رُسوائی

جس خاندان میں ماں کا احترام نہ کیا جائے اُس خاندان کا مقدر رسوائی بنتی ہے۔ یہ وہ سبق ہے جو ہم سیکھ لیتے تو دنیا میں اتنے رُسوا نہ ہوتے لیکن آج حالت یہ ہے کہ ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ایتھوپیا جیسا ملک بھی پاکستان کے ہوا بازوں پر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔

گزشتہ کالم مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے یومِ وفات پر تھا جس میں عرض کیا تھا کہ اگر جنرل ایوب خان دھاندلی کے ذریعہ محترمہ فاطمہ جناح کو شکست نہ دیتا تو پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا۔ اس کالم پر سوشل میڈیا میں بڑی بحث ہوئی اور بہت سے نوجوان حیران تھے کہ جنرل ایوب خان نے قائداعظم کی بہن کو غدار کیسے قرار دے دیا؟

کچھ صاحبان ایسے بھی تھے جنہوں نے محترمہ فاطمہ جناح پر تنقید شروع کر دی اور لکھا کہ وہ ایوب خان کے مقابلے پر کیوں آئیں، ایوب خان تو پاکستان کو ترقی کے راستے پر لے جا رہا تھا۔ انہی صاحبان کے بارے میں مجھے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ایک اُستاد نے بڑا لمبا چوڑا شکوہ بھیجا اور کہا کہ افسوس سوشل میڈیا پر حکمران جماعت کے حامیوں کی طرف سے مادرِ ملت کی تضحیک کی جا رہی ہے۔

اُنہیں سبق سیکھنا چاہئے کہ مادرِ ملت کو غدار قرار دینے والے ایوب خان کا کیا انجام ہوا تھا۔ اُستادِ محترم نے مجھے قومی ادارہ برائے تحقیق قائداعظم یونیورسٹی کی طرف سے 2003میں شائع کی جانے والی کتاب ’’مادرِ ملت فاطمہ جناح اور پاکستان‘‘ بھجوائی ہے جس میں وہ تحقیقی مقالے شامل ہیں جو مادرِ ملت پر ایک قومی کانفرنس میں پڑھے گئے تھے۔

یہ کانفرنس 2003میں اُس وقت کے وزیراعظم میر ظفراللہ خان جمالی نے منعقد کرائی تھی۔ اس کتاب میں مادرِ ملت کا کشمیر کی تحریک آزادی اور بلوچستان کے ساتھ گہرے تعلق کی تفصیلات بڑی اہم ہیں۔

خاص طور پر بلوچستان میں قائداعظم کا پیغام پھیلانے کے لئے بیگم قاضی محمد عیسیٰ (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی والدہ) نے عورتوں میں جو کام کیا وہ ہمیں نصابی کتب میں نہیں ملتا۔

یہ اُستادِ محترم بڑی حیرانی سے پوچھ رہے تھے کہ تحریک انصاف والوں کو محترمہ فاطمہ جناح سے کیا پرابلم ہے؟ میں نے اُستادِ محترم سے عرض کیا کہ ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کو پتا ہی نہ ہو کہ کون کون عمران خان کی تصویر لگا کر سوشل میڈیا پر کس کس کے بارے میں کیا ہرزہ سرائی کر رہا ہے لیکن تحریک انصاف کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو موجودہ پارلیمانی نظام کے شدید مخالف ہیں۔

محترمہ فاطمہ جناح پارلیمانی نظام کی حامی اور صدارتی نظام کی مخالف تھیں لہٰذا صدارتی نظام کے حامی محترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اُنہوں نے ایوب خان کے مارشل لاء کی حمایت کی تھی لیکن بعد میں صدارتی نظام کی مخالفت شروع کر دی۔

تحریک انصاف والوں کا ایک مسئلہ ان کے وزیر عمر ایوب خان بھی ہیں جو جنرل ایوب خان کے پوتے ہیں۔ پہلے مسلم لیگ (ق) میں تھے پھر مسلم لیگ (ن) میں آئے۔ آج کل تحریک انصاف کے ماتھے کا جھومر ہیں لہٰذا تحریک انصاف کے کچھ حامی عمر ایوب کی محبت میں فاطمہ جناح پر تنقید میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔

قائداعظم یونیورسٹی کے اس اُستاد نے بڑی معصومیت سے پوچھا کہ یہ تحریک انصاف والے صدارتی نظام کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟ میری ہنسی چھوٹ گئی۔ میں نے کہا کہ آپ یہ سوال ڈاکٹر عطاء الرحمان سے پوچھیے گا جو صدارتی نظام کے حق میں قائداعظم کی ایک مبینہ ڈائری کا ایک ورق بھی دریافت کر چکے ہیں جبکہ باقی پوری ڈائری کے بارے میں آج تک کسی کو کچھ معلوم نہیں۔

بہرحال صدارتی نظام کی حمایت کے باعث وہ وزیراعظم کی ٹاسک فورس برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے چیئرمین بن چکے ہیں اور ملنے جلنے والوں کو بتاتے رہتے ہیں کہ بہت جلد پاکستان میں صدارتی نظام نافذ ہو جائے گا۔ یہ سُن کر اُستادِ محترم نے خوفزدہ لہجے میں کہا کہ میرا ذکر کہیں نہ کیجئے گا کہ میں نے آپ کو مادرِ ملت کے بارے میں یہ کتاب دی ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیوں؟

قوم کے اُستاد نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا کہ دراصل اس کتاب میں مادرِ ملت کی وہ تقاریر بھی شامل ہیں جو اُنہوں نے صدارتی نظام کی مخالفت میں کی تھیں۔ اُستادِ محترم کو اپنی نوکری کی فکر پڑ چکی تھی لہٰذا میں نے اُنہیں اطمینان دلایا اور کہا کہ آپ فکر نہ کریں میں آپ کا نام نہیں لوں گا بلکہ آپ پاکستان کی تاریخ میں بھی گمنام رہیں گے۔

آج کل اسلام آباد میں طاقتور حلقوں سے قربت کے دعویداروں کی طرف سے سینہ تان کر موجودہ پارلیمانی نظام کو بُرا بھلا کہا جا رہا ہے اور ایک صاحب نے تو یہ دعویٰ بھی کر دیا ہے کہ بس کچھ مہینوں میں صدارتی نظام آنے والا ہے۔ کیسے آنے والا ہے؟ اس سوال کے جواب میں وہ صرف مسکرا دیتے ہیں۔

مجھے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ مادرِ ملت فاطمہ جناح کی تضحیک صرف جنرل ایوب خان نے نہیں کی تھی۔ یہ سلسلہ 1951میں شروع ہوا جب ریڈیو پاکستان پر ان کی ایک تقریر سنسر کی گئی۔ ریڈیو پاکستان نے قائداعظم کے یومِ وفات پر اُن سے پیغام ریکارڈ کرایا اور کچھ حصے نکالنے کی درخواست کی جب مادرِ ملت نے انکار کر دیا تو ان حصوں کو سنسر کر دیا گیا۔

جہاں تک اُن کی طرف سے ایوب خان کے مارشل لاء کی حمایت کا تعلق ہے تو اُس کا ایک خاص پسِ منظر ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح کو سکندر مرزا اور فیروز خان نون سے یہ شکوہ تھا کہ اُنہوں نے کشمیری رہنمائوں چوہدری غلام عباس اور کے ایچ خورشید کو گرفتار کر لیا تھا۔

کے ایچ خورشید کو وہ اپنے بیٹے کی طرح چاہتی تھیں۔ مادرِ ملت نے کے ایچ خورشید کو اعلیٰ تعلیم کے لئے برطانیہ بھجوایا تھا اور اپنی رہائش گاہ پر اُن کے ولیمے کا اہتمام کیا تھا۔

وہ کشمیری رہنمائوں کی گرفتاری کو قائداعظم کے نظریات سے بےوفائی سمجھتی تھیں لہٰذا جب کے ایچ خورشید کو گرفتار کرنے والی حکومت برطرف ہوئی تو فاطمہ جناح نے اُس کا خیرمقدم کیا لیکن جب پتا چلا کہ ایوب خان نئے انتخابات کرانے کے بجائے خود اقتدار پر قابض رہنا چاہتے ہیں تو اُنہوں نے ایوب خان کی شدید مخالفت شروع کر دی۔

ایوب خان نے کچھ اچھے کام بھی کیے ہوں گے لیکن اُنہوں نے جو صدارتی نظام 1962میں نافذ کیا وہ پاکستان کو توڑنے کی وجہ بنا۔ آج کل پھر کچھ لوگ صدارتی نظام کو اپنے مسائل کا حل قرار دے رہے ہیں۔

وہ چاہیں تو کچھ بھی کر سکتے ہیں ہم تو کسی کو روک نہیں سکتے لیکن ہم ایک کام کر سکتے ہیں۔ ہم مادرِ ملت کے ساتھ کھڑے تھے اور کھڑے رہیں گے کیونکہ وہ بابائے قوم کی ترجمان تھیں دراصل ہم اپنی نظروں میں خود رسوا نہیں ہونا چاہتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے