13جولائی 1931:مہاراجہ کشمیر نے کہاں ٹھوکر کھائی؟

13 جولائی 1931 کا واقعہ ظالموں کے خلاف مظلوم کی جدوجہد تھی ۔ مسلم ہندو جھگڑا نہیں تھا

گزشتہ 72 سال میں پہلی بار بھارتی مقبوضہ کشمیر میں 13 جولائی 1931 کے شہدا کی یاد میں تقریبات پر پابندی لگائی گئی ہے۔ 89 سال قبل شہید ہونے والوں کی یاد میں سرکاری چھٹی بھی منسوخ کر دی گئی ہے۔ اس طرح بھارت کی متعصب حکومت کے اس اقدام سے اس دن کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے۔

یاد رہے کہ 13 جولائی 1931` کو شہادت کا رتبہ پانے والے 22 شہدا ریاست جموں کشمیر کے اندر اور باہر ریاست کے تمام ہی مذاہب اور سیاسی مکاتب فکر کا مشترکہ سرمایہ رہے ہیں۔

(آج کے آرٹیکل میں بے ربطگی محسوس ہو تو پیشگی معذرت چاہوں گا چونکہ میں کورونا کی عالمی وبا کا شکار ہو چکا ہوں میرا 30 جون کو ہونے والا ٹیسٹ پازیٹو آیا ہے اور میں لکھتے ہوئے خیالات میں یکسوئی برقرار نہیں رکھ پا رہا آپ سے دعا کے لیے بھی ملتمس ہوں )

آج یوم شہداے کشمیر کی یاد تازہ کرنے کی کوشش میں میرا دھیان تھوڑی دیر ایک اور پہلو کی طرف چلا گیا کہ مہاراجہ کشمیر کتنا بدقسمت ترین بادشاہ یا والی ریاست تھا کہ اسے تاریخ میں امر ہو جانے کا موقع ملا مگر اس نے موقع کھو کر اپنے آپ کو تاریخ کے سیاہ باب کا حصہ بنا لیا۔

آپ سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ ایسا کون سا موقعہ تھا جو مہاراجہ نے کھویا؟

اس واقعہ کو جاننے کے لیے پس منظر بیان کیا جانا ضروری ہے۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مہاراجہ ہری سنگھ کے دور سے قبل ہی کئی صدیوں سے مغلوں،افغانوں ، سکھ اور ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیری عوام سے ظلم و جبر کا رویہ روا رکھا ہوا تھا اور جموں کشمیر کی ریاست براہ راست تاج برطانیہ کے ماتحت نہ تھی بلکہ یہ ایک نیم آزاد شخصی ریاست تھی۔

اس لحاظ سے کشمیر میں ڈوگرہ راج ہندوستان میں برطانوی راج سے مختلف تھا جس کا ہندوستان میں رہنے والے عام لوگوں کو کوئی خاص علم نہ تھا۔

مہاراجہ پرتاب سنگھ کے مظالم سے ہندوستان میں تاج برطانیہ کے کل پرزے ضرور آگاہ تھے۔ اس لیے انہوں نے برٹش انڈیا اور دیگر شخصی ریاستوں کے جانشینوں کی طرح مہاراجہ ہری سنگھ کو حکمرانی کی تربیت لندن کے چیف کالج میں کی تاکہ اسے عوام کے دل موہ لینے کے گُر سکھائے جائیں اور یہ کہ غلاموں پر حکومت کرنے کے کچھ اچھے آزمودہ طریقے موجود ہیں۔

مہاراجہ پر تاب سنگھ کے جانشین مہاراجہ ہری سنگھ نے بہترین تربیت پانے کے بعد واپس آ کر اسی برطانوی تربیت کی وجہ سے نظام حکومت میں بعض اصلاحات کیں۔
جو قابل تعریف سمجھی گئیں مگر انہوں نے مجموعی طور مسلمانوں کی حالت زار بدلنے میں بڑا تعصب برتا۔ان کا رویہ ریاست کے مختلف علاقوں کے عوام اور مذاہب سے موقع محل کے مطابق مختلف تھا۔

کشمیر میں رونما ہو رہے واقعات استحصال، جبر واستبداد، لوٹ کھسوٹ اورغلامی کے خلاف بغاوت کی علامت تھے جو لندن سے انداز حکمرانی کی تربیت حاصل کرنے والا ولایت پلٹ مہاراجہ ہری سنگھ سمجھنے سے قاصر رہا اور اس نے اسے صرف مسلمانوں کی بغاوت سے تعبیر کرتے ہوے اس کو کچلنے کے لیے بھرپور طاقت استعمال کی۔

جموں کشمیر میں بے چینی جس کا آغاز پونچھ جاگیر کے علاقوں سے ہوا تھا ، وہ بے چینی و بغاوت کسی طور مسلمانوں کی ہندوں کے خلاف نہیں بلکہ مہاراجہ کے ظالمانہ نظام کے خلاف تھی جس کا شکار ہندو رعایا بھی تھی۔

ممتاز کشمیری ہندو پنڈت رہنما پریم ناتھ بزاز
اپنی کتاب
inside Kashmir میں لکھتے ہیں ؛-

13 جولائی تک عوامی تحریک کے پیچھے چلنے والی طاقت مسلمانوں کے صفوں میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کے خلاف عدم اطمینان کی تحریک تھی۔ سینٹرل جیل سرینگر پر حملہ کسی بھی طرح ہندوؤں کے خلاف نہیں تھا اور جن لوگوں نے جیل کے پھاٹک پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ، انہوں نے غیر ہمدرد ظالمانہ حکومت کے خلاف لڑتے ہوئے… اپنی چھاتیوں پر گولیاں کھائیں۔۔۔یہ ظالموں کے خلاف مظلوموں کی لڑائی تھی۔

بظاہر مسلمانوں کے حقوق کیلئے شروع ہوئی اس تحریک نے جب ایک سیاسی تحریک کی شکل اختیار کی تو 1932 میں شیخ عبداللہ اور چوہدری غلام عباس نے مل کر آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس وجود میں لائی جو 1939 میں نیشنل کانفرنس بن گئی۔ مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے اس سیاسی تحریک کا بڑا سیاسی مطالبہ یہ تھا کہ جموں کشمیر میں ایک ذمہ دارانہ نظام حکومت قائم کیا جائے جس کی تشریح یہ بنی کہ ریاست جموں کشمیر میں انتخابات کرائے جائیں ریاست پر ریاستی رعایا کے اقتدار اعلیٰ کے حق کو تسلیم کیا جائے۔

اور یہ وہ موقعہ تھا جو مہاراجہ ہری سنگھ نے کھو دیا!

اگر مہاراجہ ہری سنگھ جسے ریاست جموں کشمیر کے طول عرض میں مسلمان جاگیرداروں، ذیل داروں، نمبر داروں، خاصہ داروں ، مسلم درگاہوں اور مساجد کے اماموں اور مراعات یافتہ مسلمانوں کے مذہبی رہنماؤں ، پیشواوں کی حمایت بھی حاصل تھی ،اگر اس وقت یعنی1932-35 کے دوران اپنی رعایا کی اکثریت کا یہ مطالبہ تسلیم کرتے ہوے انتخابات کرا کر اقتدار عوام کو منتقل کر دیتے اور کشمیر پارلیمان کے ساتھ معاہدہ کی شکل میں وہ ریاست جموں کشمیر کے لیے آئینی برطانوی نظام میں ملکہ برطانیہ کی طرح مہاراجہ کشمیر کی دائمی حیثیت حاصل کر لیتے تو آج ان کی ریاست جموں کشمیر ایک آزاد ملک کی حیثیت سے ترقی کی بلندیوں کو چھو رہی ہوتی اور خود مہاراجہ کشمیر اور ان کے وارث جانشین ڈاکٹر کرن سنگھ کا وہ حشر نہ ہوتا جو 1974 کے بعد ہوا۔

تیرہ جولائی کے شہدا کے ناموں کا کتبہ

مہاراجہ اگر ایسا کر دیتے تو ریاست تقسیم ہوتی نہ مہاراجہ کا اقتدار ختم ہوتا اور نہ اس کی رعایا اتنے دکھ جھیلتی اور جو آج کچھ بھی مہاراجہ ہری سنگھ کی اپنی نسل سے ہو رہا ہے۔ جس کا ملال ان کے جانشین کو بخوبی ہے، وہ نہ ہوتا۔ گزشتہ سال ہندوستان کی پارلیمنٹ میں جب ان کے بیٹے ڈاکٹر کرن سنگھ کی تقریر سنی تو شعر یاد آیا:

آگے کے دن پاچھے گئے اور ہرسے کیو نہ ہیت
اب پچھتاﺋﮯ کیا ہوت ہے جب چڑیاں چگ گئیں کھیت

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ 13 جولائی 1931 کا واقعہ ہر گز کوئی حادثاتی سانحہ نہیں تھا۔ یہ دن نہ صرف تاریخ کے ایک اہم باب کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ یہ عوام کے لاشعور کا حصہ بن چکا ہے۔

مزار شہدا

آج ہم 2020 میں اس سفر آزادی کی صدی کے آخری عشرہ میں گزر رہے ہیں، میرا دل گواہی دے رہا ہے سفر آزادی کی صدی پوری ہونے سے پہلے ہم منزل پر پہنچ کر جشن آذادی منائیں گے ، ان شا للہ۔

بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائی محکوم اور دبی کُچلی قوموں کا سامراج کے خلاف جدوجہد کا دور تھا۔

13 اور جولائی 1931 کو ظہور پذیر ہونے والا واقعہ اجتماعی بغاوت کا تسلسل تھا۔

کشمیر میں13 جولائی کے واقعے سے یہ تحریک بالآخر ڈوگرہ تانا شاہی کو بہا کر لے گئی۔ مگر مطلق العنانی کے خاتمے کے ساتھ ہی جنت نما کہلائی جانے والی یہ ریاست پھر امن و سکون اور ترقی وخوشحالی کی آماج گاہ نہ بن سکی۔

راجہ مظفر لاس اینجلس امریکا میں مقیم کشمیری رہنما ہیں۔ آپ ساوتھ ایشیا ڈیمو کریسی واچ ڈیلاس ٹیکساس اور کشمیر گلوبل کونسل نیو یارک ٹورنٹو کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن بھی ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے