گلگت بلتستان میں تیز رفتار انٹرنیٹ کی فراہمی کی جدوجہد

گلگت بلتستان میں تیز انٹرنیٹ کی فراہمی اس دور جدید میں بھی ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی کم آبادی انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں کےلئے درد سر بنا ہوا ہے۔ کرونا وائرس کے بعد پیدا ہونے والی اچانک صورتحال نے انٹرنیٹ کی مانگ میں پہلے سے کئی گنا زیادہ اضافہ کردیا ہے۔ پہلے اگر اساتذہ بھی دوران کلاس بچوں کو موبائل بالخصوص انٹرنیٹ دیکھتے تو سیخ پا ہوجاتے، اب ان کی بھی مجبوری بنی ہے کہ وہ طلباء کو انٹرنیٹ پر اپنی موجودگی کی تلقین کرتے رہیں۔ چند ایک شعبہ جات کے علاوہ سبھی شعبے ڈیجیٹل دنیا منتقل ہوئے ہیں۔

گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ کا زکر کرتے ہوئے ایس سی او کے کردار کا زکر نہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ گلگت بلتستان میں سب سے پہلے موبائل فون کی فراہمی سے لیکر دور دراز علاقوں تک انٹرنیٹ کی سب سے پہلے فراہمی کا اعزاز بلا شرکت غیرے ایس سی او کو ہی جاتا ہے۔ آج بھی گلگت بلتستان کے کئی دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں میں اگر کوئی موبائل کمپنی کام کررہی ہے تو وہ ایس کام ہے۔ 2020 کے ایس کام اور 2015 کے ایس کام میں بھی نمایاں فرق ہے۔ اس کمپنی نے خود کو اپ گریڈ کرکے بہتر کرنے کی بڑی کوششیں کی ہیں اور چند مقامات پہ ان کے تجربات انتہائی کامیاب بھی ہوئے ہیں۔

گلگت بلتستان کو فورجی نامی انٹرنیٹ سہولت دیکھے ہوئے چند ہی برس گزرے ہیں۔ ایک بڑا عرصہ یہاں پر ایس سی او اور دیگر نجی کمپنیوں کے کشمکش اور الزامات پر گزر گئے، اور معاملہ پاکستان کے عدالتوں تک پہنچ گیا جس پہ متضاد اطلاعات موصول ہوئی، جس میں ایس سی او کے پاس پاس اپنے دفاع کےلئے جواز اور موقف تھا۔ تاہم عوامی سوچ یہی تھی کہ ایس سی او اپنے منافع اور مناپلی کی خاطر دیگر کمپنیوں کو یہاں کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہے لیکن یہ تاثر اس وقت زائل ہوگیا جب ٹیلی نار کمپنی نے اپنے زیر اثر اکثر مقامات پہ فور جی انٹرنیٹ فراہم کرنا شروع کردیا۔

کرونا وائرس کے بعد جب تعلیمی نظام مکمل طور پر انٹرنیٹ پہ منتقل ہوا تو لوگوں کو طرح طرح کے ایپلیکشن اور پروگرامات کا نام سننے کو ملا جن کے ذریعے بیک وقت کئی لوگ ملاقات کرسکتے تھے۔ لیکن ایس سی او کی جانب سے فراہم کردہ انٹرنیٹ کی رفتار اتنی نہیں ہے جس سے مذکورہ ایپلیکیشن کو استعمال کیا جاسکے۔ جی بی کے بالائی علاقوں میں تو لوگ انٹرنیٹ سگنل کی تلاش میں پہاڑوں پر چڑ گئے اور تصاویر بھی وائرل ہوئی۔

خاکی وردی کے زیر اثر چلنے والی ایس سی او کمپنی متعدد مرتبہ اپنی خامی اور کمزوری کا بھی اعتراف کرچکی ہے کہ اگر ہماری خدمات سست رفتار ہیں تو دیگر نجی کمپنیاں یہاں آئیں اور اپنی تیز ترین خدمات عوام کو فراہم کریں ہم نے کسی کو نہیں روکا ہے۔

چونکہ موجودہ وقت میں تیزرفتار انٹرنیٹ کا شمار بھی ڈیجیٹل/ بنیادی حقوق میں ہوتا ہے، اس لئے مواصلات اور دیگر وزارتوں کے زمہ داران اور حکومت کو چاہئے کہ اس علاقے کے مستقبل کو محفوظ رکھیں۔ آن لائن کاروبار، صحافتی معاملات سے لیکر جدید تعلیمی ضرورت سے علاقے کو دور رکھنا، حکومت کے مفاد میں ہے نہ عوام اور علاقے کے۔ حکومت فوری ایکشن لے اور باقاعدہ ٹینڈر کرکے مقابلے کے زریعے تیز ترین انٹرنیٹ فراہم کرنے والوں کو لائسنس جاری کردیں تاکہ لوگ اپنا ڈیجیٹل مستقبل بھی محفوظ کرسکیں۔ ورنہ #internet4gilgitbaltistan کی جو مہم شروع ہوئی ہے وہ حکمرانوں اور حکومت کے چہرے پر دھبہ بن رہا ہے۔ اب تک سینکڑوں سیاح بھی اس علاقے میں انٹرنیٹ کہ فراہمی کےلئے آواز بلند کرچکے ہیں۔ پاکستان کے مختلف شہروں اور بیرون ملک مقیم جی بی کے شہری اپنوں سے بات کرنے کو بھی ترس گئے جس کا اظہار وہ سوشل میڈیا میں احتجاج کے زریعے کررہے ہیں۔ مذکورہ ہیش ٹیگ کے زریعے اب تک ہزاروں ٹویٹ کئے جاچکے ہیں اور کئی دنوں تک یہ ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے