ام رباب چانڈیو کیس: تصویر کا دوسرا رخ

دوسرا حصہ

بائیس سالہ خوش شکل، پڑھی لکھی ایک دوشیزہ، اپنے خاندان میں ہونے والے تہرے قتل پر سوشل میڈیا اور پھر الیکٹرانک میڈیا پر نمودار ہوتی ہے۔ کبھی آنکھ میں آنسو، کبھی ننگے پاقں، کبھی چیف جسٹس کی گاڑی کے سامنے ٹکراتی ہے تو کہیں لالٹین اٹھاتی پریس کانفرنس کرتی ہے۔ کہیں اس کو سندھ کی بیٹی بنانے کی کوشش کی جاتی تو کہیں سرداری نظام کے خاتمے کی آڑ لے کر چانڈیہ قبیلے کے سردار پر ذاتی حملے کئے جاتے ہیں۔ ان سب کے مقاصد سے بین آپ کو اپنی تحقیق سے آگاہ کرتے ہیں اور اس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ آخر تصویر کا دوسرا رخ کیا ہے۔

ام رباب ٹی وی شوز میں کہتی ہیں کہ قتل کے وقت رکن سندھ اسمبلی برہان خان چانڈیو جائے وقوع پر موجود تھے اور انہوں نے تینوں قتل کئے تاہم جس وقت قتل ہوئے، برہان خان چانڈیو پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا پر لائیو تھے اور بلاول بھٹو اور وزیراعلی سندھ کو جائے وقوع سے سات گھنٹوں کے فاصلے پر حاجی صوبو محمد خان چانڈیو کے گاوں ضلع ٹنڈو محمد خان میں جلسے کے لئے ریسیو کررہے تھے، اس کی ویڈیو اس وقت اکثر ٹی وی چینلز نے چلائی، دوسرے ملزم رکن سندھ اسمبلی سردار خان چانڈیو جائے وقوعہ سے ستر کلومیٹر دور اپنے فارم ہاؤس پر غیر ملکی مہمانوں کے ہمراہ تھے، ایف آئی آر کے مطابق ایک اور ملزم علی گوہر اس وقت آدھے گھنٹے کی مسافت پر اپنے گاؤں مرزا واہ کی اوطاق میں تھے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ہونے والے تین قتل کا محرک کیا تھا اور یہ سردار بیچ میں کیسے آگئے اور آخر ایسا کیا مسئلہ ہے کہ سردار برہان خان چانڈیو کی جائے وقوعہ پر عدم موجودگی کے ناقابل تردید ویڈیو ثبوت کے باوجود ان کی وقوعے پر موجودگی کی کہانی بیان کی جاتی ہے۔

کوئی پوچھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا کہ ام رباب جس انصاف کے لئے جدوجہد کا دعوی کرتی ہے وہ ہے کیا؟ ام رباب کی ایف آئی آر بھی درج ہے۔ سندھ حکومت حیدرآباد سے ایک نیک نام ایس پی بھی تعینات کر چکی ہے، تفتیش بھی جاری ہے لیکن ام رباب کے ذریعے دراصل ضد یہ کی جاتی رہی کہ مقدمہ سیشن کی بجائے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے۔ یہ ہی ضد لے کر زبردستی وہ سابق چیف ثاقب نثار کی گاڑی کے سامنے آئیں اور قتل کی تفتیش نہیں بلکہ اے ٹی سی میں کیس چلانے کا فیصلہ کروانے کے لئے سپریم کورٹ میں اپیل کر دی۔ حالانکہ سراسر یہ دشمنیوں میں ہونے والے قتل تھے۔ پھر سیاسی خاندانی جھگڑے کو دہشت گردی کا رنگ دینا، پھر منشیات سے لے کر قتل و دوسرے جرائم کے الزامات والے کرداروں کو مظلوم بنا کر پیش کرنا، سوشل میڈیا پر ایک منظم کیمپین چلانا وغیرہ وغیرہ، یقینا پس پردہ ایسی طاقتیں ہیں جو صرف سردار خان چانڈیو کو نیچا دکھانا چاہتی ہیں۔

آج ام رباب کہتی ہے کہ وہ سرداری نظام کے خلاف نکلی ہے حالانکہ وہ خود اسی فیوڈل نظام او شاہانہ لائف سٹائل سے تعلق رکھتی ہے۔ اور آج تک انہوں نے کسی اور صوبے یا اپنے صوبے میں کسی سردار کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ ام رباب سردار خان چانڈیو کے محض نشانہ بازی بطور شوق اور کھیل، اجازت یافتہ غیر ملکی شکار اور قانونی تحفظ کے حق کو ظلم و ستم کہ علامت اور ہتھیاروں کی تصاویر کو نفرت کا نشان بنا کر سوشل میڈیا پر پیش کرتی ہے۔ اور خود اس کا بھائی صدام حسین چانڈیو سندھ بھر میں سرعام اسلحے کی نمائش کرتا ہے۔ جو شاید لائسنس ہافتہ بھی نہیں۔ اور دوستو، منافقت صرف یہاں ہی ختم نہیں۔ عالیشان محلوں جیسی سہولیات رکھنے والی اپنے والد کے قتل کا محرک جس تمن داری کونسل کو بناتی ہے وہ کوئی ووٹ سے آنے والا نظام نہیں بلکہ ایک چیف کی منتخب کردہ کونسل ہوتی ہے جو کرتی وہی ہے جو سردار چاہتا ہے۔ یہ محض اقتدار اور لوگوں پر اختیار کی شکل ہے اور کچھ نہیں۔

دوسری طرف سردار خان چانڈیو کی نہ صرف قبیلہ داری تھی بلکہ دونوں گھروں کا آپس میں آنا جانا تھا۔ وہ آج بھی ام رباب کو اپنی بیٹی کہتے اور سمجھتے ہیں۔ ام رباب کو استعمال کر کے دو سال سے جاری سوشل میڈیا کیمپین اور میڈیا ٹرائل کے جواب میں سردار خان چانڈیو نے کبھی ایک لفظ ایسا نہیں کہا جو ایک سردار کی شان کے خلاف ہو۔ اور یہ سرداری کوئی حکومت نہیں، پاکستان بھر میں پھیلے چانڈیہ قبیلے کی مرکزیت کی علامت ہے ایک عزت کا عہدہ ہے جو یہ قبیلہ اور برادری مل کر کسی کو دیتی ہے۔ سردار غیبی خان سے یہ ورثہ نسل در نسل سردار خان چانڈیو تک منتقل ہوا ہے۔

ام رباب دوسری طرف پیپلز پارٹی پر بھی وار کرتی ہے۔ پورا پاکستان متفقہ طور پر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو سندھ کی بیٹی مانتا ہے لیکن یہ ٹائٹل چرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مختلف فورم، انسانی حقوق کی تنظیموں، سرگرم ایکٹیوسٹ لوگوں سے ملنے اور تصویریں ڈالنے کا یہ مطلب نہیں کہ ام رباب کی کہانی سچی ہے۔ یقینا قتل ہوئے ہیں لیکن خدارا یک طرفہ میڈیا ٹرائل کی بجائے پولیس کو تفتیش کرنے دی
جائے۔

کچھ باخبر ذرائع یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ام رباب یا مقتولین کی فیملی ڈیل کر ہی ہے پاس پردہ اور بہت بڑی ڈیمانڈ ہے ان کی طرف سے۔ تو بعض اوقات ایسی مہمات کا محور صرف اور صرف اپنے لئے ہائپ بنا کر زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا اور پھر ایک دن جذباتی عوام کو چھوڑ کر نکل جانا ہوتا ہے۔

لیکن صد شکر یہ سپریم کورٹ دو سال سے جاری یک طرفہ میڈیا ٹرائل سے متاثر ہوئے بنا، فیصلہ کر چکی ہے اور ام رباب کیمپین کے برعکس، اس کا یہ موقف رد کیا کہ یہ دہشت گردی ہے۔ اس کو آپس کا جھگڑا تسلیم کرتے ہوئے کیس کو واپس سیشن کورٹ دادو بھیج دیا ہے۔ انصاف ضرور ہونا چاہیے، ام رباب لیکن کبھی یہ نہیں بتاتی کہ دو ملزمان گرفتار بھی ہیں اور انہوں نے کبھی سردار خان چانڈیو یا برہان چانڈیو کا نام نہیں لیا۔ جب کہ دو مفرور ہیں۔ انصاف کی جستجو لیکن محض پراپیگینڈے کا شکار ہو کر ہم طرفہ کہانی پر یقین نہ کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے