محبت کرکے دیکھو نا محبت کیوں نہیں کرتے

سماجی دوری اور سماجی فاصلے کا تصور پہلے دن سے ہی نیا چیلنج اور وجود کا امتحان بن کے ٹوٹا۔یوں بھی گزرتا دن گزرہی جاتا ہے اور یوں ہی جو گزری وہ گزری۔ نیا امتحان سر پہ تلوار بن کھڑا رہا۔ سو فیصد کوشش کے شوق میں کئی بار مذاق بھی بن بیٹھا اور کئی بار حوصلے ہار کے بھی بیٹھا لیکن میں بیٹھ گیا تو وقت اٹھ کھڑا ہوا۔

معمول بھی بڑے عجیب تھے۔موٹر وے پر سفر کی طرح رفتار کی حد مقرر کردی گئی کہ اس سے کم رفتار پر جینے کے قابل نہیں ہیں۔ جینا ہے تو رفتار پکڑنا ہوگا ورنہ شاید تیری وجہ سے اور لوگ بھی اس زندگی کے حادثے کا شکار ہوں گے۔پھر کیا تھا کہ پچھلی داستان پھر بھلابیٹھا۔ سفر، منزل اور رفتار پر نظریں اس تیر کی مانند جم گئیں جسے پوری طاقت کے ساتھ نصب کردیا گیا ہو یا گاڑھ دیا گیا ہو۔ ایک سے فکر ہٹ گئی تو دوسرے پر لگ جاتی جہاں سے ہٹانے کو توانائی درکار تھی، جس کا نقصان بدلتے صبح و شام کی صورت ہمسفر ہوگئی، اور ازالے کی ایک ہی صورت تھی وہ اگلی صبح اور شام۔چند لمحات ہی اس رفتار بھری زندگی میں گزرے ہوں گے جس میں عین طبیعت کسی اور جانب مائل ہوئے ہوں۔ اس گہرے چوٹ اور زخم زدہ کیفیت کو بمشکل برداشت کرلیا اور رفتار کو بطور معمول اپنا ہی لیا، کہ اچانک منزل بدل گئے، مسافر راہ بدل گئے، رفتار تھم گئی جیسے بیچ سمندر میں تیراک کو اطلاع دی گئی کہ اس سمندر کے پار ہی دوسرا سمندر بھی ہے۔

وقت بہت ظالم ہے اس قدر کی جسم کو نوچ کھاتا ہے اور مرہم لگانے کو مہلت نہیں دیتا ہے۔اس کا نقصان بھی وقت اور ازالہ بھی وقت ہے جسے کاندھے پر لادھ کے صرف رویا جاسکتا ہے۔ تصورات بدلتے ہی دل دماغ سے بحث چھڑگئی، کمزور جسم کے مقابلے دونوں اعصاب طاقت کا مظاہرہ کرتے رہے تاہم سامنے اندھیرا ہونے پر انہوں نے اپنی آواز اس شرط پر نحیف کرلی کہ دوری میں زکر ہمارا ہو، یوں دوری سے قبل ہی روزگار میسر آیا مگر بھیڑ آڑے آتی گئی۔

شرط پوری کرنے کہاں کہاں نہ پھرا، بیچ شہر کے تنہائی اختیار کرنے کی جستجو کرلی اور ہر روز شہر کے چوراہے پر نظر رکھی کہ کب یہ دوری کا موقع دے گا۔چوراہا ہے بھی عجیب، سنسان ہوکے بھی اپنے وجود کی موجودگی کا اعلان کرتا ہے۔ کبھی دریا کی لہریں ہوائیں بیچتی ہیں، کبھی وسیلہ روزگار کوئی وسیلہ یا روزگار ڈھونڈتی ہے، کبھی ہوا کے دوش پہ عبادت کا مقابلہ ہوتا ہے، کبھی تنہائیوں کے شوقین تنہائیوں میں خلل ڈالتے ہیں، کبھی پرندے اپنی ہجرت کا قیام کرتے ہیں کبھی آوارہ کتے قائم اپنا راج کرتے ہیں۔چند لمحوں کو بھی اس عمل کی توفیق کے تکمیل کی توفیق نہیں ہوئی۔ خدا جانے یہ لوگ آرزوئیں کیسے پالیتے ہیں، کوئی مزار مستعار لیتے ہیں یا کوئی عبادت گاہ ادھار لیتے ہیں۔ کسی صوفی کی بانسری، ستار لیتے ہیں یا کوئی مقدس دستار لیتے ہیں۔ جنگلوں کا بھی اپنا قانون ہے، پرندے پر مارتے ہیں تو شاید اپنی باری پہ ہی۔شجر، سایہ، شور، روشنی،اندھیرا، بادل، پانی، بارش، مسکن، گھونسلے بھی اسی دستور کے پابند ہیں تو کوئی تنہائیوں کی مرکز کیسے قرار دے، انسانوں کو پناہ نہ دینے کا ایک معاہدہ بھی دکھایاتوجیسے کوئی میت سامنے رکھی گئی اور رونے کا حکم دیاگیا۔دل پہ جو گزرتی ہے بیاں ہو نہیں پاتی ہے۔ ہر قدم ایک داستان لئے پھرتی ہے۔ ہجوم سے گھبراہٹ کا عالم یہ ہے کہ گھبراہٹ کا اظہار بھی نہیں ہوتا ہے۔جیسے احمد فراز نے کہا تھا کہ
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا

تنہائی کی عملی تصویر کہیں مل نہیں سکتی ہے۔جہاں پر بندہ خود پر بیتی آپ بیتی کو دہراسکے، ان جڑوں کو دیکھ سکے جو سوکھ گئے ہیں یا مسلسل پانی میں رہتے ہوئے اجڑ گئے ہیں۔ مڑکر سراب دیکھنے کا یہ لمحہ کسی کو میسر نہیں۔ یہ ماضی اور تاریخ سے سبق بھی لینا نہیں ہوتا تو اس کا بھلا کردار کیا ہوتا؟ ہر فرد خود کو کندن سے گزراہوا اینٹ سمجھ بیٹھا ہے جہاں وہ ٹوٹ تو سکتا ہے لچک سکتا نہیں ہے۔ لمحات بکھرے پڑے ہیں، ایک لمحہ بھی زات کے لئے گزرنے کو نہیں تیار۔ خدا گواہ اگر خواب کی نعمت بھی نہیں ہوتی تو انسان کسی زندان کا باشندہ قرار پاتا۔

اسی خواب نے تنہائی کے خواب کو عملی جامہ پہنادیا جس پر شرمساری ہے۔ وہی لمحات خوشگوار باقی ہیں جنہیں خوشگوار گزارا ہے۔ کسی اور کا عمل دخل نہیں ہوتا تو ہر لمحہ خوشگوار گزرسکتا تھا مگر سبھی لمحات اوروں کے زخم سے چور تھے۔ حالات کو کسی بھی وقت پلٹا جاسکتا ہے بھلے کوئی کندھے پر تھپکی دینے والا بھی نہ ہو مگر کسی ایک راہ کاٹنے والے کی موجودگی سے صدیاں بھی گھبراہٹ کے عالم میں چلے جاتے ہیں۔تنہائی کے اس پہر میں احساس ہوا کہ اوروں کا بھی وہ لمحہ میرا تھا جس میں وہ مسکراگیاجو شورش میں مشغول طبیعت کی سرمستیوں کو آسودگیوں سے نکال کھینچ لائی۔ مجھ پر یہ منکشف ہوا کہ میرا مسکرانا مجھ پر اوروں کے لئے واجب ہے۔میرے قرضوں کی فہرست میں طویل تھی، جہاں لہجے اور رویے لمحوں کو کسی عذاب کی طرح گھیرے ہوئے تھے۔ ایک سیکنڈ کے کروڑ حصے کرکے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ یہ حصہ کیسا گزرا ہے۔ اس قدر بوجھل لمحے گزرے۔ وہ جو لہجوں اور رویوں کے کھلاڑی ہیں، نہ جانے کیسے کسی کی زندگی کو برباد کردیتے ہیں، انہیں خبر نہیں شاید کہ انہوں نے خود کئی گنا زیادہ عذاب اس کا سہنا ہے۔عجیب عالم ہے کہ زندگی پوری دکھوں کی دوکان بنی ہے۔ کئی لمحے، کئی دن رات بھکاریوں کی مانند کھڑے ہیں جن کا حق ادا نہیں ہوا۔ میں دب جاؤں گا ان کے قرضوں تلے۔ یہ عیش و عشرت تو نہیں فقط حسرت ہے، وہ حسرت جو پوری ہوبھی سکتی تھی۔نفرت اور زہر میں ڈوبے لمحات خود کے لئے بھی المیہ ہیں اوروں کے لئے بھی عذاب۔جو گزری وہ دیکھنے کو لغزشیں سہنے کی ہمت درکار ہے۔ وہ سبیل ہے ہی نہیں جو اس پر نادم ہوسکے۔

میرے پاس وہ چھڑی بھی ہے جس سے میں آنے والے وقت میں جھانک سکوں، مگر آنے والے وقت میں ہے کیا؟ یہی سبق کہ جن رویوں اور لہجوں سے تم چور چور ہو ان کوموڑ کر مسکان بحال کردو۔ مجھ پر حق ہے ہر اس چیز کا جس سے میں مستفید ہوتا ہوں، ہر اس چیز کا جس سے میرا واسطہ پڑتا ہے۔ مجھ کو نکلنا ہوگا زرا اپنی زات سے۔اوروں کے مصائب، مشکلات اور آزمائش کو سمجھ سکوں۔میں توڑ دوں ان دلائل کو جو مجھ کو میرے زات تک محدود کردیتے ہیں۔اس خمار کا تعاقب کرنا ہوگا جس نے نفرت کی چنگاری پیدا کی ہے۔ انسان میں وہ خصلت نہ رہے جس سے انسان بنتا ہے تو کیوں نہ اعلانیہ بغاوت کرکے ان حقوق سے بھی دستبرداری کرے۔ اخلاقیات کے سواد اعظم بھی کسی میں سرایت نہیں کرسکتے تو بیکار ہے یہ کارگاہ سودوزیاں۔میں بااختیار ہوں کہ انتخاب کرسکوں اپنے لائحہ عمل کا، مگر یہ طمع اس قدر کیوں معراج پہ ہے کہ کسی کی تکلیف کا خیال نہ رکھوں۔میرا انتخاب محبت کیوں نہ ہوکہ خود بھی خوش رہ سکوں اوروں کو بھی مسکراتا دیکھ سکوں۔میری مسکان کسی کو برداشت نہیں ہے تو اس اختراع کا علاج نہیں ہے۔ یہ بے راہ روی بھی تو یونہی نہیں ہے کہ اس کے پیچھے میری کارگزاری ہے۔

پسینہ سے شرابور بدن لئے اٹھ کھڑا ہواتو یہ خوشی بھی تھی کہ وہ خواب پورا ہوا مگر جو دیکھا اس سے نس نس کراہ رہی تھی۔ درد رگوں تک اتر آیا تھا۔نفرتوں کی آگ سے آنکھوں میں شعلے بنے تھے۔ مجھے فرحت احساس کا یہ شعر یاد آیا کہ
علاج اپنا کراتے پھررہے ہو جانے کس کس سے
محبت کرکے دیکھو نا محبت کیوں نہیں کرتے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے