سیاسی پرندے

سیاسی منڈیر پر بیٹھا کالا کوا خبردار کر رہا ہے کہ اگلے چھ ماہ کے گرد سرخ دائرہ لگا ہوا ہے۔ سیاست کو سرخ دائرے کے حصار سے نکلنے کے لئے عقابی برق رفتاری سے کام کرنا ہوگا۔ اب صرف ترجمان طوطوں سے کام نہیں چلے گا۔ حکومت کو ڈیلیوری دکھانا ہوگی، گورننس کو نتائج دینا ہوں گے، معیشت میں بہتری لانا ہوگی۔

کالے کوے کی کائیں کائیں کو غور سے سنا تو وہ کہہ رہا تھا یہ چھ مہینے آزمائش کے ہیں۔ جولائی تا دسمبر ویسے بھی خطرناک ہوتے ہیں۔ ماضی کی بیشتر حکومتیں اسی موسم میں رخصت ہوئیں۔ اس وقت اُمید کی کوئل کہیں دور گھنے جنگلوں میں جا بیٹھی ہے۔ بلبل کی خوش نوائی بھی کہیں سننے میں نہیں آ رہی، کوئوں اور چیلوں کی بہتات ہے، فاختائیں کہیں چھپی بیٹھی ہیں۔

حبس کے اس موسم میں بارش برسنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سیاسی حبس اور گرمی کا توڑ اس دفعہ مرکز سے نہیں صوبوں سے شروع ہوگا۔ صوبہ پنجاب میں ہما عثمان بزدار کے سر پر ایسے ڈیرے جمائے بیٹھا تھا کہ کیا شکرے اور کیا فاختائیں سب ہما کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام ہو چکے تھے مگر ایسا لگتا ہے کہ شاہین بالآخر ہما کو کسی اور سر پر بٹھانے کے لئے آمادہ ہو گیا ہے۔

نیلی گردن اور سنہری پروں کا لباس پہنے مور، رنگ برنگے پروں والا ایرانی سیمرغ، گولڈن فیزنٹ یعنی مرغ سنہری اور سرخ آسٹریلوی طوطا سب جلد ہی لاہور کی طرف اُڑان بھرنے والے ہیں۔ ہر ایک پرندہ خوشنما وزارتِ اعلیٰ کے چار بڑے امیدواروں کے شانے پر جا کر بیٹھے گا تاکہ اُن کی مدد کر سکے۔ ان میں سے ہر ایک ہما کو لبھانے کی کوشش کرے گا دیکھتے ہیں کہ ان میں کون ہما کو اپنے امیدوار کے سر پر بٹھانے میں کامیاب ہو گا۔

نیلی گردن اور سبز سنہرے پروں والا مور عبدالعلیم خان کو پسند کر چکا ہے جبکہ ایرانی سیمرغ محسن لغاری کا گرویدہ ہے، مرغ سنہری ہاشم جواں بخت کی طرف کھنچا چلا جا رہا ہے جبکہ آسٹریلوی طوطا میاں اسلم اقبال سے متاثر ہے۔ چاروں مرغانِ خوش نما کے امیدواروں کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی کی سربراہی کرنے والے عقاب چوہدری کو غچہ دینا کافی مشکل ہوگا۔ عقاب کافی عرصے سے پنجاب کو چلانا چاہتا ہے۔

اسے اس کام کا تجربہ بھی ہے مگر شاہین، عقاب چوہدری کو موقع نہیں دے گا اسی لئے توقع کی جا رہی ہے کہ درمیانی راستہ نکالا جائے گا اور تحریک انصاف کے اندر ہی سے بزدار کا متبادل لایا جائے گا۔ علیم خان آج کل آئے دن شاہین خان سے ملاقاتیں کرنے اسلام آباد جاتا ہے۔

علیم خان کی خوبی کامیاب بزنس مین ہونا اور پی ٹی آئی کو آرگنائز کرنے میں اہم کردار ہونا ہے مگر منفی پوائنٹ نیب کا مقدمہ ہے، ٹاپ آف دی لسٹ پر مور کا پسندیدہ امیدوار علیم خان ہی ہے۔ علیم خان، بزدار سے بالکل مختلف ہے وہ شکرا ہے کچھ نہ کچھ کر کے دکھائے گا۔

مرغ سنہری ہاشم جواں بخت کے شانے پر سوار ہے۔ ہاشم باہر کا پڑھا لکھا اور انٹلیکچوئیل باپ مخدوم رکن الدین کا بیٹا اور مخدوم خسرو بختیار کا چھوٹا بھائی ہے۔ شوگر اسکینڈل سامنے نہ آیا ہوتا تو مرغ سنہری لازماً ہما کو مخدوم ہاشم کے لئے آمادہ کر لیتا مگر اسکینڈل کے ماحول میں ہاشم کو زمام دے کر بہت سے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہت سی صحافتی چڑیاں اور چڑے روز تنقیدی طور پر چہچہائیں گے۔ شاہین نہیں چاہے گا کہ پرندوں کے غول کے غول اس پر پل پڑیں۔

ایرانی سیمرغ بھی ہما ہی کی طرح کاپرندہ ہے، یہ دیو مالائی پرندہ بھی اقتدار و اختیار کی علامت ہے۔ محسن لغاری کمال کا مقرر، اعداد و شمار کا ماہر اور مٹا ہوا آدمی ہے۔ خیال یہ ہے کہ عقاب چوہدری اور بزدار دونوں اسلم اقبال اور علیم خان کی مخالفت کریں گے اس لئے مصالحتی امیدوار کے طور پر محسن لغاری کی لاٹری نکل سکتی ہے۔

آسٹریلوی سرخ طوطے کے ممدوح میاں اسلم اقبال کا تعلق لاہور کے بااثر ارائیں گھرانے سے ہے۔ میاں اسلم اقبال آزاد حیثیت میں لاہور جیسے سیاسی شہر سے منتخب ہو کر اپنی مقبولیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔

کالا کوا تبدیلی کی جو کائیں کائیں کر رہا ہے اس میں ابھی طے نہیں ہوا کہ ہما پھر جنوبی پنجاب والے امیدوار کے سر پر ہی بیٹھے گا یا پھر شریفوں کو لاہور میں ٹف ٹائم دینے کے لئے لاہور سے اسلم اقبال یا علیم خان کو چنا جائے گا یہ بنیادی فیصلہ ہما کی اگلی نشست کے لئے اہم ہوگا۔ علیم خان اور محسن لغاری بڑے امیدوار ہیں دیکھنا یہ ہے کہ تبدیلی کا گجر بجنے کے بعد کیا ہوتا ہے؟

ہو سکتا ہے کہ فی الحال ہما کی نشست بدلنے کی بات پنجاب میں توتا مینا کی کہانی سمجھی جائے مگر یہ دراصل ابابیلوں کے کنکریاں پھینکے جانے والے سچ کے مترادف لگتی ہے۔ ہدہدوں نے پنجاب کے مرکز اقتدار کے درخت میں جب سوراخ کرنے شروع کرنے ہیں تو تب سب کو نظر آ جائے گا کہ کیا ہونے والا ہے؟

ہما کی تبدیلی کا اشارہ ملتا ہے تو سب تیتر اور بٹیر اڑنے شروع ہو جاتے ہیں۔ فصلی بٹیرے ہمیشہ اگلے آنے والے کا ساتھ دیتے ہیں کوئی کوئی نیل کنٹھ ایسا ہوتا ہے جو الگ بیٹھا رہتا ہے۔ سب سے جدا اور سب سے مختلف۔ جیسے چوہدری نثار علی جو رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہونے کے باوجود حلف نہیں اٹھا رہے۔ ایوان میں نہیں جاتے وہ کیا چاہتے ہیں یہ کسی کو علم نہیں لیکن شاید طاقتوروں کو اپنی ناراضی دکھانا چاہتے ہیں۔

ہمارے ملک کا سب سے قیمتی پرندہ تلور ہے اس کی بھی سیاسی اہمیت ہے ہم برادر عربوں کو اس کے شکار کا لائسنس دے کر خوش کرتے ہیں ایک وقت تھا کہ تھل اور دوسرے ریگستانوں میں بہت سے تلور ملتے تھے اب آہستہ آہستہ ناپید ہوتے جا رہے ہیں جو پرندہ بڑھ رہا ہے وہ لالی ہے جبکہ طوطے اور بلبلیں اپنی خوبصورت آوازوں کے باوجود کم ہو گئے ہیں یا شاید وہ شکار کا نشانہ زیادہ بنتے ہیں۔

ہمارے تلور، پاکستانی اپوزیشن کے سیاستدان ہیں جن کا شکار کرنا ہم سب پسند کرتے ہیں کوئی طاقتور ہو کر کمزور تلور کا شکار کر کے اپنے سینے پر تمغہ سجانا چاہتا ہے یوں لگتا ہے کہ تلوروں کا ہم صفایا کر کے چھوڑیں گے تلور کم ہو گئے مگر لالیاں بڑھ گئی ہیں۔ کوے اور چڑیوں کے ساتھ ساتھ ہر جگہ پیلی ٹانگوں اور چونچ والا یہ بھورا پرندہ بہت ہی مطلب پرست اور زمانہ ساز ہے۔یہ صاف اور گندی ہر جگہ پر چونچ مارتا ہے۔

اسی لئے یہ گملے میں پیدا ہونے والے پودوں کی طرح نہ تو آج تک شکاریوں کی نظر میں کھٹکتا ہے اور نہ ہی کوئوں یا چڑیوں کی طرح انہیں پکڑنے کی مہم چلی ہے۔ یہ لالیوں کا دور ہے وہی زمانے کے سرد و گرم سے نکلنے کا فن جانتی ہیں۔ شکرے، فاختائیں، کبوتر، تیتر، بٹیر سب فکر میں ہیں کہ بچیں کیسے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے