ہم کیا کھا رہے ہیں؟

کبھی ہم نے سوچا،ہم کیا کھا رہے ہیں ؟ جنک فوڈ کا آزار تو چھوڑ ہی دیجیے، کبھی غور کیجیے کہ سبزیوں، پھلوں اور اجناس کے نام پر کیا کچھ ہمیں کھلایا جا رہا ہے؟

پھل اور سبزیاں کہنے کو تو موجود ہیں اور برائلر مرغیوں کی طرح صحت مند ہوتے جا رہے ہیں لیکن ان کا ذائقہ ان سے روٹھ چکا ہے۔ دیسی بیج ہم نے برباد کر دیے اب احساس ہی نہیں رہا کہ کیا کچھ گنوا کے بیٹھے ہیں ۔ چک شہزاد میں اب بھی کچھ فارمز بچ رہے ہیں جہاں سبزیاں وغیرہ کاشت کی جاتی ہیں اور سیوریج کی بجائے تازہ پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ وہاں سے جا کر سبزی لاتا ہوں لیکن ذائقہ نہیں ہے۔ ذائقہ تو ان سبزیوں میں تھا جو بچپن میں گاؤں میں کھائی تھیں ۔ اس میں یقینا ماں کے ہاتھ کا ذائقہ بھی شامل تھا لیکن سبزیاں بھی خالص تھیں۔

اب یہ عالم ہے کہ گاجر دیکھیں تو اسے یرقان ہوا ہوتا ہے ۔ عجیب زردی مائل لاغر سی گاجر ہے۔ دیکھنے کو دل نہیں کرتا، کھائے کون ۔ آلو میٹھا ہو چکا ہے، کہنا پڑتا ہے کہ میٹھا آلو نہ دینا ۔ مرچ سومو پہلوان کے سائز کی ہو چکی ہے لیکن کھاؤ تو پتا ہی نہیں چلتا مرچ کھا رہے ہیں یا شلجم ۔ کوئی ذائقہ ہے نہ کڑواہٹ ۔ ادرک اور تھوم پھول کر کپا ہو چکے ہیں ۔ کہیں سے خالص ادرک ملتی ہے نہ دیسی تھو م۔ تیزاب کی ماری برائلر ادرک کے قہوے پی پی کر احباب اپنے تئیں کورونا سے نبٹتے رہے ۔ٹینڈے، کریلے، توری، بھنڈی سٹالوں کے سٹال سجے ہیں لیکن پوچھا جائے ان میں سے خالص دیسی سبزی کون سی ہے تو دکاندار منہ دیکھنے لگ جاتا ہے۔ کچھ جو واقف حال ہیں وہ بتاتے ہیں کہ اس بھرے سٹال کے کونے میں وہ جو چند کدو اور ٹینڈے رکھے ہیں بس وہی دیسی ہیں۔باقی سب کچھ روشن خیال اور جدید ہو چکا ہے۔بظاہر بہت دیدہ زیب ، ظاہر بہت سجا سنورا ، روح سے محروم۔

بلوچستان اور سوات کا سیب کتنا میٹھا ہوتا تھا ۔ بلوچستان میں تو ہماری غفلت نے پانی کا وہ بحران پیدا کیا کہ لوگوں نے ایکڑوں کے ایکڑ سیب کے باغات کاٹ کر پھینک دیے کہ پانی نہیں تو ان کا کیا کریں ۔ کان مہتر زئی جو سیبوں کے لیے مشہور تھا اب اس کی وجہ تعارف ٹمبر بن چکا ہے ۔ سیبوں کے باغات کی لکڑی اب وہاں بہت دستیاب ہے ۔ لے جائیے اور اپنے خوابوں سمیت چولہے میں ڈالیے ۔ قومی سیاست اور صحافت کو ترک تازی کے لیے موضوعات کی کوئی کمی ہے کیا کہ وہ کان مہتر زئی کے المیے پر بات کریں ۔ اب سیب لینے جائیں عجیب رنگت کا سیب ملتا ہے ۔ اوپر سے دکاندار کا لہجہ کانوں میں زہر کھول دیتا ہے: یہ لیجیے صاحب یہ امپورٹڈ ہے، نیوزی لینڈ کا سیب ہے، نیوزی لینڈ کا۔نیوزی لینڈ کا یہ سیب کھاؤ تو معلوم ہوتا ہے ذائقہ نام کی کوئی چیز ہی نہیں ۔ اپنے سیب کے باغات اپنے ہاتھوں اجاڑ کر اب سب خوش ہیں کہ نیوزی لینڈ کے سیب کھا رہے ہیں ۔ حالانکہ نیوزی لینڈ کے ان سیبوں سے زیادہ ذائقہ میرے گاؤں کے ”ڈوکل بیر“ میں ہے۔

کیلا، ایک زمانے میں پاکستان کا اپنا ہوتا تھا ۔ چھوٹا سا کیلا ، چتری والا کیلا ، کھاتے تھے تو منہ میں رس بھر جاتا تھا ۔ اب کم بخت میزائل کے سائز کا کیلا دستیاب ہے۔ وہی احساس کمتری کی ماری رعونت بتاتی ہے لیجیے صاحب یہ کیلا لیجیے، امپورٹڈ ہے، بھارت سے آیا ہے۔ کھاؤ تو معلوم نہین پڑتا میٹھا ہے یا پھیکا ہے۔ بس میزائل کے سائز کا ہے اور ہمارے احساس کمتری کی تسکین کرتا ہے کہ امپورٹڈ ہے۔

آڑو پر پینٹ پھینک کر اسے لال کیا جاتا ہے۔ آلو بکارا اب ایسی منگول نسل کا ہے کہ باہر سے صحت مند جنگجو توانا اورکالا سیاہ ہے اور اندر سے کچا ۔ نہ نگلا جا سکتا ہے نہ اگلا جا سکتا ہے۔ گنے کے نام پر جو عجیب الخلقت لاغر سی چیز تیار کی جا رہی ہے اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اس کے نام گنے کی تہمت کیسے رکھ دی گئی۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن خالص دودھ نہیں ملتا ۔ بھینس والے ٹیکے لگا کر آپ کو دودھ دیا جاتا ہے ۔ کھاد اور جانے کیا کیا کیمیکل دودھ کے نام پر بیچا جا رہا ہے۔ پانچ چھ ماہ کے بعد انتظامیہ متحرک ہوتی ہے اور اخبار میں خبر شائع ہوتی ہے اتنے ہزار لٹر مضر صحت دودھ ضائع کر دیا گیا ۔ اگلے ہی دن سے وہی دودھ پھر فروخت ہو رہا ہوتا ہے۔ ڈبہ بند دودھ والوں نے ڈاکٹرز سے مل کر الگ سے مہم چلا رکھی ہے کہ خالص دودھ تو پینا ہی نہیں چاہیے بھلے وہ ٹیکے سے پاک ہی کیوں نہ ہو۔ کارپوریٹ دنیا کی ہوس ہر چیز کو کھائے جا رہی ہے۔

گاؤں میں کسانوں سے کہہ رکھیں اور ریوڑ لے کر پہاڑوں پر جانے والے آجڑیوں سے سلام دعا رکھیں پھر بھی سال بھر میں چند لٹر شہد مل پاتا ہے ۔ لیکن مارکیٹ ”خالص شہد“ سے بھری پڑی ہے۔ جنہوں نے خالص شہد چکھ رکھا ہو وہ خوب جانتے ہیں مارکیٹ کے اس خالص شہد سے بہتر سے شکر گھول کر پی لی جائے لیکن جنہوں نے نہیں چکھ رکھا وہ یہ شکر شہد کی قیمت پر کھائے جا رہے ہیں ۔اور کسے معلوم یہ شکر ہی ہے یا کسی مضر صحت کیمکل سے یہ تیار ہوتا ہے۔

انڈے اور چاول اب مصنوعی طور پر تیار ہو کر مارکیٹ میں موجود ہیں۔معلوم نہیں کس چیز سے بنے ہیں۔ آٹے کی جگہ میدا ملتا ہے۔ اب آٹا یا تو گاؤں سے لائیے یا پھر میدا اور میدے میں ملے گندل والا آٹا کھا کر معدے کو ذو اضعاف اقل نکلوا لیجیے۔سرخ مرچ کی جگہ بورا ملتا ہے جس پر رنگ ڈال دیا جاتا ہے۔دیسی مصالحے ختم ہو چکے۔ بریانی بنانی ہے یا قورمہ، ہر مصالحہ ریڈی میڈ ہے۔ جلدی سے جائیے، لائیے، پکائیے،کھائیے اور معدے کا ستیا ناس کرائیے۔ چالیس سال کے بعد اپنی جمع پونجی ڈاکٹروں کے قدموں میں رکھ آئیے۔

وبا کے دن ہیں اور ہر چارہ گر مشورہ دیتا ہے: اچھا کھائیے اور خوراک بہتر کیجیے۔ سوال یہ ہے کہ کہاں سے اچھا کھائیں اور کیسے خوراک بہتر کریں ۔ کارپوریٹ کلچر کی ہوس نے اس ملک میں کچھ اچھا باقی رہنے دیا ہے جسے اب کھایا جائے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے