میری ہر بات بے اثر ہی رہی

آج گیارہ اگست ہے۔چوہتر برس پہلے آج ہی کے دن پاکستان کے باقاعدہ وجود میں آنے سے چار روز قبل کراچی میں آئین ساز اسمبلی کے صدر محمد علی جناح نے ریاستی خدو خال سے متعلق اپنے بنیادی خطاب میں وہ مشورے دیے جو ان کے خیال میں نئی مملکت کے آئین کی بنیاد ہونے چاہئیں۔

لگ بھگ نصف گھنٹے کے خطاب میں صرف وہی پیرا نہیں تھا جس کو لے کر ہم چوہتر برس سے کشتم کشتا ہیں بلکہ اور بھی کئی باتیں ہیں جن میں سے کسی ایک پر بھی الحمدللہ ہم نے ایک فیصد بھی عمل نہیں کیا۔

مثلاً خطاب کے ابتدا میں آپ نے فرمایا کہ ’’ اس اسمبلی کے دو اہم کام ہیں۔اول آئین کی تیاری۔دوم ایک مکمل خود مختار قانون ساز ادارے کے طور پر اپنے فرائض کی انجام دہی۔ہمیں جلد از جلد ایک عبوری آئین کی تیاری پر کام شروع کر دینا چاہیے‘‘۔

اس نصیحت پر ہم نے یوں عمل کیا کہ اس آئین ساز اسمبلی کو جناح صاحب کے رخصت ہوتے ہی ایک لمحہ ضایع کیے بغیر اقتدار پرست نوکر شاہوں، جنرلوں اور سیاستدانوں کی لونڈی بنا دیا اور پہلا آئین بنانے اور نافذ کرنے میں نو برس لگ گئے۔جب کہ بھارت نے آزادی کے تین برس بعد ہی آئین بنا لیا۔اس بیچ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ انیس سو پینتیس دونوں ریاستوںمیں عبوری آئین کے طور پر نافذ رہا۔ پاکستان میں انڈیا ایکٹ کی جگہ لینے والا انیس سو چھپن کا مستقل آئین بھی بمشکل ڈیڑھ برس ہی زندہ رہ پایا۔

محمد علی جناح نے آگے چل کر فرمایا ’’ معزز ارکان آپ مجھ سے یقیناً اتفاق کریں گے کہ حکومت کا پہلا فرض امن و امان قائم رکھنا ہے تاکہ شہریوں کے جان مال اور مذہبی عقائد مکمل طور پر محفوظ رہیں‘‘۔

پچھلے چوہتر برس میں کوئی ایک برس ایسا بتا دیں جب عوام پکار اٹھے ہوں کہ امن و امان کے اعتبار سے اس سے بہتر سال کبھی نہیں آیا۔بلکہ ایسی درجنوں مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ جہاں ضرورت پڑی ریاستی اداروں نے امن و امان کو خود کمزور کیا اور ضرورت پڑی تو بہتر بنا دیا۔

جناح صاحب نے امن و امان کی اہمیت بیان کرنے کے بعد فرمایا ’’ رشوت و بدعنوانی زہر کی طرح ہے۔ہمیں اس سے مکمل سختی کے ساتھ نپٹنا ہوگا۔امید ہے کہ آپ اس بارے میں فوری قدم اٹھائیں گے‘‘۔

اس مشورے پر ہر حکمران اور ہر فرد نے جس طرح عمل کیا وہ بھی مثالی ہے۔شائد ہی کوئی شہری ایسا ہو جو یہ کہہ سکے کہ اس نے اگر رشوت نہیں لی تو کبھی دی بھی نہیں۔ہر سویلین حکومت کرپٹ اور ہر غیر سویلین حکومت محتسب قرار پائی۔کبھی سب سے بڑا نوٹ پانچ سو کا تھا آج پانچ ہزار کا ہے۔ ہر نوٹ پر محمد علی جناح کی تصویر ہے اور کرسی کے پیچھے بھی محمد علی جناح کی تصویر ہے۔

اسی تقریر میں جناح صاحب نے فرمایا ’’ ایک اور بڑی لعنت چور بازاری ہے۔خوراک اور ضروری اجناس کی قلت کے دور میں بالخصوص اگر کوئی شہری چوربازاری میں ملوث ہوتا ہے تو میرے خیال میں اس سے بڑا مجرم کوئی نہیں۔یہ عناصر نہ صرف پورے نظام کو ہلا دیتے ہیں بلکہ قحط سالی و قلت کی شکل میں موت کے بیوپاری بھی ہیں‘‘۔

جناح صاحب کی چور بازاروں اور ذخیرہ اندوزوں سے سختی کے ساتھ نمٹنے کی خواہش ہم نے یوں پوری کی کہ سسٹم نے انھیں اپنے اندر ہی جذب کر لیا۔بھلا چور سے اچھا دوسرے چور کا احتساب کون کر سکتا ہے۔ سرکاروں نے وقت کے ساتھ ساتھ طلب و رسد کا ترازو اور قیمتوںکے تعین کا نظام بھی چور بازاروں اور ذخیرہ اندوزوں کے سپرد کر دیا۔جناح صاحب اب آپ خوش؟

آگے فرماتے ہیں ’’ایک اور چیز جو ہمیں ورثے میں ملی وہ اقربا پروری کی لعنت ہے۔اس کو مکمل طور پر کچل دینا چاہیے۔میں اسے ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتا‘‘۔

اگر جناح صاحب کے ہوتے اقربا پروری اس قدر ناقابلِ برداشت تھی کہ انھیں بطورِ خاص اپنی سب سے اہم تقریر میں اظہارِ نفرت کرنا پڑا تو سوچیے آج اگر وہ زندہ ہوتے تو دن میں کتنی بار مرتے ؟

’’ اب جب کہ ہندوستان کی تقسیم ہو چکی ہے۔ ہمیں آگے بڑھنا ہے تو ماضی کی تلخیاں بھول کر ساتھ چلنا ہوگا۔تب ہی وقت کے ساتھ ساتھ اکثریت و اقلیت، ہندو ، مسلمان ، پٹھان ، پنجابی ، شیعہ ، سنی ، برہمن ، ویش ، کھتری، بنگالی ، مدراسی کا امتیاز بے معنی ہوتا چلا جائے گا۔اگر ہندوستان میں یہ سب اڑچنیں نہ ہوتیں تو شائد ہم بہت پہلے آزاد ہو چکے ہوتے۔لہذا ہمیں اس تجربے سے سیکھنا چاہیے۔

آپ آزاد ہیں مملکتِ پاکستان کی حدود میں کسی بھی مندر ، مسجد یا عبادت خِانے میں جانے کے لیے۔ آپ کے مذہب ، ذات یا نسل سے ریاست کا کوئی لینا دینا نہیں۔ہم اس بنیادی اصول کے تحت اپنے سفر کا آغاز کر رہے ہیں کہ ہم ایک ریاست کے مساوی شہری ہیں۔

انگلستان میں حالات ہمارے ہاں سے بھی ابتر تھے۔کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے۔مگر رفتہ رفتہ ان میں احساس جاگا اور آج وہ سب بحثیت قوم ایک ملک کے مساوی شہری ہیں۔ اگر ہم اس مثال پر عمل پیرا ہوں تو ایک دن آپ دیکھیں گے کہ ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔عقیدے کے اعتبار سے نہیں کیونکہ عقیدہ ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے وہ ایک ملک کے مساوی شہری ہوں گے‘‘۔

ہم نے جناح صاحب کی گیارہ اگست کی بنیادی تقریر کے اس آخری پیرے کے ساتھ بھی وہی کیا جو باقی تقریر کے ساتھ ہوا۔آخری پیرے کی تعبیر کا سفر چوہتر برس میں یہاں تک پہنچا کہ اسلام آباد میں ایک مندر کی تعمیر بھی اس ملک کی نظریاتی زندگی اور موت کا سوال بنائی جا رہی ہے۔

اگر جناح صاحب آج یہی خطاب فرماتے تو لبرل فاشسٹ کہلاتے اور بہت ممکن تھا کہ کچھ نوجوان فلک شگاف نعرہِ تکبیر لگاتے ہوئے ان کے گھر یا گاڑی کا محاصرہ کر لیتے۔یہ بھی ممکن ہے کہ جس طرح گاندھی جی کو ایک ہندو جن سنگھی نے پاکستان پرست ہندو دشمن سمجھ کر مار ڈالا ، اسی طرح جناح صاحب کچھ دن اور جی جاتے تو کوئی مسلم جن سنگھی جناح صاحب کو کمزور عقیدے کا مغرب زدہ سمجھ کر گولی چلا دیتا۔

مگر جناح صاحب یہ نوبت آنے سے پہلے ہی اﷲ کو پیارے ہو گئے۔اس کے بعد جس آئین ساز اسمبلی نے گیارہ اگست کو جناح صاحب کی تاریخی تقریر پر تالیاں بجائی تھیں۔اسی اسمبلی نے جناح صاحب کی وفات کے چھ ماہ بعد گیارہ اگست کی تقریر کا دف مارنے کے لیے قرارِ دادِ مقاصد منظور کرتے ہوئے ایک دوسرے سے معانقہ کیا۔اسمبلی کے غیر مسلم پاکستانی ممبر ہکا بکا یہ منظر دیکھتے رہے۔البتہ جناح صاحب کے گیارہ اگست کے خطاب سے جو عارضی نظریاتی کنفیوژن پیدا ہو گیا تھا اس کا قرار دادِ مقاصد کی منظوری سے بہت حد تک ازالہ ہو گیا۔

میری ہر بات بے اثر ہی رہی

نقص تھا کچھ میرے بیان میں کیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے