کرونا وباء اور قومی ایوارڈز کی تقسیم

گلگت بلتستان میں کرونا وائرس کے کیسز کا آغاز ہوتا ہے۔ صرف تین کیس ابھی سامنے آئے ہیں۔ خوف کا سما اس قدر ہے کہ لوگوں نے رات گیارہ بجے سے مسجدوں سے ازانیں دینا شروع کردی۔ یہ خدا کا عذاب اچانک نازل ہوا ہے، جس طرح بنی اسرائیل و دیگر اقوام پر نازل ہوا کرتا تھا، جن کا زکر کتابوں میں ہے یا پھر اس وائرس کو کسی فیکٹری میں بناکر ہوا میں گھولا گیا ہے؟ خدشہ یہی تھا کہ مسلمانوں کے خلاف یہودیوں اور دیگر کی بڑی سازش ہے۔ ابھی یہ بحث جاری تھی۔ گلگت بلتستان دنیا سے کٹا ہوا ایک خطہ ہونے کے باوجود چاروں اطراف سے کرونا کی زد میں تھا۔ ہمسایہ ملک ایران میں مذہبی مقدسات کا زیارت کرکے واپس پاکستان آنے والے زائرین میں سے ہزاروں افراد کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا۔ اچانک پورا شعبہ صحت کانپ اٹھا کہ اتنی تو ہماری ہمت ہی نہیں کہ جتنی شدت اس وائرس میں ہے۔ یہ بھی واضح نہیں تھا کہ یہ وائرس منتقل کیسے ہوتا ہے؟ کسی بھی کونے سے اچھی خبر ملنے کو نہیں تھی، ہر طرف سے ’بریکنگ نیوز‘ مل رہی تھی۔ گلگت بلتستان نے خطرے کو بھانپ کر چائینہ بارڈر کو بند رکھنے کا فیصلہ کرلیا کیونکہ اس وائرس کا مرکز چائینہ تھا۔ اس فیصلے سے اربوں روپے نقصان اٹھانا پڑا لیکن صحت اور معیشت میں ایک کا انتخاب کرنا تھا۔

زائرین کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مساجد اور امام بارگاہوں سے اعلانات ہوئے کہ زائرین کو تنہا چھوڑا جائے، نہ وہ کسی سے ملیں اور نہ ہی ان سے کوئی ملے۔ چند سرپھروں کے علاوہ ہر شخص نے اس کو احتیابی تدبیر سمجھ لیا۔ حکومت نے جگلوٹ کے مقام پر سکریننگ سنٹر قائم کرلیا۔ شعبہ صحت کا سٹاف بھی اسی طرح وہم کا شکار ہے جس طرح عام آدمی ہے بلکہ صحت عملہ کے مسائل وہم سے آگے بھی ہیں۔ کرونا سے احتیاطی تدبیر کے طور پر پہننے والے کٹ کی کمی ہے، ماسک پہن کر چلنے کا رواج نہیں ہے این 95 نامی ماسک ناپید ہے، سٹاف ناتجربہ کار ہے، وسائل کی کمی ہے۔ مگر مسیحائی شعبے کے افراد نے کمر کس لیا، سو فیصد مشتبہ مریضوں کے سامنے کھڑے ہوتے رہے، ان کی نگرانی کرتے رہے، صحت سہولیات فراہم کرتے رہے۔ بلڈ پریشرسے لیکر کرونا علامات تک کا جائزہ لیتے رہے۔ محکمہ صحت کے مستقل، کچے پکے، عارضی ملازمین، پی پی ایچ آئی، ای پی آئی جیسے ادارے اپنی استعداد کار لیکر برسرخدمت ہوگئے، بلامعاوضہ اور رضاکارانہ خدمات سرانجام دینے والا ڈرائیور بھی اسی خطرے میں ہے جس کا خطرہ سرپر منڈلارہا ہے لیکن پانی پلانے والوں سے لیکر علاج کرنے والوں تک کسی نے بھی اپنی زندگی کو سامنے نہیں رکھا بلکہ مریضوں کی خدمت ہی ان کا ایک نکاتی ایجنڈا بن گیا۔ زائرین کی فلٹریشن کرتے رہے اور علامات والوں کو قرنطینہ اور آئسولیشن سنٹرز کی طرف منتقل کرتے رہے۔

آئیسولیشن سنٹر اور قرنطینہ خوف کا دوسرا نام تھا۔ مریض ان مقامات کا نام سن کر آدھا خون خشک کر بیٹھتا۔ جس علاقے میں قرنطینہ قائم ہوتا وہاں سے لوگ خوف کے مارے احتجاج کرتے کہ یہ وبا ہمارے دروازے پر زبردستی کیوں لائی جارہی ہے؟ معاملہ حکومت کے لئے بھی درد سر بنا ہوا ہے۔ بالآخر ایک فارمولہ ترتیب دیکر قرنطینہ مراکز الگ کردئے گئے لیکن وہاں خدمت پر معمور افراد نے ہمت نہیں ہاری، یقینی وبا کے سامنے عوام کی خدمت کو ترجیح دی۔

اطلاع ملی کہ کچھ لوگ ملک کے دیگر شہروں اور بیرون ممالک سے واپس آئے ہیں لیکن انتظامیہ کو چکمہ دے گئے ہیں۔ چھاپہ مار ٹیمیں بنائی گئی، اس بار محکمہ صحت اور زیلی اداروں کے ساتھ ساتھ انتظامیہ، ریسکیو 1122، پولیس، مقامی رضا کار سب کو شامل کرلیا گیا تاکہ مطلوبہ ہدف تک آسانی سے پہنچاجاسکے۔
ہسپتال بھی کرونا پھیلانے کا سبب بننے لگ گئے، کرونا کے مریض بھی عام مریضوں کے ساتھ لائنوں پر کھڑے ہوجاتے اور ڈاکٹر تک کو بھی مشتبہ کرکے چھوڑتے۔

ہسپتالوں کی او پی ڈی بند کردی گئی، ایمرجنسی سروس شروع کی گئی۔ اس کے باوجود کرونا مریضوں کی آمد جاری رہی، صفائی کرنے والا گریڈ 1بھی خطرے میں آگیا اور ہسپتال کا کوڑا اٹھانے والا ویسٹ منیجمنٹ کا عملہ بھی خطرے میں آگیالیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اس سے ہمارے زاتی صحت پر کیا اثر ہوگا۔ محکمہ تحفظ ماحولیات نے بھی اپنا مورچہ سنبھال لیا اور کرونا ویسٹ کو ٹھکانے لگانے کے لئے اقدامات شروع کردئے اور جہاں کمی نظر آگئی اس کو پورا کرنے پہنچ گئے۔ جی بی ڈی ایم اے جیسے ادارے نے ادویات اور ساز و سامان کی فراہمی کا بیڑا سر اٹھایا اور جانفشانی کے ساتھ بروقت سامان پہنچاتے رہے۔

دوسری جانب عوام کو مسلسل حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے اور احتیاطی تدابیر اپنانے کی تلقین کرنے کے لئے میڈیا اداروں سمیت متعدد سماجی تنظیموں نے بھی میدان میں آنے کا فیصلہ کرلیا یہاں تک کہ محلوں میں کمیٹیاں بنائی گئی اور مشتبہ افراد کی نشاندہی کرتے گئے۔ روزنامہ اوصاف گلگت بلتستان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ گلگت بلتستان میں سخت تین لاک ڈاؤن اور کرفیو جیسے سماء کے دوران بھی اپنی اشاعت کو بند نہیں کیا اور بلاناغہ اپنے فرائض منصبی عوام کو پہنچاتے رہے۔ دو دن ایسے تھے کہ بازار میں اخبار رکھنے کے لئے ہاکر تک دستیاب نہیں تھا پھر سٹاف خود اخبار لیکر بازار میں کھڑا ہوا اور قارئین تک تازہ شمارے پہنچتے رہے۔

یہ ساری صورتحال چلتی رہی کہ اچانک محلوں سے آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں کہ لاک ڈاؤن اور احتیاطی تدابیر سے گھروں کے چولہے بجھ گئے ہیں، کئی ایسے گھرانے ہیں جہاں پر معذور افراد بھی ہیں۔ پھر الخدمت، ہلال احمر، معاون فاؤنڈیشن اور خصوصی افراد کی تنظیم جی بی ڈس ایبلٹی فورم جیسے متعدد ادارے بھی سامنے آگئے جنہوں نے حکومتی راشن اور مختص فنڈز سے کئی گنا زیادہ راشن اور اشیاء ضروریہ لوگوں کے گھروں میں پہنچاتے رہے۔ یہ امر قابل زکر ہے کہ حکومتی راشن سفارشیوں کی نذر زیادہ ہوا ہے اور مستحق لوگوں کو بہت کم ملا ہے۔

کرونا کا راج برقرار ہے۔ پورے پورے ضلع بند کرنے پڑگئے۔ ڈاکٹروں کی خصوصی ٹیمیں تشکیل دیدی گئی اور ہدف دیا کہ کرونا کنٹرول کرنے کے علاوہ کسی بھی قسم کی کارکردگی قابل قبول نہیں ہے۔ اس دوران مساجد اور امام بارگاہوں کو بھی بند کردیا گیا۔ کاروباری مراکز اور سکولوں کو بھی تالہ لگانا پڑگیا۔ چند ایک مذہبی مراکز کے علاوہ اکثر نے حکومتی حکم پر لبیک کیا۔

اس خوفناک وباء کے اور بھی کئی پہلو ہوں گے جو شاید ابھی زیر قلم نہیں آرہے ہیں۔ عید الفطر تک اس وباء کو کنٹرول کرنے میں ہر شعبہ نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔لیکن عید الفطر کے موقع پر لاک ڈاؤن ختم کرنے کے ایک ڈرامائی فیصلہ نے صورتحال تباہ کردی۔ اور کرونا ایک بار پھر سنبھل کر کھڑا ہوگیا۔ پھر نگران حکومت نے زمہ داریاں سنبھال لی اور کہا کہ ہمارا کام تو صرف اور صرف انتخابات تک محدود ہے جس کے نتیجے میں کرونا ثانوی موضوع بن کر رہ گیا۔ عدم دلچسپی اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے روزانہ ٹیسٹ کی تعداد 50اور 70کے درمیان آگئی۔ خطرے کی علامت یہ ہے کہ اس محدود ٹیسٹ کے اندر سے بھی 30،40افراد میں کرونا کی تصدیق ہورہی ہے۔

اس وقت گلگت بلتستان کی جو صورتحال ہے وہ پورے ملک کے لئے تشویشناک ہے۔ گلگت بلتستان واحد صوبہ ہے جہاں پر روزانہ ہونے والے ٹیسٹ میں سے مثبت کیسز کی شرح 25 فیصد سے بھی زیادہ ہوگئی ہے جبکہ ٹیسٹ کرنے کی استعداد کار میں اضافہ ہونے کی بجائے مسلسل کمی ہورہی ہے۔ دلچسپ اور انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس صورتحال میں درجنوں افراد کو ’قومی ایوارڈز‘ دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ اس فہرست میں شامل اکثر افراد محض اس واسطے شامل ہیں کہ وہ بااثر اور بااختیار ہیں ورنہ بالائی کرداروں میں کہیں پہ بھی ان کا زکر نہیں ملے گا۔ یہ فیصلہ حقدار کا حق مارنے کے مترادفف ہے اور نمایاں کردار ادا کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے مترادف ہے جسے کسی بھی صورت منظور نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت فی الفور نظر ثانی کریں اور ائیرکنڈیشن کمروں میں رہ کر ٹویٹر ہینڈل کرنے والوں کو فوری فارغ کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے