امریکہ کی عالمی ادارہ صحت سے علیحدگی

اس وقت پوری دنیا میں کووڈ۔۱۹ کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ لاکھوں قیمتی جانیں اس خطرناک وبا کا لقمہ اجل بن چکی ہیں اورکروڑوں لوگ اس وائرس سے متاثر ہوکر بیمار ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال میں عالمی ادارہ صحت اور دیگر عالمی تنظیموں کی اہمیت پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ وبا پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ معاشی اور سماجی چیلنجز درپیش ہیں، جن سے نمٹنے کیلئے پوری دنیا کو اتقاق ،اتحاد، مشترکہ لائحہ عمل اور ساتھ مل کر چلنے کی زیادہ ضرورت ہے ۔ ایسے میں امریکہ کی طرف عالمی ادارہ صحت سے علیحدگی کا باضابطہ اعلان پوری دنیا کیلئے ایک دھچکے سے کم نہیں ہے۔

چھ جولائی کو امریکہ نے باضابطہ طور پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو  مطلع کیا کہ وہ اگلے سال جولائی میں عالمی ادارہ صحت سے علیحدہ  ہوجائے گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ایچ او میں امریکہ کی شرکت کے وقت طے شدہ شرائط کے مطابق امریکہ ایک سال قبل درخواست پیش کرکے اور اپنی مالی ذمہ داریوں کو پوری طرح ادا کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او سے باضابطہ طورپر علیحدہ ہوسکتا ہے اور اس وقت امریکہ پر عالمی ادارہ صحت کے بیس کروڑ امریکی ڈالر سے زیادہ رقم واجب الادا  ہے ۔

بہت سے ممالک کے ماہرین اور سیاستدانوں  نے ٹرمپ حکومت کے اس اقدام پر تنقید  کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکومت کا یہ اقدام غیر دانش مندانہ ہے ۔ اس سے نا صرف عالمی سطح پر وبا  کی روک تھام کے لیے کی جانے والی  مشترکہ کوششیں کمزور ہوں گی بلکہ امریکہ کے اندر بھی وبا پر قابو پانے کی کوششیں متاثر ہوں گی۔ اورایسا کرنا دنیا کے ایک بڑے ملک کے طور پر بھی امریکہ کی حیثیت اور ذمہ داری کے منافی ہے۔

سات جولائی کو امریکی سینیٹ کی  کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے نائب  چیئرمین رابرٹ مینینڈیز نے  کہا کہ ٹرمپ کے اس  اقدام سے نہ تو امریکی عوام کی جانوں کا تحفظ ہوگا اور نہ ہی ملک کے مفادات کا تحفظ ہوگا بلکہ یہ امریکی عوام کو مزید بیماری کا اور خود امریکہ کو مزید تنہائی کا شکار کرے گا ۔  امریکی ایوان نمائندگان کے رکن ایرک سویول نے بھی سات جولائی ہی کو سوشل میڈیا پر  بیان دیا کہ امریکہ کا ڈبلیو ایچ او سے دستبرداری کا فیصلہ غیر ذمہ دارانہ  اورمکمل طور پر سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس غیر ذمہ دارانہ فیصلے سے امریکی مشکل کا شکار ہوں  گے۔

اقوام متحدہ  فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن  اور سی ای او الزبتھ کزنز  نے  کہاکہ "ڈبلیو ایچ او سے ٹرمپ انتظامیہ کی باضابطہ علیحدگی غیرضروری اور بے حد خطرناک ہے۔” جبکہ روس کے خیال میں امریکہ کے اس اقدام نے عالمی صحت کے شعبے میں  بین الاقوامی تعاون  کی اساس کو نقصان پہنچایا ہے  ۔

تجزیہ نگاروں کے خیال میں امریکی حکومت کا عالمی ادارہ صحت سے علیحدگی  کی اصل وجہ وبا کی روک تھام و کنٹرول میں ناکامی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنا ہے ۔ اسی سال نومبر میں امریکہ میں صدارتی  انتخابات منعقد ہورہے ہیں جبکہ دوسری ٹرم کے خواہشمند موجودہ صدر ٹرمپ کو ووڈ-۱۹  کے مقابلے میں  ناکامی پر  تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔ اپنی ذمہ داری سے بچنے کے لئے  ٹرمپ نے  بارہا چین  پر کورونا وائرس کے پھیلاو کا ملبہ ڈالنے کی کوشش کی  ۔ تاہم جب ان کی یہ کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوئیں تو انہوں نے اپنی توپوں کا رخ  عالمی ادارہ صحت کی طرف موڑ لیا تاکہ  ملک میں  وبا کی تشویشناک  صورتِ حال کی ذمہ داری سے خود کو مبرا ثابت کریں ۔

اس وقت وبا کا پھیلاو بدستور پوری دنیا میں جاری ہے ۔ ایسے میں قیمتون جانوں اور مریضوں کو بچانا سب ممالک کی اولین ترجیح ہونی چاہیے ، جس کے لیے  تعاون کو فروغ دینا تمام ممالک کا مشترکہ فرض بنتا ہے۔

ایسے میں امریکی انتظامیہ  کا اپنے عالمی کردار سے پیچھے ہٹنا اورعالمی ادارہ صحت سے علیحدہ ہونا مایوس کن ہے  اس سے بین الاقوامی اصولوں ، نظم و نسق  اورتعاون کو نقصان پہنچ رہاہے ، دنیا کے   تمام ممالک  کے لوگوں کی فلاح و بہبود پر منفی اثر پڑ رہاہے  ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ اپنے  ملک کے اندر بھی انسداد وبا  کی ذمہ داری نبھائے۔ اور بین الاقوامی سطح پر بھی انسانی ہمدردی کی ذمہ داری سنبھالے ۔ آج کی دنیا میں کوئی ملک تنہا نہیں رہ سکتا ۔ عالمی تنظیموں سے خود کو علیحدہ کرنے سے دنیا کو تو نقصان پہنچے گا ہی تاہم امریکہ کو خود بھی اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے