آوارگی قلم

ہفتہ کی شام اسلام آباد میں بادل خوب برسے ،مارگلہ کی پہاڑیوں پر بارش کے بعد آرام کرتے بادلوں کا حسیں منظر دیکھ کر میرے قلم نے کہا یار ذرا موسم و مناظر کا لطف لیاجائے تو دل نے امادگی ظاہر کی سو قلم کے ہمراہ لطف اندوز ہونے کے لیے نکل کھڑا ہوا باتوں باتوں میں معلوم ہی نہ ہوا کہ ریڈ زون پہنچ گئے”جہاں پارلیمنٹ،ایوان صدر،سینیٹ،وزیر اعظم ہاوس،سپریم کورٹ اور وزیر اعظم آفس ہے”۔

 قلم کی نظر پارلیمنٹ اور سینیٹ  پر پڑی تو کہتا یار من! یہ جگہ مجھے بے حد پسند ہے ایک وقت تھا کہ کیسے کیسے جید اہل علم فلاسفر اس میں ہوتے تھے اور حق رائے،اختلاف رائے کے اسلوب سمجھتے تھے مگر اب ادھر عمران خان،مراد سعید، مشاہد اللہ خان اور قادر پٹیل جیسے لوگ ملتے ہیں جو ایک دوسرے کی شلواریں دھوتے ہیں ،نازیبا جملے کستے ہیں مگر عوام کے مسائل کی یا ان کے حل کی بات نہیں کرتے جس سے اس کا وقار خراب ہورہا ہے۔

اچانک قلم چونکا اور کہا یار من! وقار سے یاد آیا سپریم کورٹ جانا ہے وہاں میری ایک جاننے والی عظمی رہتی ہیں ان سے ذرا گپ شپ کرلیتے ہیں وہاں پہنچے تو عظمی کو پریشان دیکھا وجہ پوچھی تو سامنے ایف بی آر کے دفتر اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگی اب تک تمہاری عظمی نے بھٹو جیسے طاقت ور منتخب وزیر اعظم کو ناکوں چنے چبوائے اور دار پر پہنچایا آج اپنی حالت یہ ہے کہ اس دفتر میں رسوا ہورہی ہوں ،قلم نے کہا عظمی چھوڑو کہیں توہین عدالت میں نہ پھنس جائیں۔

لفظ رسوائی پر قلم کانپ اٹھا اور کہا وزیر اعظم ہاوس چلتے ہیں وہاں پہنچے تو کہا یار من! کیا زمانہ تھا جب یہاں بھٹو جیسا وزیر اعظم تھا جس نے آئین دیا اس مادر وطن کو اور ایٹمی قوت بنانے کی راہ ہموار کی،کیا زمانہ تھا جب یہاں محترمہ بے نظیر ہوتی تھیں بہت باکمال تھیں ان کی بحالی جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے جان وار دینے کا اس ریاست پر قرض ہے، اب دیکھو اس ہاوس میں ایک ایسا شخص آیا ہے کہ نہ پوچھو بتایا تو سیاہی ختم ہوجائے گی اور معاشی حالات اتنے بدتر ہیں کہ سیاہی خریدنے کی قوت نہیں اور اس نا اہل وزیر اعظم کی رسوائی کا مقدر ہاوس کے سامنے انتظار کررہا ہے۔

بالادستی کا ذکر کرتے ہوئے قلم لڑکھڑایا تو میں نے ہاتھ تھام لیا سنبھلتے ہی کہتا یہ بالادستی کہاں ملے گا، اس سوال پر میں چونک اٹھا مگر قلم نے کہا مجھے ہر حال اس سے ملنا ہے تم چاہے باقی رہو یا گزر جاو،قلم کے اصرار پر ریڈ زون سے نکلے اور صدر راولپنڈی  کی طرف چل دیئے چونکہ میرا کبھی جانے کا اتفاق نہیں ہوا تو بالادستی کے گھر کا راستہ ایک راہ گیر سے کان میں پوچھا تو چہار طرف نظر گھما کے بعد از تسلی راستہ میرے کان میں بتادیا چونکہ راستہ طویل تھا چنگچی پر سوار وہاں پہنچےحیرت و خوف سے قدم کانپنے لگے جب دیکھا کہ بالادستی کی حفاظت کے لیے چہاروں اطراف بے چارے گرمی میں بندوق بردار کھڑے ہیں اور بالادستی کے گھر کا نام "جنرل ھیڈ کوارٹر” پڑھ کر قلم کے اوسان خطا ہوگئے۔

کہنا لگا یار من! بالادستی کا گھر یہ ہے ، عرض کی اب گھبراو نہیں کہو کیا حکم میرے لیے!  سو قلم نے افسردہ لہجے میں کہا یار من! یہ تو وہی گھر ہے جس میں ایوب خان،یحی خان،ضیاء الحق،پرویز مشرف رہتے رہے ہیں یار من! ان پر بالترتیب فاطمہ جناح صاحبہ کو غدار،باچا خان پر ظلم،مخالفین کو کال کوٹھریوں میں زدوکوب کرنے ، یحی خان پر پاکستان کو دولخت کرنے ،ضیاء الحق پر بھٹو قتل کا الزام،وطن کو امریکا کی مرضی سے راہ جہاد پر ڈالنے کی اسلامی خدمت کا الزام،مشرف پر مسجد بے نام ،بگٹی قتل،قبائلیوں پر ظلم ، سفارتی ناانصافیوں،عافیہ صدیقی اور ملک کو امریکا کے ہاتھوں فروخت کرنے کے الزامات ہیں، دکھ اس بات کا ہے کہ ان سب کے ساتھ ایک ایک سیاستدان ان کارناموں کی انجام دہی کے لیے شانہ بشانہ رہے ہیں۔

یہ باتیں قلم نے بغیر کسی طویل وقفے کے کہ ڈالیں میں حیرت سے سنتا رہا اور خوف کی شدت سے کہا یار! چھوڑو!  کہیں تمہیں زنداں میں نہ ڈال دیں، مسکرا کر کہنے لگا یار من! جس جگہ فیض،جالب،شورش و آزاد جیسے عظیم قلم کاروں کے  قلم ان کے ساتھ زنداں میں قید قفس کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے ہیں میری کیا اوقات ہے میں تو اک طالب علم کا قلم ہوں کچھ دیر تمہارے ساتھ زنداں میں بسر ہوجائیں گے کیا ہوا، کل کوئی میرا نام بھی شورش و آزاد کے ساتھ سچ کہنے والوں میں لکھ دیگا جیسے آج میں رونق زنداں عظیم لوگوں کا ذکر کر رہا ہوں۔

قلم کے جرات اظہار سے خوف چھٹا،آنکھوں سے دھندلکا غائب ہوا تو سامنے شامل گفتگو ہونے کے لیئے سینہ تانے "بالادستی” چھڑی تھامے صاف دکھائی دیا جو اس قومی گھر میں بزور بازو قیام پذیر ہے اور بھاری چہرے پر پشیمانی کے کوئی آثار تک اگلے دوسال کے لیے بھی نظر نہیں آئے تو بنا بات کیے قلم منہ لٹکائے واپس آگیا اور لکھنا شروع کردیا جو اہل دانش کی خدمت میں پیش کیے دیتا ہوں
فضا ابن فیضی نے کہا ہے
جرأت اظہار سے روکے گی کیا

مصلحت میرا قلم چھینے گی کیا

کیا توقع کور ذہنوں سے فضاؔ

کوئلوں سے روشنی پھوٹے گی کیا

۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے