پانچ اگست نے منقسم ریاست جموں کشمیر کی تاریخ میں ایک اور دن منانے کا اضافہ کردیا جس دن سال 2019 میں ہندوستان نے اس کے زیر قبضہ ریاست جموں وکشمیر کے آئین کو ختم کر کے ہندوستانی آئین نافذ کردیا جس کے ساتھ ہی ”ریاستی باشندہ” ہونے کی ایک نفسیاتی شناخت اور اس سے منسلک وہ تمام آئینی ترمیمات بھی ختم کردیں جو اس کے تسلسل میں دفعہ 370 کے تحت ریاست میں علامتی خود مختاری کے طور نافذ تھیں- اسی سال 31 اکتوبر کو اس کی جغرافیائی وحدت اور سیاسی حیثیت ختم کر کے اس کو دو ”یو نین ٹیریٹریز” یعنی (مرکز کے زیر انتظام علاقوں) جموں وکشمیر اور لداخ میں تقسیم کرکے ان ہی خطوط پر نیا سیاسی نقشہ جاری کردیا- سینکڑوں مقامی قوانین منسوخ کر کے اس سے دوگنا مرکزی قوانین نافذ کردیے – ساتھ ہی شدومد سے یہ اعادہ اور عمل کرنا بھی شروع کردیا کہ آزاد کشمیر اور گلگت پاکستان ناجائز قبضہ سے خالی کرانے ہیں-
قومی حمیت اور اقتدارِاعلیٰ کے اظہار کے لیے ریاستوں کو ہر وقت ہر طریقہ سے چو کنا اور اس کے دفاع یا حصول کے لیے مستعد رہنا پڑتا ہے- اس خطے میں چین اور نیپال اس کی کلاسیکل مثالیں جنہوں نے ہندوستان کے مقبوضہ حصے اپنے نقشے میں شامل کیے ہیں – چین اروناچلُ پردیش ، لداخ اور دیگر شمال مشرقی ہندوستانی مقبوضہ علاقوں میں میلوں اندر داخل بھی ہو گیا ہے ، ہندوستان ریاست کے پاکستان زیر انتظام علاقوں کا آئینی طور دعویدار اور حصول کے لیے آمادہ جنگ بھی ہے جبکہ پاکستان آج تک زبانی کلامی ، وہ بھی معذرت خواہانہ طور ریاست کے ہندوستانی مقبوضہ حصے کا دعویدار تھا ، اب واضح علامتوں، جس میں ملکی نقشہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ، کے ذریعہ میدان میں آیا ہے، یہ خوش آئند ہے-اس پر ثابت قدمی اور مستعدی دکھانا پڑے گی-
بین الاقوامی قانون کے تحت ملکوں کے باہمی تعلقات اور قومی موقف برابری کی سطح پر چلتے ہیں اور اختلافی معاملات اگر باہمی گفت شنید کے تحت سلجھ نہ پائیں ، تو ان امور پر مخالف ریاست کے ہر قدم کے خلاف اسی نوعیت کا جواب بھی دیا جاتا ہے ، جسے بین الاقوامی سفارت کاری میں ”ادلے کا بدلہ” (Tit for tat) کہتے ہیں-
ہندوستان نے 5 اگست 2019 سے پہلے ہی کشمیر کی ہر سوچ کی مسلمان قیادت کو جیلوں میں بھر دیا تھا یا نظر بند کردیا تھا جن میں ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے اٹا نومی اور سیلف رول مانگنے والے ہندوستان کے نام لیوا تین وزراء اعلیٰ بھی شامل ہیں- فوری ردِعمل کے طور پاکستان کو کیا امر مانع تھا کہ ان کو آفر کرتے کہ ”جس سطح کی اٹا نومی یا سیلف رول وہ ہندوستان سے مانگتے ہیں ہم آپ کو دینے کو تیار ہیں ” ؟؟؟ وادی کی صورت حال ہی بدل جاتی ، ہندوستان کے غبارے سے ہوا نکل جاتی-
ہندوستان کے اقدامات کے تناظر میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پانچ اگست کے فورا بعد ، پاکستان کو اپنے آئین میں ترمیم کر کے پوری ریاست جموں و کشمیر کو قانون آزادی ہند ، معاہدہ قائمہ اور قرار داد الحاق پاکستان کی روشنی میں سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے فیصلہ کے تابع اپنا حصہ ظاہر کر کے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو پوری ریاست کی نمائندہ کی حیثیت سے تسلیم کرتا جو آزاد کشمیر حکومت کی اساس کے دن تھی- بصورت دیگر تابع حتمی فیصلہ ریاست ، صوبے بنائے بغیر ، صوبے کے برابر اختیارات دے دیتا ، اور 31 اکتوبر کے فورآ بعد پاکستان کو وہ سرکاری نقشہ جاری کرنا چاہیے تھا جو 5 اگست کی مناسبت سے جاری کرتے ہوئے پوری ریاست جموں و کشمیر کو ” سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے فیصلہ کے تابع” اپنا حصہ دکھانا چاہیے تھا، نہ کہ ” متنازعہ ” – اس کے باوجود اچھا ہے ، کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے – اس حقیقت کا پاکستان نے ادراک کیا کہ کشمیر پر مستعدی سے با معنی کام کر نا ہے –
ایک سال کے تغافل کے بعد سفارت کاری کی زبان میں ہی ”اسلام آباد تا لیہہ نیشنل ہائی وے”کا بورڈ آویزاں کر کے ” کشمیر ہائی وے” کے بجائے اس کا نام ،”سرینگر ہائی وے” رکھا گیا ہے – بورڈ آویزاں کرنا خوش آئند ہے ، یہ ارادے کا اظہار ہے اور زمانے بعد یہ خوش آئیند تبدیلی دیکھنے میں آئی- ”کشمیر ہائ وے” ایک جامع نام تھا ، جس میں پوری ریاست سمائی ہوئی تھی- ”سرینگر ہائی وے” سے ”جموں” غائب ہو گیا ہے، یہ دانستہ ہے یا نا دانستہ ، یا جموں کی نسلی آبادی کے پیش نظر کسی دور رس مصلحت کی بناء پہ ہے یا کوئی اور وجہ ہے ، بنانے والے ہی بہتر جانتے ہوں گے – لیکن آئیندہ کے لیے یہ بات ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے کہ جموں صرف جموں شہر کا نام نہیں جہاں ہندوؤں کی غالب آبادی ہے ، اس میں بانہال سے اودھم پور ، پیر پنجال اور چناب ویلی کے علاقے بھی شامل ہیں، جن کی اُمنگیں بھی ویسی ہی ہیں جیسی وادئ کشمیر کے لو گوں کی ہیں-
ملک کا جو سیاسی نقشہ جاری کیا گیا اس میں پوری ریاست کو اپنا ”متنازعہ حصہ” دکھایا گیا – اگر متنازعہ ہے تو ”حصہ” کیسے ہے ؟ – ہندوستان کے زیر قبضہ ریاست کا پاکستانی علاقہ دکھانا چاہیے تھا –
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کرنے سے یہ ہندوستان پاکستان کے درمیان زمین کا تنازعہ (Territorial Dispute ) بن گیا ہے، تنازعہ تو بنیادی طور زمین کا ہی ہے ، لیکن بین الاقوامی قانون کے تحت یہ دو ملکوں اور اس علاقے کے لوگوں کے انسانی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سے پیدا ہوا ہے جس کا فیصلہ طے شدہ بین الاقوامی قانون کے تحت سلامتی کونسل کے زیر اہتمام ہونا ہے ، اور اگر نہ ہوا تو عالمی امن خطرے سے دو چار ہوگا- اب اس کے دو فریق بھی نہیں بلکہ بنیادی فریق ، ریاستی باشندوں کے علاوہ ہندوستان، پاکستان اور چین بھی ہیں- تو یہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان Territorial ڈسپیوٹ کیسے ہے-
نقشہ شمال مشرق کی طرف سے کھلا چھوڑنا سمجھ آتا ہے اقصائے چن کا علاقہ چین کو دیا گیا ہے جو پاکستان کے ساتھ 1963 کے معاہدے کے تحت اس پر اس اتھارٹی کے ساتھ حتمی بات کرے گا جس کے ساتھ ریاست جائے گی ، اگر پاکستان کے ساتھ گئی ، تو وہی معاہدہ حتمی ہوگا- اسی طرح لداخ کو چین بھی کلیم کررہا ہے اور ریاست کے حصے کے طور پاکستان بھی-اس لیے اس کا کھلا چھوڑنے والی بات بھی سمجھ آرہی ہے، یہ بھی نیشنل ہائی وے بورڈ میں جموں چھوڑنے کے مماثل لگتا ہے-
لیکن اس کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ کرگل اور اسکردو لداخ کا حصہ ہیں ، ان کے بارے میں بھی کوئی بات ہوئی ہے یا نقشہ پاس اور جاری کرتے وقت اس کی کوئی تشریحات مستقبل کی رہنمائی کے لئے ریکارڈ میں رکھی گئی ہیں یا نہیں ؟ ، ان کو اگر پبلک نہ بھی کیا جائے لیکن ریکارڈ میں تو ضرور ہونا چاہییں؟
ریاست کے دونوں حصوں میں ”خود مختار ریاست” کی فکر اور تحریک بھی موجود ہے – اس کا موقف ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے پاکستان اپنی فوجیں نکال کر ریاست جموں و کشمیر کو آزاد اور خود مختار حکومت کے طور تسلیم کرے جس کے تحت بقیہ ریاست کے آزادی کی تحریک چلائی جائے- اس کی مثالیں بھی دنیا میں موجود ہیں – اسی بنیاد پر 24 اکتوبر 1947 کو آزاد کشمیر حکومت کی بنیاد بھی ڈالی گئی تھی لیکن سلامتی کونسل کی قرار دادوں نے ان علاقوں کو ”لو کل اتھارٹی قرار دے دیا” –
خود مختاری کا یہ مطالبہ سلامتی کونسل کی قرار دادوں سے دست بردار ہوکے ہی ممکن ہو سکتا ہے اور اگر پاکستان اس سے دست بردار ہو جاتا ہے تو والئی ریاست نے آزادئ ہند کے قانون 1947 کے مطابق گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا ہے ، پوری ریاست تو پھر اس کی ہوگی، اس صورت میں اِس سوچ کے حامل لوگوں اور پاکستان کو کیا ملے گا؟
اگر پاکستان اور اس کی وجہ سے ترکی، ایران ، ملائیشیا مکمل طور ، اور باقی عرب مسلمان ملک نیمے دروں نیمے برں کے طور کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں ان کی ہمدردیاں نہیں کھو جائیں گے ؟
اس پس منظر میں میری رائے تو یہ ہے کہ پاکستان اپنے آئین کی دفعہ 257 میں درج الفاظ According to wishes of people of that state —— کی روشنی میں واضح کردے کہ”سلامتی کونسل کی قرا دوں کے احترام میں آزاد ہو کے پاکستان سے الحاق کے بعد ، ریاست کے لوگ پاکستان میں مدغم integrate ہوں یا 1947 یا کسی اور حیثیت میں رہنا چاہییں تو پاکستان ان کی شرائط کا پابند ہوگا-
یہ بھی ہو سکتا ہے اس کے بعد پاکستان کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے پر ریفرنڈم بھی ہو سکتا ہے ، لیکن سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے تحت نصف سے زیادہ جیتا ہوا کیس خراب نہیں ہونا چاہیے-
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کاغذ پر لکیریں کھینچنے سے زمینی حالت نہیں بدلتی – اتفاق ہے کہ اگر بچوں کی ڈرائینگ ہو تو یقینآ عمارت بنتی ہے نہ ملک – لیکن اگر اس کے پیچھے قوموں کا عزم ہو تو سب کچھ بنتے ہوئے دیکھا – پاکستان بنا.بنگلہ دیش بنا-وسطی ایشیائی ریاستیں بنیں ، مشرقی یورپ کا نیا نقشہ بنا – ایسٹ تیمور بنا وغیرہ-
میں نے یوسف شاہ چک کے زمانے سے لے کر مفتی محمد سعید مرحوم تک کی تاریخ سے یہ پایا ہے کہ غیر ملکیوں کو لانے والے بھی کشمیری تھے گرانے والے بھی کشمیری – اب جو افتاد آئی ہے وہ سب کی مرضی کے خلاف آئی ہے اور سب کے ایکتا سے ہی جائے گی، اگر ایکتا نہ ہوئی پھر بھی جائے گی ، لیکن اس میں وقت لگے گا- قربانیاں لگیں گی ، لیکن کشمیر، بالخصوص وادئ کشمیر نے آزاد ضرورہونا کیونکہ آزادی کی جنگ پانچویں نسل میں وراثتی جاگیر کی طرح منتقل ہو رہی ہے اس کے ثمرات ضرور مرتب ہو ں گے-
یہ بات کشمیر کے لوگوں کو ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر پاکستان اسی غیر قانونی تقسیم پر راضی ہوجاتا ہے تو دنیا کے نقشے پر موجود کوئی ملک ، بشمول ایران، ترکی اور ملائیشیا اس کا نام نہیں لے گا- یہ صورت حال ہم کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدوں کے بعد فلسطین میں دیکھ چکے ہیں- صورت حال کا جائزہ معروضی طور لینا ہے، سطحی یا جذبا تی طور نہیں-
نیشنل ہائی وے کو سرینگر اور نقشے میں ریاست کو پاکستان کا حصہ دکھانے سے پاکستان کے عزم کا اظہار تو ہے – اس سے دنیا کو پاکستان کی سنجیدگی اور ہندوستان کے زیر تسلط کشمیریوں کو ایک عالمی ایٹمی طاقت کے ساتھ ہونے کا احساس بھی مل گیا؟ اس عزم کا اظہار پاکستان کی پارلیمنٹ اور ملک کی ساری سیاسی جماعتوں نے کیا ہے ، جس کا اعادہ وزیر اعظم پاکستان اور قائد حزب اختلاف نے دوسری پارلیمانی جماعتوں کے ہمراہ مظفر آباد میں بھی کیا-
کشمیر کے جو حصے پاکستان کے اندر ہیں ان کو اگر پوری ریاست کی نمائندہ حکومت نہیں مانا جاتا ( نہ معلوم پاکستان کے حکمرانوں کے ذہنوں کو یہ بات سمجھنے میں کیوں مشکل پیش آ رہی ہے) تو پاکستان اپنے آئین کے اندر ایک مقام دے کے نقشے اور نیشنل ہائی وے کے دعوے کو با معنی بنائے- ان علاقوں کو آئینی طور با وقار اور با اختیار بنا کر مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو پیغام دیں کہ ”آپ کو کم از کم اتنا اور زیادہ سے زیادہ جو آپ چاہیں گے، وہ وہیں گے”
ہندوستان نے 5 اگست کے بعد ریاست کی دونوں یو نین ٹیریٹریز میں اس زمین پر اتنے گہرے پاؤں گاڑھ دیے ہیں کہ ان کی چاپ کی آواز دنیا سن رہی ہے- یہاں ایسی باوقار آئینی تبدیلیاں لائیں کہ جو صرف مقبوضہ کشمیر ہی نہیں دنیا بھر میں قابل رشک ہوں –
جو حصہ آپ کے پاس ہے ہمیں اس میں تبدیلی نظر آنی چاہیے، نقشے کی لکیروں اور سنگ میل سے نہیں ، نغمے گانے سے نہیں، جلسے جلوس ، ٹویٹ سے نہیں دن منانے سے نہیں ، اس سے نصابی اور نفسیاتی فائدہ ضرور ہو سکتا ہے ، زمینی فائدہ کوئی نہیں – بلکہ آئینی کتاب میں ، آئینی زبان میں – ہندوستان گو مگو کی کیفیت کے باوجود تہتر سال نہیں نکالا جا سکا جب دنیا بھی کافی زمانے تک پاکستان کو جانتی مانتی اور اس کی بات سنتی تھی، اس کی وجہ سے سلامتی کونسل نے درجنوں قرار دادیں بھی پاس کیں ، اب تو جو دو تین ملک ہیں وہ بھی اپنے جذبہ ایمان اور یقین پر کشمیریوں کی بات کرتے ہیں- دنیا کی جو بھی سول سو سائٹی بات کرتی ہے وہ ہندوستان کے ظلم کے خلاف اور کشمیریوں کے انسانی حقوق کی بات کرتی ہے ، پاکستان کے موقف یا کشمیر کو ہندوستان اور پاکستان سے نکال کر کشمیریوں کے حوالے کرنے کی نہیں-کل ہی سلامتی کونسل نے کہا یہ ہندوستان اور پاکستان کا معاملہ ہے وہ اس کو خود حل کریں – عرب لیگ یا مسلم دنیا کے عرب ملک وہاں مندر بنانے میں مصروف ہیں –
آزاد کشمیر کے سیاست دان ”پاکستان کے بلا تنخواہ سپاہی” کا راگ الاپ کے اقتدار میں آنے یا رہنے کے گٹھ جوڑ میں ہوتے ہیں- نہ اپنے لوگوں کی کوئی حیثیت بننے دیتے ہیں نہ مانگتے ہیں ، نہ حکومت کی مملکت پاکستان کے اندر یا باہر کوئی حیثیت ہے – سٹیٹس کو میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں – شہدا کے نام پہ برسیاں مناتے ہیں ، کسی دن کے واقعے کو پکڑ کر یوم مناتے ہیں ، جن میں اب پانچ اگست کا بھی اضافہ ہو گیا ہے- ان کے وزیر اعظم کا حال دیکھیں دہائیاں دیتے ہیںکہ ” ہم پر اعتبار کریں” آئین میں تیرہویں ترمیم کے بعد جو تھوڑا بہت حاصل کیا تھا اس کو ختم کرانے کے لیے مرکز کے سارے ادارے خم ٹھونک کے پیچھے پڑے ہیں جیسے کہ ہندوستان اور ایٹم بم سے زیادہ خطرہ آزاد کشمیر کے باوقار اور با اختیار ہونے سے ہی ہے – فاروق حیدر ٹھیک کہتا ہے ”ہم پر اعتبار کریں”
آزاد کشمیر کے لیڈر خود اور پاکستان کے ارباب اختیار، یہاں کے لوگوں کو بار بار اس زلت آمیز صفائی دینے سے بری ہونے کا موقعہ دیں کہ ”ہم پر اعتبار کریں، ہم آپ سے بڑھ کے زیادہ پاکستانی ہیں ، ہم آپ کے بلا تنخواہ سپاہی ہیں” – نہ معلوم ہمارے لوگوں کو مرکزی سطح کے پالیسی ساز اور فیصلہ ساز بننے میں کیا کمپلس ہے اور مرکز والے ہم(کشمریوں) کو کمتر سمجھنے میں کیا فرحت محسوس کرتے ہیں، 1990 تو در کنار گذشتہ ایک سال میں ہندوستان نے کشمیر کی جو اینٹ سے اینٹ بجائی ، اس کا مقابلہ آپ نغمے ، نقشے ، سائین بورڈ سے کرتے ہیں ؟ شرم آنی چاہیے-
بھئی جو حصے آپ کے پاس ہیں ان کی حالت بہتر بناؤ، ملک بھر میں ان کی نمائندہ پوزیشن کو نمایاں اور مستحکم کرو، ریاستی مشینری کی استعداد کار capacity building بڑھاؤ ، کرپشن اور نالائقی کے ناسور کی گرفت کرو، ان علاقوں کے آبی ، معدنی اور انسانی وسائل کو اتنی حیثیت دو جتنی پاکستان کے باقی حصوں کو دیتے ہو، ان پر اعتبار کرو اور عام لوگوں کو محسوس ہونا چاہیے کہ ان پراعتبار ہورہا ہے، ورنہ عام لوگ ریاست پہ اعتبار کرنا چھوڑ دیں گے، آپ کی طاقت یہ ”بلا تنخوا ہ سپاہی” تو کیا ریگولر سپاہی بھی نہیں ، طاقت عام لوگ ہیں ، جو خنجراب سے گجرات تک کی جغرافیائی ڈھال کی اوٹ میں بیٹھ کے اپنے آپ کو مسلسل خطرے میں رکھ کے پاکستان اور پاکستانیوں کی حفاظت کر رہے ہیں-
ہندوستان نے ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ، تہذیب، جغرافیہ بھی بدل دیا ، لیکن مسئلہ ختم نہیں کر سکا، نہ یہ ختم ہو گا – پاکستان کے اپنے زیر انتظام ریاست کے علاقوں کو نمائندہ حیثیت نہ دینے کی صورت میں وہ آئینی حقوق جو ملک بھر کے لوگوں کو اپنے اپنے صوبوں اور مرکز میں حاصل ہیں دینے سے بھی مسئلہ حل ہوگا نہ ختم ، لوگوں کے مسائل تو حل ہوں گے، ان کی ایک نیشنل حیثیت تو بنے گی –
کشمیر پر ہندوستان کی تہتر سال کی گو مگو کی کیفیت کے باوجود ہم کچھ نہیں کرسکے ، اب اس کے کشتیاں جلا کے خم ٹھونکنے، دلی میں کشمیر کی زنجیر پکڑ کے بیٹھ جانے کے بعد ، ہم اور کیا اور کتنے عرصہ تک کر سکتے ہیں ، یہ کوئی راکٹ سائنس کا سوال نہیں-
ہندوستان کا منصوبہ تو کشمیر کو بدھ سے بھی پہلے”ناگوں یا گو نندہ” کے زمانے میں لے جانے کا ہے، اس میں رکاوٹ کشمیر خود یا پاکستان ہی ڈال سکتے ہیں ، وہ بھی اگر پاکستان سیاسی استحکام ، اقتصادی ترقی اور سفارتی اثر رسوخ میں ہندوستان پر سبقت لے سکا اور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عام لوگوں کا اعتماد حاصل رہا – چین ہمارا دوست اور خیر خواہ بھی ہوگا ، لیکن اس کی نظر بہت دور تک ہے ، ہم تو دو قدم پہ ہیں ، اس کا پاکستان کی قومی قیادت اور سلامتی کے اداروں کو بھی ادراک کرنا چاہیے-