پاکستان کا نیا سیاسی نقشہ اور تنازع کشمیر

پاکستان کی وفاقی کابینہ نے4 اگست 2020 ء کو پاکستان کا ایک سرکاری نقشہ منظور کیا، نقشے کی رونمائی کی تقریب میں اس سے متعلق وزیراعظم پاکستان عمران خان اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کچھ وضاحتیں بھی کیں۔

اس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث نے جنم لیا۔ حکومت کا موقف یہ تھا کہ انہوں نے اس سیاسی نقشے میں ریاست جموں کشمیر کو مکمل طور پر پاکستان میں شامل دکھایا ہے لیکن ساتھ یہ وضاحت بھی کی کہ ریاست جموں کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔

اس نقشے کے سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والے بھی متحرک ہو گئے۔

کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر بھارت نے 5 اگست 2019 کو ایک یک طرفہ فیصلے کے تحت اپنے زیر انتظام ریاست جموں کشمیر کے علاقوں کی خصوصی حیثیت ختم کر کے ان کا بھارت کے ساتھ انضمام کیا اور نقشے میں بھی ان علاقوں کو بھارت کا حصہ بنایا تو کیا پاکستان نے اسی صورت میں جواب دے کر اقوام متحدہ کی قراردادوں سے وہی سلوک نہیں کیا، جس کی بنیاد پر بھارت پر تنقید کی جاتی تھی؟ بھارت کی کشمیر پر آئینی واردات کے بعد پاکستان کو جو اخلاقی برتری حاصل تھی، کیا وہ اس فیصلے سے ختم یا متاثر نہیں ہوگئی؟

کچھ لوگوں نے اس ایک برس میں پاکستان کی کشمیر کے لیے کی گئی کاوشوں کوناکافی قرار دیا اور اس نقشے کو لوگوں کے جذبات کیش کرنے کا وقتی حربہ قرار دیا۔ سوشل میڈیا پر پاکستانی اور کشمیری صارفین کا ایک بڑا حصہ اسے سیاسی ”نقشہ بازی“ کہہ کر اس کا مذاق اڑاتا رہا۔اس نقشہ جاتی جارحانہ پالیسی پر پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کے کچھ رہنماؤں اور کارکنوں نے بھی طنز کے نشتر برسائے۔

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر (یعنی آزادکشمیر) کی رائے عامہ میں اس نقشے کے متعلق ایک واضح تقسیم نظر آئی۔ وہاں کی اقتداری سیاست میں سرگرم سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور کچھ رہنماؤں نے پاکستان کے اس اقدام کو سراہا، پاکستان کے ساتھ ریاست جموں کشمیر کے الحاق کی پرجوش حامی سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق احمد خان نے وہاں کی قانون ساز اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کی موجودگی تقریر کرتے ہوئے اس نئے نقشے کے اجراء کو بروقت اور راست اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”ہم کشمیر کی نگاہ سے پاکستان کو نہیں دیکھتے بلکہ ہم تو پاکستان کی نگاہ سے کشمیر کودیکھتے ہیں“۔

آزادکشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر نے اس نئے نقشے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔

دوسری جانب آزاد ریاست جموں کشمیرمیں سرگرم آزادی پسند یا نیشنلسٹ سیاسی جماعتوں کے لوگ کافی غصے میں دکھائی دیے اور انہوں نے اس نقشے کو تنقید کا نشانہ بنایا، وہ ریاست جموں کشمیر کی مکمل آزادی و خودمختاری کے حق میں اورالحاق کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔ اوریہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ مقبول آزادی پسند تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے اس نئے نقشے کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

یہ تو تھیں باتیں اس فوری ردعمل کی جو نیا سیاسی نقشہ جاری ہونے کے بعد دیکھنے میں آیا، اب ہم ان ممکنہ اسباب کا جائزہ لیتے ہیں جن کی بنیاد پر حکومت پاکستان کو یہ نقشہ جاری کرنے کی ضرورت پیش آئی:

حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کیا گیا نیا سیاسی نقشہ

پہلی بات تو یہ ہے کہ ریاستوں کے نقشوں (خاص طور پر سیاسی نقشوں) میں عموماً ان علاقوں کو دکھایا جاتا ہے جو ان میں شامل ہوتے ہیں اوربعض اوقات ان علاقوں کو بھی نقشے میں شامل دکھایا جاتا ہے جن کی ملکیت کا دعویٰ وہ ریاست یا مملکت کرتی ہے۔ اس کا ایک سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ ملک بین الاقوامی فورمز پر اپنے اس دعوے کو قبول کرانے کے لیے کوششیں کرتا ہے اور ہر جگہ اپنا وہی نقشہ پیش کرتا ہے۔ خاص طور پر عالمی فورمز پر پروپیگنڈے اور لابنگ کے لیے اس کی کافی اہمیت ہوتی ہے۔

کچھ عرصے سے پاکستان کو بین الاقوامی فورمز پر ایسے نقشے کی ضرورت تھی کیونکہ بھارت ہر فورم پر اپنے نقشے میں ریاست جموں کشمیر کو شامل دکھاتا آ رہا تھا جس سے پاکستانی سفارت کاروں کو سبکی کا سامنا رہتا تھا۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ کچھ عرصے سے پاکستان میں رائج نقشوں میں کافی تضادات سامنے آنے لگے تھے، درسی کتابوں، ٹی وی نشریات، کانفرنسز اور سیمینارز میں چلائی جانے والی سلائیڈز وغیرہ میں نقشوں کے فرق کا مشاہدہ میں خود کر چکا ہوں۔

دوسال پہلے 5 فروری کو پاکستان کے یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر میں نے لاہور میں ایک تنظیم ”یوتھ فار کشمیر“ کے بینرز کی نشاندہی کی، ان بینرز پر بنائے گئے نقشوں میں ریاست جموں کشمیر کی ادھوری تصاویر تھیں۔ان میں گلگت بلتستان کے بغیر کشمیر کو دکھایا گیا تھا۔اسی طرح کئی موقعوں پر پاکستان کا جو نقشہ دکھایا گیا اس میں گلگت بلتستان تو شامل تھا لیکن جموں، وادی کشمیر، لداخ (یعنی بھارتی زیر انتظام علاقوں) کو نہیں دکھایا گیا تھا۔

پاکستان کا نقشہ جو ہم بچپن سے درسی کتابوں میں دیکھتے آئے تھے اس کا اوپری حصہ یعنی سَر پوری ریاست جموں کشمیر ہوا کرتی تھی۔ اس اعتبار سے اس جاری کیے گئے نئے نقشے میں اور اُس پرانے نقشے میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔

تیسری بات جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ بھارت نے جب ریاست جموں کشمیر کے اپنے زیر انتظام علاقوں کی خصوصی حیثیت ختم کر کے انہیں اپنا باقاعدہ حصہ قرار دیا اور ایک قدم آگے بڑھ کر پاکستان کے زیر انتظام ریاست کے علاقوں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنے نئے نقشے میں شامل کر دیا تو پھر پاکستان نے اس کا اسی انداز میں جواب دینا ضروری سمجھا۔ گویا انڈیا کے ریاست جموں کشمیر پر دعوے کا جوابِ دعویٰ اسی کے انداز میں پیش کیا گیا۔

حکومت کے حامی دانشور اسے پاکستان کی جارحانہ کشمیر ڈپلومیسی کا مظہر قرار دے رہے ہیں۔نئے سیاسی نقشے میں جوناگڑھ، مناوادر ریاستوں اور سرکریک کے علاقے جو کہ بھارت میں شامل ہیں ان کے بارے میں بھی دعویٰ دہرایا گیا ہے، اس دعوے کا بھی ایک پس منظر ہے جس پرکسی اور کالم میں بات کریں گے۔

کچھ لوگ جو پاکستان اور انڈیا کی اس چپقلش کو ذرا وسیع تناظر میں دیکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے نیا نقشہ جاری کرنا محض وقتی و جذباتی فیصلہ نہیں ہے، اس فیصلے کے پیچھے وہ محرکات بھی ہیں جن کا تعلق چین کے اس خطے میں جاری معاشی منصوبوں سے تعلق ہے۔

پاکستان چین اقتصادی راہداری کا بڑا حصہ گلگت بلتستان میں ہے، اور گلگت بلتستان قانونی طور پر متناز ع ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اس علاقے کاعبوری انتظام اپنے پاس ہونے کے باوجود اس کو اپنا باقاعدہ صوبہ ابھی نہیں بنا سکا ہے۔

سی پیک کے بارے میں امریکا کو کافی تشویش ہے، امریکا کا ایک دعویٰ یہ ہے کہ سی پیک منصوبے کی تعمیر میں بہت سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور شاید ان کے خیال میں اس کا ایک متنازع علاقے میں تعمیر ہونا بھی قابل اعتراض ہو اور پاکستان نے اس قسم کے اعتراضات کی گنجائش ختم یا کم سے کم کرنے کے لیے اس نئے نقشے میں متنازع علاقے کوشامل کر کے اپنے دعوے کو دہرایا ہو.

باقی یہ بدیہی حقیقت ہے کہ اس وقت امریکا اور چین کے درمیان معاشی برتری کی سرد جنگ جاری ہے۔ امریکا کو سی پیک کی مستقبل میں اہمیت کا اندازہ ہے، اس لیے وہ اس ریجن میں چین کے لیے کوئی نکیل تیار کرنا چاہتا ہے، ابھی تک اس کی کوشش ہے کہ بھارت اس کے لیے تیار ہو جائے۔

یہ تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ لداخ کے علاقے میں چین اور بھارت کے درمیان سرحد کی تعیین پر شدید اختلاف چل رہا ہے۔ پچھلے دنوں چین اور بھارت کے فوجیوں کے درمیان سخت جھڑپیں بھی ہوئی ہیں اور اطلاعات ہیں کہ چین نے کافی پیش قدمی بھی کی ہے۔ اس علاقے میں تجارتی اہمیت کے کچھ اہم روٹس ایسے ہیں جنہیں چین کسی صورت چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اس لحاظ اسے اس خطے کی جیو اسٹریٹجک اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

اس نئے نقشے میں لداخ اور اقصائے چن کی جانب کی سرحد کی حد بندی نہیں کی گئی ہے، بلکہ اسے unidetified قرار دیا ہے۔ اس کے ذریعے ایک ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی ہے جس میں چین کی مداخلت ناگزیر ہو جائے اور پاکستان کے پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ چین کی مداخلت پاکستان کے لیے کشمیر کے حوالے سے گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔

یہ تو وہ ممکنہ اسباب تھے جو پاکستان کی جانب سے نیا نقشہ جاری کرنے وجہ بنے، اب ہم ایک اور اہم سوال کی جانب بڑھتے ہیں:

سوال یہ ہے کہ جس ریاست جموں کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان دیرینہ تنازع ہے اور اس کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کی بات کی جاتی ہے، اور بار بار کہا جاتا ہے کہ اس کے مستقبل کا فیصلہ ریاست کے باشندوں سے اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے کیا جائے گا۔ کیا بھارت یا پاکستان نے اپنے اپنے نقشے جاری کرنے اور ان میں متنازع ریاست جموں کشمیر کو شامل کرنے سے قبل اپنے اپنے زیر انتظام علاقوں میں موجود کشمیری قیادتوں سے مشورہ یا رائے لی؟

اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو اس اجازت نامے کا کوئی دستاویزی ثبوت ابھی تک سامنے کیوں نہیں آیا؟ فرض کیا اگر کسی کشمیری نمائندے نے اس نئے نقشے میں ریاست جموں کشمیر کی شمولیت کی تائید کی بھی ہے تو کیا وہ منقسم ریاست کے سبھی باسیوں کا نمائندہ سمجھا جا سکتا ہے؟ بظاہر اس کا جواب نہیں میں ہے۔ فی الحال ریاست میں آر یا پار کسی کے پاس ایسا مینڈیٹ نہیں ہے جس کی بنیاد پر اُس کی رائے پوری ریاست کے بارے میں فیصلہ کن مانی جائے۔

اگر بھارت اور پاکستان نے نقشوں کے ذریعے ایک دوسرے کو سفارتی سطح پر منہ توڑ جواب دیا ہے اور اس میں ریاست جموں کشمیر کے باشندوں کی رائے کی پروا نہیں کی گئی تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ کشمیر اب متحارب ملکوں کے نزدیک اس کے باشندوں کی آزادی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ دوملکوں کے درمیان زمین کے ٹکڑے کے حصول کی لڑائی ہے۔ اس حوالے سے مختلف فورمز پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں پرعمل سمیت جو بھی باتیں کی جاتی ہیں وہ محض نمائشی بیانات ہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر (آزادکشمیر)کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے اس 5 اگست 2020 کو اقوام متحدہ کے مبصر مشن برائے ہندوپاک کے مظفرآباد میں قائم دفتر کے سامنے کھڑے ہو کر یہ الفاظ کہے تھے:

”میں ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں اور اقوام عالم کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر کشمیریوں پران کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ مسلط کیا گیا تو وہ اسے کسی بھی صورت نہیں مانیں گے“۔

جمہوری تقاضا یہی ہے کشمیریوں کے اس بیانیے کو گنجائش ملنی چاہیے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ کی جوبھی صورت حال ہو، چین کے خطے میں جو بھی معاشی توسیعی منصوبے چل رہے ہوں۔ امریکا اور چین کی باہمی آویزش کے زیر اثر جنوبی ایشیا میں جیسی بھی صف بندی ہو رہی ہو، جب تک تنازع کشمیر کو وہاں کے ڈیڑھ کروڑ سے زائد انسانوں کے حق خودارادیت کے مسئلے کی بجائے زمین کے ٹکڑے کا مسئلہ بنا کر حل کرنے کی کوشش کی جاتی رہے گی، اس وقت تک اس خطے میں پائیدار امن اور معیشت دوست مستقبل کی توقع رکھنا مشکل ہوگی۔

تنازع کشمیر کے اصلی اور بنیادی فریق یعنی کشمیر کے باشندوں کا یہ جمہوری حق ہے کہ ان کی ریاست کے متعلق جو بھی فیصلہ ہو وہ ان کی مرضی سے کیا جائے۔ متحارب ممالک ایک دوسرے کو جارحانہ سفارتکاری کے جوہر ضرور دکھائیں لیکن ایسا تأثر نہ بنائیں کہ کشمیری باشندے یہ سوچنے لگیں کہ متحارب ملکوں کے درمیان لاکھ اختلافات ہیں لیکن ایک نکتے پر دونوں ممالک متفق ہیں،اور وہ یہ کہ کشمیریوں کو خود ارادیت یا آزادی کا حق نہیں دینا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے