جنرل ضیاء کو کوسنا اب بند ہونا چاہیے

کیا جنرل ضیاء الحق کے بعد پاکستان میں سلسلہ حکمرانی ختم ہوگیا تھا؟ ان کے بعد کوئی شاہسوارِ اقتدار قومی منظر پہ نہ آیا؟ جنرل ضیاء کو گئے اب بتیس سال ہوچکے ہیں‘ اتنے میں تو اچھے معاشرے بگڑ جاتے ہیں اور بگڑے معاشرے سدھر سکتے ہیں۔ اُن کے بعد پاکستان کی آبادی دوگنی سے بھی زیادہ ہو چکی ہے لیکن ہم ہیں کہ اب بھی ہر موجودہ کمزوری اُس گزرے ہوئے دور کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔

مانا کہ 5جولائی 1977ء ملکی تاریخ میں سیاہ دن تھا‘ لیکن جنرل ضیاء دور کے اثرات جو پاکستانی معاشرے پہ پڑے وہ بعد کے ادوار میں مٹائے نہیں جا سکتے تھے؟ اگر جنرل موصوف ملک کو ماضی کے اندھیروں میں لے گئے تو آنے والی نسلیں روشنی کی طرف نہیں جاسکتی تھیں؟ جنرل ضیاء آخر کون سے نشان چھوڑ گئے جنہیں مٹانا ناممکن تھا؟ انہوں نے یہ اہتمام کیا کہ اُن کی قانون سازی کو آئینی تحفظ فراہم ہو۔ یہ تحفظ آئین کی آٹھویں ترمیم نے دیا‘ لیکن یہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو بدلی نہ جاسکتی ہو۔

یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ میاں نوازشریف اوراُن کی مسلم لیگ جنرل ضیاء کے سیاسی جانشین تھے اور ان کی سوچ جنرل ضیاء کی سوچ سے ملتی تھی۔ یہ بھی مانا جاسکتا ہے کہ پی پی پی کی مختلف حکومتیں کبھی اس طاقتور سیاسی پوزیشن میں نہ تھیں کہ جنرل ضیاء کے ورثے کو مٹا سکتیں‘ لیکن جنرل پرویزمشرف پہ یہ عذر لاگو نہیں ہوسکتا۔ اُن کی سوچ جنرل ضیاء کی سوچ سے بالکل مختلف تھی۔ وہ چاہتے تو ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھ سکتے تھے۔ انہوں نے ایسا اگر نہیں کیا تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان میں ہمت کی کمی تھی یا سوچ کی۔

پھر اگر جنرل ضیاء کے افکار اور قوانین اب بھی قوم پہ مسلط ہیں تو قصور کس کا بنتا ہے؟ جنرل ضیاء کے ورثے کے محافظین تو اب رہے نہیں۔ جس ادارے سے جنرل ضیاء کا تعلق تھا وہاں بھی خیالات اور سوچوں میں خاصی تبدیلی آچکی ہے۔ ابتداًاُس کی اجتماعی سوچ کے مطابق ملک کی نظریاتی بنیادوں کو خطرہ پیپلز پارٹی سے تھا۔ خاصا بڑا طبقہ مقتدر اداروں میں سمجھتا تھا کہ پیپلز پارٹی ملک دشمن جماعت ہے۔ اس سوچ میں اب تبدیلی آچکی ہے۔ وہ نفرت جو پیپلز پارٹی کی طرف تھی وہ نواز لیگ کی طرف منتقل ہوچکی ہے۔ یعنی قومی زندگی میں وہ پیمانے نہیں رہے جو ایک وقت میں اثر رکھتے تھے‘ لیکن معاشرے نے درست کیا ہونا تھا اُس کی حالت ضیاء دور سے بھی بدتر ہو گئی ہے۔ اس صورتحال میں تبدیلی کیوں نہیں آ رہی؟ مجموعی طور پہ معاشرے کی ذہنیت اب بھی اتنی فرسودہ کیوں ہے؟ کیا اس کی ذمہ داری بھی جنرل ضیاء الحق کے کندھوں پہ ڈالتے رہیں گے؟ اور پچاس سال بعد بھی یہ کہیں گے کہ 5 جولائی 1977ء بہت سیاہ دن تھا؟

جو بھی جنرل ضیاء کے مخصوص نظریات تھے وہ ایک مضبوط حاکم تھے۔ حکمرانی کا گُر جانتے تھے۔ ہم اُن کے نظریات سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اُن کی معاملہ فہمی اور حکمرانی کے حوالے سے چالاکی کے بارے میں اختلاف کرنا مشکل ہے۔ وہ بیٹھے اور چلتے تسبیح نہیں پھیرتے تھے۔ اور اُن کے ناقدین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مشکل ترین حالات میں اپنے اعصاب پہ قابو رکھنے کا اُنہیں ہنر تھا۔ قومی سوچ پہ ان کی چھاپ گہری تھی لیکن اتنا وقت گزر چکا ہے کہ اُس چھاپ کو مٹایا جا سکتا تھا۔ ہم نے ایسا نہیں کیا اور پاکستانی قوم کے لیڈران ایسا کرنے سے قاصر رہے‘ تو تاریخ کے کٹہرے میں مجرم کون ٹھہرتا ہے؟ وہ جسے گئے ہوئے اتنا عرصہ گزر چکا ہے یا وہ جو بعد میں آئے اور اپنی جیبیں تو بھرتے رہے لیکن قومی سمت کی درستی کے بارے میں کچھ نئی سوچ پیدا نہ کر سکے؟ آئین پاکستان کے اوپر اگر جنرل ضیاء کی آٹھویں ترمیم اتنا بوجھ ہے تو اسے تبدیل کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ ہم نے دیکھا کہ توسیع کے مسئلے پہ جو بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا کس باکمال پھرتی سے تمام پارٹیاں اسے منظورکرنے میں جُت گئیں۔ یہ اس لئے ہوا کہ قومی ادارے چاہتے تھے کہ ایسا قانون پاس ہو۔ ایسا ارادہ سامنے آیا تو تمام سیاسی پارٹیاں حب الوطنی کے عظیم تر تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس قانون کے گرد جمع ہو گئیں۔ لہٰذا تبدیلی لانے کی کلیدی شرط کیا ہے؟ یہ کہ مقتدر ادارے ارادہ رکھتے ہوں اور جب اُن کا ارادہ واضح ہو جائے تو سیاسی پارٹیاں حب الوطنی کے عَلم لہرانے میں دیر نہیں کرتیں۔

اس سے یہ بھی اخذ ہوا کہ اگر جنرل ضیاء کا ورثہ بغیر محافظین کے بھی قائم ودائم ہے تو وہ اس لئے کہ غالباً اُسے ختم کرنے کا ارادہ مقتدر ذہنوں میں ابھی پیدا نہیں ہوا۔ سیاسی پارٹیوں کو تو ایسے مسائل سے کوئی واسطہ نہیں۔ ان کی ترجیحات اور ہیں اور ان ترجیحات کے تابع اورکاموں میں ہمہ تن مصروف رہتی ہیں۔ کیا یہ مبالغہ ہے کہ نواز لیگ کی قیادت کی اولین سوچ مال بنانا ہے؟ یہی حال پیپلز پارٹی کی قیادت کا ہے۔ انہیں کیا سروکار اس سے کہ فلاں کا ورثہ کیا اثرات ملک پہ چھوڑ گیا اوران منفی اثرات کے بارے میں کیا کرنا چاہیے۔ جہاں تک انصاف والوں کا تعلق ہے دیکھا جائے تواُ ن کی نظریاتی سوچ جنرل ضیاء الحق سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ کچھ کرسکتے تھے تو جنرل مشرف۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑے گا کہ اُن جنرل صاحب کی سوچ خاصی محدود تھی۔ اُن کے پرجوش حامی بھی شاید تسلیم کرنے میں عار محسوس نہ کریں کہ تاریخ کا زیادہ ادراک وہ نہ رکھتے تھے۔

مسئلہ جنرل ضیاء کی سوچ کاہے کیا؟ اس سوچ کے تابع پاکستان کا تعلیمی نظام تباہ ہو کے رہ گیا ہے۔ تعلیم کے نصاب میں وہ مضامین لائے گئے جن کی جگہ کسی ریشنل (Rational) تعلیمی نظام میں ہونی نہیں چاہیے۔ جو تاریخ پاکستان کے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہے اس سے صرف بند ذہن پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ پاکستانی ذہنیت میں وسعت آنی چاہیے۔ وہ کہاں سے آئے گی جب پہلی جماعت سے لے کر آخری تک عجیب قسم کے افکار ذہنوں میں ڈالے جاتے ہیں۔

سماجی قدامت پرستی کو پاکستانی تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے ہاں حالات نارمل نظر نہیں آتے۔ اتنی قدغنیں ہم نے اپنے اوپر ڈالی ہوئی ہیںکہ سماجی آزادیوں کا دائرہ محدود ہوتا چلاگیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ معاشرے میں بے راہروی کا عالم پیدا کیا جائے۔ اپنے اعتقاد کے حوالے سے ہم ایک کنزرویٹیو (conservative) معاشرہ ہیں اورتمام جدتوں کے باوجود ایسے ہی رہیں گے۔ یہ اچھی بات ہے۔ ہماری سماجی اقدار وہ نہیں ہو سکتیں، نہ ہونی چاہئیں جو مغربی معاشروں میں پائی جاتی ہیں۔ لیکن بے راہروی کے دروازے بند کرتے ہوئے بھی ذہنوں کو وسعت مل سکتی ہے۔ سماج کے رویے فرسودہ پن سے پاک ہوسکتے ہیں۔ ایک بیلنس رکھنے کی ضرورت ہے۔

قائد اعظم کا پاکستان بھی مسلمان معاشرہ تھا۔ سوال صرف یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس بخار میں مبتلا ہوگئے کہ ہمیں قائداعظم کا پاکستان اچھا نہ لگا اورہم اس کا چہر ہ مسخ کرنے میں مصروف ہوگئے۔ قائداعظم نے کیا یہ کہاتھا کہ ہم اپنی مسلمانیت چھوڑ دیں؟ انہوں نے صرف یہ تلقین کی تھی کہ مذہب اپنا اپنا ہوتاہے اورنئی ریاست کے شہریوں میں کوئی تفریق مذہب یا ذات پات کی بنیاد پہ نہیں ہونی چاہیے۔ یہ کون سامشکل سبق تھا جو ہماری سمجھ میں نہ آیا؟ آزادی کے بعد اپنی مختصر زندگی میں انہوں نے زور دیاکہ قوم ترقی یافتہ ملکوں کی صفوں میں جلد ازجلد اپنی جگہ بنالے۔ انہوں نے بارہا کہاکہ ہر شعبے میں پاکستان کی حیثیت نمایاں ہونی چاہیے اور تقسیم ہند کی خونریزی کے باوجود وہ پاکستان اوربھارت کے مابین اچھے تعلقات کے خواہشمند تھے۔

مسئلہ قائداعظم کے پاکستان کی طرف واپس لوٹنے کا ہے۔ اس کیلئے ارادہ اورعقل چاہیے‘ لیکن مسئلہ قوم کو درپیش یہ بھی ہے کہ سمندر کی کن گہرائیوں سے یہ خوبیاں ڈھونڈ کے لائی جائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے