اگر آپ پلاٹ خرید رہے ہیں ‌تو رکیں،پہلے یہ پڑھ لیں …

حالیہ دنوں میں بشارت حمید صاحب کا تحریر کردہ کتابچہ”تعمیرِ مسکن” پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میں گھر کی تعمیر کے حوالے سے کافی رہنما مواد ہے مگر تعمیر کا ایک بڑا مرحلہ یعنی پلاٹ خریداری کا مضمون اس میں موجود نہیں تھا۔ اسی سے خیال آیا کہ اپنے محدود تجربے کی روشنی میں کچھ باتیں پیش کردی جائیں تاکہ بہت سوں کا بھلا ہوسکے۔ یہ اجمالی تحریر ہے ، ان اشارات کی بنیاد پر آپ کسی تجربہ کار سے مزید رہنمائی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

پلاٹ خریدنے کا معاملہ بہت حساس اور پیچیدہ ہے۔ عام طور پر انسان زندگی میں یہ معاملہ ایک آدھ بار ہی کرتا ہے۔ اگر اس سے متعلق پوری طرح بصیرت حاصل نہ ہو تو یہی معاملہ ہمیشہ کے لئے دردِ سر بن جاتا ہے۔ اس لئے اس میں ہر ہر موقع پر استخارے اور مشاورت کی ضرورت ہے۔ البتہ چند رہنما اصول یہاں لکھے جاتے ہیں

سب سے پہلے آپ اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا لیں کہ زمین کا جو حصہ آپ کو آسانی سے بغیر کسی فٹیگ کے مل سکتا ہے وہ آپ کی آخری آرام گاہ ہے۔ جیتے جی اگر آپ کسی جگہ کی تلاش میں ہیں تو یہ ایک سخت اور مشکل مرحلہ ہے۔ جس میں آپ کو ایسی مخلوق سے واسطہ پڑنے والا ہے جسے زندگی میں آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ آپ نے اسلم صاحب (فرضی نام) کو تو بہت مرتبہ دیکھا ہوگا مگر اسلم صاحب بطور پراپرٹی ڈیلر، بطور پٹواری، بطور وثیقہ نویس اور رجسٹری محرر وکیل یا بطور لینڈ ریکارڈ آفیسر کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ پلاٹ خریداری کا موقع بہت زبردست ایڈوینچر ہے۔ کاروباری مسکراہٹ میں چھپی بد اخلاقی، جھوٹ، بددیانتی، ناجائز منافع خوری، رشوت ستانی اور بدلتے رویے یہ سب چیزیں آپ کو ایک ہی معاملے میں دیکھنے کو ملیں گی۔ الا ماشاء اللہ (شرفا کا تناسب کم ہے جو پوری تحریر میں مستثنی رہیں گے۔)اس لئے مضبوط اعصاب کے ساتھ یہ صبر آزما مرحلہ سر کریں۔ پلاٹ خریداری کے مرحلے کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا حصہ پراپرٹی ڈیلر سے متعلق ہے دوسرا بیع کے اقرارنامے کی تیاری سے ، جبکہ آخر میں ہم رجسٹری سے متعلق بات کریں گے۔ ان تمام مراحل کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے۔

[pullquote]پہلا مرحلہ: پراپرٹی ڈیلر سے معاملہ [/pullquote]

اس پورے عمل میں جتنی خلقِ خدا سے واسطہ پڑتا ہے ان میں سب سے شاطر کردار پراپرٹی ڈیلر کا ہے۔یوں سمجھ لیجیے کہ پراپرٹی ڈیلر آپ کو دریا کا دوسرا کنارہ بہت سہانے انداز میں دکھاتا ہے مگر یہ آپ پر منحصر ہے کہ فورا کود جاتے ہیں یا کودنے سے پہلے دریا کے پاٹ اس کی گہرائی، لہروں کی شدت ، بھنور پن اور دیگر خطرات کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ نیز آپ کو اپنے فنِ تیراکی پر کتنا اعتماد ہے اور اس فن سے آپ کس قدر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پراپرٹی ڈیلر سے معاملہ کرتے وقت چند باتیں مدنظر رکھیے۔

1. یاد رکھیے کہ پراپرٹی ڈیلر کو آپ سے زیادہ آپ کی جیب سے دلچسپی ہے۔ جیسے جوتا پالش کرنے والا آپ کے جوتے دیکھ کر ہی آپ کو سلام کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور جس قدر آپ کے جوتے گندے ہوں اس کے سلام میں اسی قدر خلوص جھلکتا ہے۔ بالکل اسی طرح پراپرٹی ڈیلر بھی ابتدا ہی میں آپ کو تاڑنا چاہتا ہے کہ کیسی آسامی ہے۔ اس کا ممکنہ پہلا سوال یہی ہوگا کہ آپ کے پاس گنجائش کتنی ہے؟ یہ پہلا موقع ہے جہاں زیادہ تر گاہک پھسل جاتے ہیں۔ یاد رکھیے پراپرٹی ڈیلر سے معاملہ کرتے وقت آپ اسے اپنی ضرورت اور پسند تو بتا دیجیے کہ کتنے رقبے میں آپ کو دلچسپی ہے اور اس کی کیا خصوصیات ہونی چاہییں مگر اسے اپنی گنجائش مت بتایے۔ اس کے نتائج اچھے مرتب نہیں ہوتے۔

2. کسی بھی پلاٹ میں دلچسپی ظاہر کرنے سے پہلے پراپرٹی ڈیلر سے کمیشن طے کرلیجیے۔ ابتدا میں ممکن ہے وہ کم کمیشن (ایک فیصد) پر ہی راضی ہوجائے، لیکن اگر آپ نے دلچسپی ظاہر کرنے کے بعد کمیشن طے کیا تو ممکن ہے وہ زیادہ (ڈیڑھ یادو فیصد) ہی بتائے۔ یہ کمیشن عموما بیعانے کے وقت وصول کرلی جاتی ہے۔ مگر کمیشن طے کرتے وقت اس سے یہ بھی پوچھ لیجیے کہ کمیشن کے عوض آپ کی کیا کیا خدمات میسر رہیں گی۔ یقینا وہ رجسٹری کے عمل تک کی خدمات بیان کرے گا، جس میں بائع سے رابطہ رکھ کر فرد کی فراہمی کو یقینی بنانا اور بائع کو بیان دلانے کے لئے تیار کرنا وغیرہ بھی شامل ہیں۔ آپ اسی موقع پر اس بات کا اظہار بھی کرسکتے ہیں کہ کمیشن کا کچھ حصہ رجسٹری وغیرہ کے موقع پر ادا کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے پراپرٹی ڈیلر کو آپ میں اسی وقت تک کشش دکھائی دے گی جب تک کمیشن کا مقناطیس آپ کی جیب میں ہے۔

3. جس پلاٹ میں آپ دلچسپی لے رہے ہوں، موقع پر جا کر اس کا محل وقوع ضرور دیکھیے۔ پلاٹ میں بہت سی چیزیں اس کے ریٹ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ پلاٹ کا محل وقوع (یہیں آپ اپنی ترجیحات مثلا مسجد کے قریب یا مارکیٹ کے قریب ہونا وغیرہ بھی دیکھ سکتے ہیں ) اس کے سامنے والی گلی کی پیمائش، پلاٹ کی شیپ (چوکور، مستطیل یا مثلث)، پلاٹ کی گہرائی؟ اطراف تعمیر شدہ ہیں یا نہیں؟ فرنٹ کتنا ہے؟ ان کا اندازہ آپ کو موقع پر جا کر معاینہ کرنے سے ہی ہوسکتا ہے۔

4. پلاٹ کی پیمائش سودا طے ہونے سے پہلے آپ خود کریں۔ پیمائش کا طریقہ یہ ہے کہ اگر چوکور یا مستطیل مگر برابر اضلاع میں پلاٹ ہے تو اس کے دو متوازی خطوط میں سے ایک ایک کی پیمائش نوٹ کرلیں اور ان کو باہم ضرب دے دیں۔ یہ آپ کا کل مربع فٹ نکل آئے گا۔ اسے 272.25 پر تقسیم کیا جائے تو کل مرلوں کی پیمائش معلوم کی جاسکتی ہے۔ اور اگر چوکور یا مستطیل ہے مگر مساوی اضلاع نہیں تو ہر دو متوازی اضلاع کے حاصل جمع کو دو پر تقسیم کر کے باہم ضرب دی جائے۔ اسی طرح اگر مثلث نما ہے تو اس کے دو اضلاع کی پیمائش کا حاصلِ جمع دو پر تقسیم کرلیا جائے اور ایک خط کی پیمائش کو الگ سے دو پر تقسیم کرلیا جائے جو جواب آئے ان کو باہم ضرب دے دی جائے تو کل مربع فٹ معلوم کیا جا سکتا ہے۔(یاد رکھیے کہ مثلث صورت میں یا اگر چاروں اطراف کے خطوط کی پیمائش مختلف ہو اس کی حتمی پیمائش نہیں نکلے گی۔ تاہم مذکورہ بالا طریقے سے آپ حتمی کے قریب قریب پہنچ سکتے ہیں)

5. سودا طے ہونے سے پہلے اس پلاٹ کی فرد ضرور ملاحظہ کرلیں تاکہ آپ کو پلاٹ کی اصل پیمائش کا درست علم ہوسکے۔ یہی پیمائش قانونی طور پر آپ کی رجسٹری میں لکھی جائے گی۔ ورنہ بہت سی صورتوں میں گلی وغیرہ کا کچھ حصہ شامل کر کے پلاٹ فروخت کردیا جاتا ہے جب آپ ادائیگیوں سے فارغ ہوچکے ہوتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ قابلِ فروخت رقبہ جو ملکیت میں منتقل ہوا ہے وہ کم ہے۔ لیکن اس وقت پچھتانا بے سود ہے۔

6. اصل فرد سے آپ کو یہ اندازا بھی ہوسکے گا کہ پلاٹ کی کیا کیفیت ہے؟ فروخت کنندہ کے نام پر ہے یا اس کا مالک کوئی اور ہے؟ اگر مالک کوئی اور ہو تو فروخت کنندہ کے پاس اجازت کا ثبوت(مختار نامہ) ہونا چاہیے۔ نیز وہ اکیلا اس کا مالک ہے یا پلاٹ مشترکہ ہے۔ اگر مشترکہ ہے تو کیا سب شرکاء فروخت کرنے پر رضا مند ہیں؟ یہ بات پراپرٹی ڈیلر کے علم میں لانا ضروری ہے تاکہ رجسٹری کے کاغذات کی تیاری میں (اگر اسی کے ذریعے کروائی جارہی ہو) اور بیانات کے موقع پر وہ تمام مالکوں سے رابطہ یقینی بنائے۔

7. نیز یہ بھی تسلی کرلیں کہ پلاٹ پر کسی کا ناجائز قبضہ تو نہیں یا اسے بینک وغیرہ میں مارگیج تو نہیں کیا گیا۔ ایسی صورتِ حال میں (بالخصوص اگر آپ کی پسلی کمزور ہو تو) شروع سے ہی اپنا ہاتھ کھینچ لیں۔ ان شاء اللہ کوئی اور انتظام ہوجائے گا۔ ان ارض اللہ واسعۃ (اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔)

8. آخری بات کہ پلاٹ خریداری کا معاملہ جلد بازی میں نہ کیجیے۔ پراپرٹی ڈیلر یہی چاہے گا کہ دوپہر کو وزٹ کریں اور شام تک فائنل کردیں۔ وہ آپ کو بے جا ڈرائے گا کہ جس پلاٹ میں آپ کی دلچسپی ہے اس کا زیادہ ریٹ لگ رہا ہے مجھے جلدی ہاں یا ناں میں جواب دیں۔ یقین کیجیے کہ یہ سب جھوٹ ہوتا ہے۔ یہ ایسے بداخلاق ہیں کہ اگر انہیں زیادہ ریٹ ملے تو آپ سے پوچھنا بھی گوارا نہیں کریں گے۔ اس لئے آپ اطمینان سے فیصلہ کیجیے ۔اس کی باتوں کی طرف دھیان مت دیجیے۔ استخارہ کریں اور مشاورت بھی، بالخصوص جہاں پلاٹ خرید رہے ہیں اس علاقے میں کسی واقف کار سے ضرور مشاورت کیجیے۔ آپ جتنے بھی ماہر ہوں دوسروں کی رہنمائی سے بے نیاز نہیں ہوسکتے۔

9. اہلِ علاقہ میں سے کسی کے ساتھ مشاورت کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ آپ کو اس علاقے میں جگہ کی قیمت کا اندازا ہو جائے گا۔ جس کی بنیاد پر آپ اطمینان سے سودا طے کرسکتے ہیں۔

10. جب آپ ہر طرح سے مطمئن ہوجائیں تو رضامندی کی علامت کے طور پر کچھ ٹوکن ادا کیا جاتا ہے جو آپ اپنی مرضی سے طے کرسکتے ہیں مثلا دس پندرہ ہزار۔ یہ ٹوکن اصل قیمت سے منہا کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بیعانہ نہیں ہوتا۔

تلک عشرۃ کاملہ۔

[pullquote]دوسرا مرحلہ : بیع کے اقرار نامے (سیل ایگریمنٹ) کی تیاری[/pullquote]

ٹوکن کی ادائیگی کے فوری بعد آپ پراپرٹی ڈیلر کو بیع کے اقرار نامے کی تیاری کا کہہ دیجیے۔ یہ خریدار کے نام حاصل کیے گئے ایک (غیر عدالتی) اسٹام پر لکھی ہوئی قانونی تحریر ہوتی ہے۔ جس میں فروخت کنندہ کی طرف سے اس بات کا اقرار ہوتا ہے کہ مخصوص پلاٹ جس کا حدودِ اربعہ اور جملہ تفصیلات یہ ہیں میں برضا ورغبت اتنے عوض پر فروخت کرتا ہوں۔ اس میں یہ بھی لکھا جائے گا کہ کتنی رقم آپ ایڈوانس دیں گے اور کتنی آئندہ کی کس تاریخ کو واجب الادا ہوگی۔ یہ جو رقم آپ ایڈوانس دے رہے ہیں اسے بیعانہ کہتے ہیں۔ رواج یہ ہے کہ اگر خریدار اقرار نامے کے بعد مکر جائے تو وہ دی گئی رقم سے محروم ہوجاتا ہے۔ اور اگر فروخت کنندہ مکر جائے تو اسے بیعانے کی رقم کا دوگنا ادا کرنا ہوگا۔

بیع کا یہ اقرار نامہ معمولی اسٹام پر نہیں لکھا جاتا۔ بلکہ یہ 1200 مالیت کے سٹام پیپر پر لکھا جاتا ہے۔ (اس کے ساتھ پلاٹ کی قیمت کے حساب سے معمولی فیس بھی ہوتی ہے) اس سب کا چالان آن لائن بھرا جاتا ہے۔ اس کے اجرا کے بعد پراپرٹی ڈیلر کسی وثیقہ نویس سے قانونی انداز میں تحریر لکھوا لیتا ہے۔ سٹام کے حصول اور وثیقہ نویسی کی کچھ معمولی اضافی فیس وصول کی جاسکتی ہے۔

یاد رکھیے کہ یہ اسٹام اپنی الگ قانونی اہمیت اور مقاصد رکھتا ہے، مگر آپ اصل رجسٹری (Sale Deed) سے پہلے قانونی کاغذات تیاری کی ریہرسل سمجھیے۔ اس میں کچھ چیزوں پر بطور خاص غور کرلیجئے۔

1. پلاٹ نقد پر بھی خریدیں تو کوشش یہی کی جائے کہ کم سے کم زرِ بیعانہ پر فریقین کا اتفاق ہو۔ تاکہ سودا منسوخی کی صورت میں غیر معمولی بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔ بقیہ رقم رجسٹری کے موقع پر ادا کی جائے۔ سٹام پر تحریر اسی کے موافق لکھوائیے.

2. اپنا اور فروخت کنندہ کا درست نام، شناختی کارڈ نمبر۔ (نیز آپ سٹام کو اس پر دیے گئے نمبر کے ذریعے ای سٹام ویب سائٹ
(https://es.punjab.gov.pk/eStampCitizenPortal/ChallanFormView/HomePageپر چیک کرسکتے ہیں

3. اسٹام پیپر لکھوانے سے پہلے تمام شرائط طے کرلی جائیں کہ رجسٹری کب ہو گی؟ رجسٹری اخراجات کون ادا کرے گا اور فرد برائے فروخت مہیا کرنا کس کی ذمہ داری ہے۔ (عموما رجسٹری اخراجات مشتری اور فرد برائے فروخت نکلوانے کے اخراجات بائع ادا کرتا ہے۔ تاہم اس بات کو طے کرلینا ضروری ہے) لکھے گئے سٹام پر اپنی تمام شرائط چیک کر لیجئے۔

4. اسٹام پر دئے گئے کھیوٹ نمبر، کھتونی نمبر اور خسرہ نمبر وغیرہ کو اصل فرد سے ملا کر دیکھ لیجیے۔ اگر اصل فرد بڑے پلاٹ کی ہے اور آپ کو اس کا اس کا کچھ حصہ فروخت کیا جارہا ہے تو اسٹام پر پلاٹ کی حدودِ اربعہ کی تعین اور محل وقوع بغور ملاحظہ کرلیجیے کہ آپ کے پلاٹ کی جہاتِ اربعہ (چاروں اطراف) کیا ہیں۔ اگر کہیں شک شبہ ہو تو اسٹام کے آخر میں وضاحتی تحریر لکھوا لیجیے۔ یہ سارا عمل دستخط سے پہلے کرنا ہوگا۔

5. دستخط کے فورا بعد قانونی اور شرعی طور پر آپ ایڈوانس رقم کی ادائیگی کے جبکہ دوسرا فریق پلاٹ پر قبضہ دینے کا پابند ہے۔

6. اس اقرار نامے کے آخر میں مقر (فروخت کنندہ)، مقر الیہ (خریدار) اور دو گواہوں کے دستخط اور انگھوٹے کے نشانات ثبت ہوں گے۔ ان تمام کے شناختی کارڈز کی فوٹو کاپیاں اس اقرار نامے کے ساتھ لگوائی جائیں۔

7. بہتر یہ ہے کہ پراپرٹی ڈیلر سے کہہ دیا جائے کہ اسٹام کی کچی کاپی آپ کو دکھائے بغیر پرنٹ مت کرے۔

[pullquote]تیسرا اور آخری مرحلہ: رجسٹری (Sale Deed)کی تیاری کا مرحلہ[/pullquote]

پلاٹ خریداری میں یہ آخری مرحلہ سب سے اہم ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جس کے ذریعے آپ کی ملکیت کا ریکارڈ سرکار کے پاس جائے گا۔ اس میں لمحوں کی غفلت سالہا سال پیشیوں کی صورت میں بھگتنی پڑ سکتی ہے۔ اس مرحلے کی تمام تر نگرانی آپ کو خود کرنا ہوگی۔ چند باتیں ذہن نشین رکھیے:

1. عموما بقایا جات کی ادائیگی کا طے شدہ وقت جب آتا ہے یا جب بھی آپ کے پاس رقم کا انتظام ہوجائے تو آپ اس کی ادائیگی سے پہلے پراپرٹی ڈیلر یا مالک کو فرد مہیا کرنے کا کہتے ہیں۔ (یہ فرد برائے بیع ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ عام فرد جو ریکارڈ کے لئے ہوتی ہے وہ رجسٹری کے لئے کارگر نہیں۔) فرد برائے بیع، لینڈ ریکارڈ کمپیوٹر سیکشن یا پٹواری سے مل سکتی ہے جس کا سرکاری ریٹ 500 روپے ہے (بھتے یا رشوت کی رقم اس میں شامل نہیں۔ تاہم کم از کم 500 آپ اس کا بھی شمار کرلیں۔)

2. مالک فرد برائے بیع حاصل کرنے کے بعد آپ کو اطلاع دیتا ہے۔ یہ فرد ایک ماہ کے لئے کارگر ہوتی ہے۔ آپ کو بھاگ دوڑ کر کے اسی کے دوران کچھ کرنا ہوگا۔ چنانچہ آپ رجسٹری کاغذات کی تیاری کے لئے کسی وکیل یا ماہر وثیقہ نویس کی خدمات لیں گے۔

3. ویسے تو ہر ہر موقع پر ناجائز منافع خوری عام ہے لیکن یہ موقع بطور خاص خریدار کے استحصال کا ہے۔ ایسے موقع پر پراپرٹی ڈیلر آپ کو کسی وثیقہ نویس کی طرف ریفر کرسکتا ہے جو ان کی باہم ملی بھگت سے ہوتا ہے۔ اگر وہ معقول معاوضہ لے رہا ہو تو اس کے تجویز کردہ وثیقہ نویس کی خدمات لینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اس کا اندازا آپ کو اسی وقت ہوسکتا ہے جب رجسٹری کے اصل اخراجات کا آپ کو علم ہو۔

4. رجسٹری اخراجات معلوم کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ سرکاری طور پر ہر علاقے کی زمینوں اور پلاٹوں کی مالیت مقرر کی گئی ہے۔ اسے ڈی سی ریٹ کہا جاتا ہے۔ اس ڈی سی ریٹ کا کل چار فیصد (نان فائلر کے لئے) یا تین فیصد (فائلر کے لئے) آپ کا سرکاری خرچہ ہے۔ (یہی خرچ پہلے بالترتیب سات اور آٹھ فیصد ہوا کرتا تھا لیکن اس وقت سٹام ڈیوٹی محض ایک فیصد کردی گئی ہے اور CVT بھی ختم کردیا گیا ہے)

5. ڈی سی ریٹ معلوم کرنے کے لئے آپ estamp ویب سائٹ پر جائیے۔ وہاں سے calculate DC valuation کا انتخاب کیجیے۔ براہ راست لنک یہ ہے :
(https://es.punjab.gov.pk/eStampCitizenPortal/ChallanFormView/RateOfChallanView?name=PropertyDCValuation&vCount=8148045)
یہاں فرد کے مطابق آپ پراپرٹی کی تفصیلات کا اندراج کریں۔ آپ کو ڈی سی ریٹ معلوم ہوجائے گا۔ اس کا واجب الادا فیصدی حصہ آپ خود نکال لیجیے۔
جسے یہ طریقہ مشکل لگے وہ دو چار وثیقہ نویسوں سے پوچھ لے کہ کل کتنی رقم لیں گے جس میں سے رجسٹری کی مالیت کتنی ہے اور ان کا اپنا معاوضہ کتنا ہے۔ اس فرق سے آپ کو اندازا ہوسکتا ہے۔

6. کل خرچ معلوم کرنے کے بعد ہی کسی وثیقہ نویس سے معاملات طے کیے جائیں۔ اس سے اس کا معاوضہ طے کرنے میں سہولت رہے گی۔ معاوضہ طے کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھیے کہ اس میں وہ اپنی خدمات کا معاوضہ بھی لیتا ہے، کاغذات کی کاپیوں وغیرہ پر اٹھنے والی اخراجات بھی اور اگلے تمام مراحل پر دی جانے والی رشوت بھی اکٹھی وصول کرلیتا ہے۔ اس کی اپنی خدمات اور حقیقی اخراجات کا معاوضہ 2000 روپے کم وبیش دے سکتے ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق اگلے تمام مراحل میں دی جانے والی رشوتوں کا خرچ تقریبا 3000 روپے ہے(جو آپ کے اثرورسوخ سے کم وبیش ہوسکتا ہے) یوں کل رجسٹری کے کل اخراجات پر 5000 روپے آپ کو دینا ہی ہوں گے۔ (ان میں سے کچھ آپ کو قیامت کے دن ریفنڈ ہوجائیں گے)

7. کاغذات کی تیاری میں وہی اصول مدِ نظر رکھے جائیں جو اس سے پچھلی پوسٹ میں بتائے گئے۔ بلکہ یہاں مزید چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ وثیقہ نویس سے کچی کاپی ضرور طلب کریں۔ اپنا نام، شناختی کارڈ نمبر، پلاٹ کی تفصیلات، فرد کے مطابق کل مالکان کا درست اندراج (جن کے بیانات ہوں گے)۔ یہ آپ نے اپنی ذمہ داری پر چیک کرنا ہوگا۔ ورنہ رواج یہ ہے کہ کچھ غلطیاں یہ پٹواری اور وثیقہ نویس بطور وراثتی تحفہ اپنے اگلوں کے لئے چھوڑ جاتے ہیں۔ جیسا کہ یہ ایسے تحفے اپنے پچھلوں سے وصول کرتے ہیں۔

8. کاغذات جب تیار ہوجائیں تو بیانات کا مرحلہ آتا ہے۔ اگر آپ پہلے یہ کاغذات نہیں پڑھ سکے تو اب پڑھ لیجیے۔ بہت سے سادا مزاج خریدار ایسے ہوتے ہیں جنہیں اس کی کچھ سمجھ نہیں ہوتی۔ سارے معاملات پراپرٹی ڈیلر کروا رہا ہوتا ہے۔ کاغذات کی تیاری کے بعد ہی وہ دستخط یا نشان انگوٹھے کے لئے وثیقہ نویس سے ملواتا ہے۔ اور وثیقہ نویس اس کے آتے ہی سلام دعا کے بعد فوری طور پر اس کے دستخط یا انگھوٹھا لگوالیتا ہے۔ کورٹ، کچہری، کالے کوٹ اور چرب زبان لوگوں سے مرعوب یہ سیدھا سادا شخص ہر حکم کو کسی فرمانبردار خادم کی طرح مانتا چلا جاتا ہے۔ ایسی غلطی ہرگز نہ کیجیے، اگر آپ خود ان پڑھ ہیں تو کسی پڑھے لکھے کو ساتھ لے جائیے اور ہر چیز کو اچھی طرح پڑھ کر دستخط کیجیے۔

9. بیان کے لئے اصل مالک یا اس کے مختار عام کو کچہری یا متعلقہ جگہ پر خود آنا پڑتا ہے۔ یہاں کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ کے لئے آپ کی ڈیجٹل فوٹو وغیرہ لینے کے بعد بیانات کا عمل ہوگا۔

10. اس کے بعد رجسٹری کا عمل مکمل ہوجائے گا کچھ دن بعد آپ کو رجسٹری کی ایک کاپی مل جائے گی جس پر انتقال کروایا جاسکتا ہے۔ انتقال فیس 1000 روپیہ الگ سے ہوتی ہے لیکن رشوت سمیت 2000 بن جاتی ہے۔ جب رجسٹری کے معاملات طے کیے جائیں تو انتقال فیس کے بارے میں وضاحت کروالی جائے کہ اس میں شامل ہے یا نہیں۔ بس یہ کل اخراجات ہیں۔ ان تمام پر جب اتفاقِ رائے ہوجائے تو اپنے اطمینان کے لئے ایک تحریر الگ سے لکھوا کر اس کے دستخط اور انگوٹھا لگوالیا جائے کہ رجسٹری مع انتقال، کل اخراجات ادا ہوچکے ہیں اور اب مزید کسی رقم کا آپ سے مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔

انتقال کا عمل مکمل ہونے کے بعد ریکارڈ کے لئے اپنی فرد حاصل کرلیجیے۔ مبارک ہو آپ پلاٹ کے مالک ہیں۔ اب پلاٹ پر قبضہ مستحکم کرنے کی کوشش کیجیے۔
(آخر میں ایک بات یاد رکھیے۔ یہ خیرخواہی کے لئے بتا رہا ہوں، کسی کی دل آزاری مقصود نہیں۔ زمین خریداری کے عمل میں جتنی مخلوق سے واسطہ پڑے گا، وہ آپ کا عزیز ہو، دوست ہو یا کولیگ۔ نیک ہو یا بد، بھلے داڑھی ٹوپی اور پیشانی پر سجدے کے نشانات سجائے ہوئے ہو، کسی پر اعتماد کر کے غلطی مت کیجیے۔ ورنہ نقصان کے آپ خود ذمہ دار ہیں۔ اپنے معاملات کو خود دیکھیے، پتا ہونے کے باوجود مشاورت کیجیے اور اللہ سے ہر ہر موقع پر خیر مانگتے رہیے ان شاء اللہ آپ کوپشیمانی یا پریشانی کا سامنا نہیں ہوگا۔)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے