تلخ نوائی

ایک بزرگ سے روایت منسوب ہے کہ بارش میں کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔ راستے میں کیچڑ تھا۔ ایک لڑکا ان کے سامنے پھسلتے پھسلتے بچا۔ آپ نے ہدایت فرمائی کہ بیٹا دیکھ کر چلو‘ پھسل نہ جانا۔ اس نے آگے سے عرض کیا! حضور! میری خیر ہے! پھسل بھی گیا تو کوئی بات نہیں! آپ اپنا خیال رکھیے‘ آپ پھسل گئے تو آپ کے پیچھے آپ کے پیروکار بھی نہیں سنبھل سکیں گے!

حضرت مولانا طارق جمیل کے لاکھوں پیروکار ہیں۔ ان کی تبلیغ اور تقریر میں اللہ تعالیٰ نے تاثیر رکھی ہے۔ یوٹیوب کا سلسلہ تو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے شروع ہوا ہے۔حضرت اُس وقت مقبولیت حاصل کر چکے تھے جب آڈیو کیسٹوں کا زمانہ تھا۔ ان کے مواعظ کی کیسٹیں شائقین جمع کرتے تھے۔ ایک دوسرے کو تحفے میں دیتے تھے۔ ویگنوں پر‘ ٹیکسیوں میں‘ نجی گاڑیوں میں‘ ان کیسٹوں کے ذریعے ان کی تقریریں سنتے تھے۔ اب تو یہ کام اور بھی آسان ہو چکا ہے۔ موبائل فون ان کے ارشادات سے ایک عالم کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ پھر ان کے اسفار بھی ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں وہ تبلیغ دین کے لئے نہ گئے ہوں!

دوسرے مسالک کا احترام ان کا خاصہ ہے! وہ فرمایا کرتے ہیں کہ اللہ کی جنت بہت بڑی ہے۔ اس میں سب کو آنے دو! ہم نے دوسرے مسلکوں کے علما سے بھی ان کی تعریف سنی ہے!

حضرت وزیراعظم عمران خان سے متاثر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان ریاستِ مدینہ کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ حضرت کا موقف یہ ہے کہ اس سے پہلے کسی حکمران نے یہ بات نہیں کی۔ اسی بنا پر انہیں وزیراعظم سے حسنِ ظن ہے۔ اس میں کوئی دکھاوا نہیں‘ حضرت کا خلوص شامل ہے۔ حضرت کوئی عام شخصیت نہیں اُن کی وجہ سے ان کے لاکھوں پیروکار بھی صدقِ دل سے یہی سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کی پالیسیاں‘ احکام اور طرزِ حکمرانی ریاستِ مدینہ کی اتباع ہے۔

یہ بہت بھاری ذمہ داری ہے۔ فرض کیجیے‘ خدانخواستہ ایسا نہ ہوا یا ایسا نہیں ہو رہا تو لاکھوں افراد کی طرف سے عمران خان صاحب کی حمایت‘ حضرت مولانا سے منسوب ٹھہرے گی! ”ریاستِ مدینہ‘‘ ایک مقدس لفظ ہے۔ اس کا ذکر جس طرح ہر وقت‘ ہر بیان میں‘ آسانی سے لیا جا رہا ہے۔ بذات خود ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ آسان کام نہیں! اگر کوئی اس کی اتباع کا دعویٰ کرتا ہے تو اسے یہ احساس بھی ہونا چاہیے کہ یہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا!

ہم حضرت مولانا کی خدمت میں بصد احترام عرض کرتے ہیں کہ وہ ریاستِ مدینہ کا مقام و منزلت ذہن میں رکھے ہوئے‘ حکومت کی پالیسیاں اور گورننس کا بغور جائزہ لیں۔ تجزیہ کریں‘ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ریاستِ مدینہ ہی کی پیروی ہو رہی ہے‘ تو خوش آئند امر ہے۔ اور اگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ نام تو ریاست مدینہ کا لیا جا رہا ہے مگر عملاً اعرابی ترکستان کی طرف جا رہا ہے تو پھر مناسب یہی ہوگا کہ وہ اپنے تحفظات کا برملا اظہار فرمائیں تاکہ وہ لاکھوں پیروکار جو ان کی رائے کی اتباع کر رہے ہیں‘ اپنی ذمہ داری پر آزادانہ رائے قائم کریں اور کل روزِ حساب ذمہ داری حضرت مولانا پر نہ ڈال سکیں!

اس میں کیا شک ہے کہ حضرت مولانا نے کسی عقیدت مند کو یہ نہیں کہا کہ وہ وزیراعظم کے ضمن میں اُن کی رائے سے اتفاق کرے۔ مگر ہمارا ذہنی رویہ اس قبیل کا ہے کہ ہم تقلید کے اسیر ہیں مذہبی یا سیاسی لیڈر کے ہر موقف کو من و عن تسلیم کرنا ہماری نفسیات کا حصہ بن چکا ہے جبھی تو حافظ نے صدیوں پہلے کہہ دیا تھا ؎
بہ می سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نہ بود ز راہ و رسمِ منزل ہا

ریاستِ مدینہ بچوں کا کھیل نہیں کہ نام تو اس کا لیا جائے اور کام اپنی مرضی کے کیے جائیں۔ ریاستِ مدینہ کے حکمران اپنی بات منوانے کے لئے دلائل دیتے تھے‘ لوگوں کو کھینچ کھانچ کر ڈنر پر نہیں لاتے تھے نہ ہی فنڈز کے وعدے کرتے تھے۔ ریاست مدینہ کا بنیادی اصول تھا کہ ”امانتیں اُن کے سپرد کرو جو اہل ہوں‘‘ اس آیت کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم نے جو احادیث لکھی ہیں وہ مولانا طارق جمیل صاحب نے یقینا ملاحظہ فرمائی ہوں گی۔

ریاست مدینہ میں ہر کام مشورے سے ہوتا تھا۔ یہاں تو گمنام اور تحصیل ناظم کی سطح کے افراد کو تین چوتھائی ملک کا والی بنا دیا جاتا ہے جو لکھ سکتے ہیں نہ بات کر سکتے ہیں۔ ایڈمنسٹریشن کا یہ حال ہے کہ دو سال کے عرصہ میں پانچ آئی جی‘ چار چیف سیکرٹری‘ تین ہیلتھ سیکرٹری‘ پانچ سیکرٹری خزانہ اور چھ سیکرٹری تعلیم بدل چکے ہیں مگر جو منبع ہے اسے کوئی نہیں ہٹا سکتا اور اہلیت سے ایک دنیا واقف ہے!

ریاست مدینہ میں چار ارب روپے کے منصوبے کا نام اپنے باپ کے نام پر نہیں رکھا جاتا تھا۔ اور نہ ہی وہاں نعوذ باللہ نفاق تھا کہ دوسرے لوگ منصوبوں پر اپنے اور اپنے بزرگوں کے ناموں کی تختیاں لگائیں تو تنقید کی جائے اور اپنے دور میں یہ کراہیت جاری رہے تو احتجاج کے باوجود آنکھیں بند کر لی جائیں۔ ریاست مدینہ میں ذاتی دوستوں کو سیاہ و سفید کا مالک نہیں بنایا جاتا تھا اور شوریٰ (پارلیمنٹ) سے بالا بالا بیسیوں مشیر ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر نہیں رکھے جاتے تھے۔ ایسے ایسے افراد کو مناصب دیئے گئے ہیں کہ خود ایک وفاقی وزیر کو کہنا پڑا کہ فلاں صاحب ”1968ء سے یہ کام کر رہے ہیں انہیں اصلاحات لانا ہوتیں تو پہلے لے آتے۔‘‘دو سال ہو گئے ہیں ابھی ان صاحب کی زنبیل سے اصلاحات کی کوئی کچی صورت بھی برآمد نہیں ہوئی حالانکہ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بھی وہ یہی کام کرتے رہے۔ تب بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا۔

صرف دعویٰ سن کر حمایت کر دینا ایک غیر منطقی عمل ہے۔ حضرت مولانا جس مقامِ بلند پر فائز ہیں‘ لازم تھا کہ وہ دعویٰ کے بعد اعمال بھی دیکھتے‘ پالیسیوں کا بھی جائزہ لیتے اور پھر اگر دعویٰ اور عمل میں ہم آہنگی دیکھتے تب حمایت کرتے صرف اس بنیاد پر کہ ریاست مدینہ کا نام لیا جا رہا ہے‘ حمایت کرنا‘ تعریف کرنا اور لاکھوں افراد کو متاثر کرنا قرینِ انصاف نہیں!

”ریاستِ مدینہ‘‘ کی طرح ”صادق امین‘‘ کی مقدس اصطلاح کو بھی بازیچۂ اطفال بنا لیا گیا ہے۔ صادق امین محض دو لفظوں کا مرکب نہیں‘ ایک پاکیزہ اصطلاح ہے اور ہر شخص کے ذہن میں یہ اصطلاح سنتے ہی اُس ہستیؐ کا تصور آتا ہے جو کائنات میں خدائے بزرگ و برتر کے بعد اعلیٰ ترین ہے! اس اصطلاح کو ہر کہ و مہ پر چسپاں کرنا اگر توہین نہیں تو بے ادبی ضرور ہے۔ اس کے بجائے کوئی اور الفاظ استعمال ہو سکتے ہیں۔ مثلاً امانت دار‘ دیانت دار یا راست گو‘ مگر خاص انہی الفاظ کا دوسروں کے لئے استعمال ناقابلِ برداشت ہے۔ اسی طرح اس سخت کسوٹی پر دوسروں کو پرکھنا بھی ناممکن کو ممکن بنانے والا کام ہے۔ اس آسمان کے نیچے‘ اور اس زمین کے اوپر ”صادق و امین‘‘ صرف ہمارے ہادیٔ برحق ﷺ تھے۔ اب لوگ دیانت دار‘ راست باز اور قابلِ اعتماد تو قرار دیئے جا سکتے ہیں‘ ”صادق اور امین‘‘ کی مقدس اصطلاح کے سزاوار نہیں ہو سکتے!

ہم بصد احترام حضرت مولانا کی خدمت میں عرض گزار ہیں کہ وہ رہنمائی فرمائیں کہ کیا ریاستِ مدینہ کے تقاضے عملاً پورے ہو رہے ہیں؟ بصورت دیگر وہ کم از کم دعا کے ساتھ ساتھ یہ نصیحت بھی فرما دیں کہ اس مقدس نام کو استعمال کرنا ہی ہے تو اس کے تقاضے بھی پورے کئے جائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے