ایا صوفیہ

سادہ سا ایک سوال تھا : ترکی نے ایا صوفیہ کو مسجد بنا کر احترام مذاہب اور عبادت گاہوں سے متعلق بین الاقوامی قوانین میں سے کس قانون کے کس ضابطے کی خلاف ورزی کی ہے؟ جواب میں مگر آہ و فغاں اور طنز اور کوسنوں کے سوا کچھ نہیں ۔

علم کی دنیا مگر دلیل مانگتی ہے اور نفرت سے قہر برساتے لہجوں کو آج تک کسی نے دلیل کے باب میں نہیں لکھا ۔ انتہا پسندی بہت بری چیز ہے اور انتہا پسندی کا تعلق وضع قطع سے نہیں رویوں سے ہے۔ انتہا پسندی مذہبی فکر کی صورت میں ظہور کرے یا روشن خیالی کا پیرہن اوڑھ کر آئے، ہر دو صورتوں میں نا پسندیدہ ہی رہے گی۔

کہا جا رہا ہے ایا صوفیہ کو مسجد بنا کر مسلمانوں نے اخلاقی برتری کا موقع گنوا دیا ۔ میں ایک طالب علم کے طورجاننا چاہتا ہوں کہ اس سارے معاملے میں اخلاقی برتری کہاں پامال ہوئی ؟ کون سا قانون اور کون سی اخلاقیات پامال ہوئیں کہ مسلمانوں کی اخلاقی برتری وقت کی دھول بن گئی ؟ تعزیر کا کوڑا پوری علمی وجاہت سے اردوان کی پشت پر برسائیے لیکن ازرہ کرم فرد جرم تو مرتب کر لیجیے۔ صف نعلین میں بیٹھے ہم طالب علموں کو معلوم تو ہو غصہ کس بات پر ہے؟

ایم کے بھدراکمار بھارت کے سینیئر سفارت کار ہیں اور ترکی میں بھی تعینات رہے۔ ایا سوفیہ کے تناظر میں جب بحث چل نکلی تو وہ بھی میدان میں آگئے۔ انہوں نے ناقدین کو یاد دلایا کہ صدیوں جب ایا صوفیہ کو بطور مسجد استعمال کیا جاتا رہا تو ایا صوفیہ میں موجود تمام مسیحی نقوش ونگار اور نشانیاں محفوظ رکھی گئیں۔ قریبا پانچ سو سال یہ مسجد رہی اور ان پانچ سو سالوں میں ان مسیحی نشانیوں کو کسی نے ضائع نہیں ہونے دیا ۔ چنانچہ جب کمال اتا ترک نے اسے میوزیم بنایا تو یہاں وہ سب نقوش اور علامات موجود تھیں اور یورپ کے سیاح انہی کو دیکھنے آتے تھے۔ کیا یہ اخلاقی برتری نہیں؟

مسلمانوں کی اخلاقی برتری کے بارے میں حساس لوگوں کے لیے ایم کے بھدرا نے ”اے ہسٹری آف کروسیڈز“ کے مصنف معروف برطانوی مورخ سر جیمز سٹیونسن کی کتاب Fall of Constantinople 1453 تجویز کی ہے تا کہ انہیں معلوم ہو سکے اس فتح کے ہنگام مسلمانوں کی اخلاقی برتری کا عالم کیا تھا۔

مسلمانوں کی قدیم فقہ تو اب طنز کا استعارہ بن گئی ہے۔ نیا ذہن مگر بین الاقوامی قانون کی مبادیات سے تو صرف نظر نہ کرے ۔ ہم بلاشبہ ابو حنیفہ اور ابو یوسف کے دور میں نہیں جی رہے لیکن ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ 1453 میں سلطان محمد فاتح کی فتح پر بیسویں صدی کا قانون بھی نافذ نہیں ہو سکتا۔

1453میں نہ لیگ آف نیشنز تھی نہ اقوام متحدہ ۔ صدیوں پرانی فقہ آج نافذ کرنے میں تو تامل ہے لیکن آج کی فقہ کا اطلاق ساڑھے پانچ سو سال پہلے کے واقعے پر کرنے پر اصرار کیوں؟ اس وقت جو قانون رائج تھا اس کے تحت قسطنطنیہ اور ایا صوفیا مسلمانوں کی ملکیت تھی ۔ اس ملکیت کو جس اخلاقی برتری کے ساتھ بروئے کار لایا گیا اس کا اعتراف بھارتی سفارتکار بھی کر رہا ہے اور برطانوی مورخ بھی۔

جب جدید قوانین بنے اور اقوام عالم نے جنگوں اور ملکیت کے بارے میں قانون سازی کر کے انٹر نیشنل لاء کی بنیاد رکھی تو وہ صدیوں پرانے معاملات کھول کر نہیں بیٹھ گئے کہ میرے اجداد چار سو سال کہاں کہاں قابض تھے، وہ علاقہ میرا ہونا چاہیے۔ نئے قوانین موجود حقیقتوں کی بنیاد پر بنے۔ ان میں موجود قبضوں کی بنیاد پر ریاستوں کی ملکیت تسلیم کی گئی ۔ اور جب یہ سب ہو رہا تھا اس وقت آیا صوفیہ کو مسجد بنے ساڑھے چار سو سال ہو چکے تھے ۔ ناجائز قبضے اور جائز اور ناجائز حملوں کے قوانین بعد میں بنے ۔ یاد رہے کہ مشرقی یروشلم پر قبضہ ان قوانین کے نافذ ہونے کے بعد ہوا اس لیے جانائز ہے ۔ ایا صوفیہ اس سے ساڑھے چار سو سال پہلے مسجد بن چکی تھی اور انٹر نیشنل لاء اس بندوبست کو تسلیم کر چکا تھا۔

چنانچہ جب سلطنت عثمانیہ ختم ہوئی اور کمال اتا ترک نے ایا صوفیہ کو میوزیم بنایا تو یورپ میں سے کوئی ملک یہ مطالبہ نہ کر سکا کہ اسے چرچ بنا دو ۔ اقوام عالم کے جدید قانونی بندوبست میں یہ چرچ تھی ہی نہیں ۔ یہ مسجد تھی ۔ اتا ترک نے ایک مسجد کو میوزیم بنایا ۔ طیب اردوان نے اس میوزیم کو مسجد بنا دیا ۔ اس میں اتنی آہ و بکا نا قابل فہم ہے۔

یہ ایک نئی کہانی ہے جس کا یہ محل نہیں کہ اتا ترک نے ایک مسجد کو میوزیم کیوں بنایا اور پس چلمن کون کون تھا ؟ قدیم سوچ میں ڈوبے مسلمانوں کی اخلاقی برتری پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں لیکن ان جدید اذہان کی اخلاقی برتری پر کوئی بات نہیں ہو رہی جنہیں ایا صوفیہ کی جگہ میوزیم تو گورا ہے، مسجد گوارا نہیں۔

تازہ بندو بست کو بھی سمجھ لیجیے۔ مسیحی نقش و نگار اور علامات اب بھی محفوظ رہیں گے۔ بالکل ایسے ہی جیسے صدیوں پہلے یہ مسجد بنی رہی اور وہ نشانیاں محفوظ رہیں ۔ مسیحی سیاح اب بھی آ سکیں گے۔ کسی مسیحی پر ایا صوفیہ میں داخلے پر پابندی نہیں ہو گی ۔ ان کی سب نشانیاں محفوظ رہیں گی ۔ البتہ کمال اتا ترک نے جو یہاں نماز کی ممانعت کی تھی اب وہ نہیں رہی ۔ اب اس کے ایک ایک حصے میں نماز ہوا کرے گی ۔ اس میں اخلاقیات کہاں پامال ہو گئیں؟ یہ طالب علم رہنمائی کا طالب ہے۔

اردوان نے اپنے ملک میں، یوں کہیے کہ ”اپنی نیشن سٹیٹ“ میں ایک انتظامی فیصلے کو جو اتاترک نے کیا تھا ، عدالتی حکم کے بعد کالعدم قرار دے دیا ہے۔میرے لیے یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ اس معاملے میں دارالاسلام اور دارلحرب کہاں سے آگیا کہ ان اصطلاحات کو مشق ستم بنایا جا رہا ہے؟ یہ دونوں اصطلاحات تو معلوم ہوتا ہے، برائے وزن بیت ہی روند دی گئیں۔

اعتدال اور توازن ہی زندگی کا حسن ہے۔ اس حسن کو محض انتہا پسندی ہی متاثر نہیں، ملامتی انداز فکر بھی اسے متاثر کرتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے