، تب تو سمجھ آتی ہے کہ آپ ایم ایم اے کی بات کرتے ہیں ۔لیکن اب یہاں بھی آپ کہ رہے ہیں کہ ہم مشورہ کریں گے تو اس سے کیا مراد ہے۔
تب مولانا ہلکے سے پریشان ہوئےاور باقی سب زیر لب مسکرائے ۔ منور صاحب ایم ایم اے کی ایک یہ افادیت بیان کرتے تھے کہ اجلاسوں میں نماز کا وقفہ ہوتا ہے۔دوسرے اتحادیوں میں نماز کے وقفے نہیں ہوتے تھے اور ہم عجب امتحان سے دوچار، بیٹھیں تو نماز جاتی ہے اور جائیں تو کیا عجب کہ پیچھے سے اہم فیصلے ہو جاتے۔لیکن ہم نے تو بہت حال نماز کو ترجیح دینی تھی۔
منور صاحب کسی اور دنیا کے آدمی تھے۔شیشے کی طرح صاف اور شفاف ،
رفتید ولے نہ از دل ما
اگر چہ وہ چلے گئے لیکن انھوں نے اپنی محنت اور جدو جہد سے علم و عمل کی جو شمع روشن کی، تشنگان علم اس سے قیامت تک روشنی حاصل کرتے رہیں گے۔