کووڈ ۱۹ ایک ڈراونے خواب کی طرح ثابت ہواہے اس نے اچانک پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ۔ شروع میں توجہ کا مرکز صحت ہی رہا تاہم تھوڑے دنوں بعد ہی معیشت اور صحت دونوں کی اہمیت پر بحث کا آغاز ہوا اور یہ کہا جانے لگا کہ وبا سے نہیں تو بھوک سے لوگ مرسکتے ہیں ۔ معیشت اور بیماری کے درمیان تعلق کی یہ بحث اب بھی جاری ہے اور دونون کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ کئی ممالک ویکسین کی تیا ری کے قریب پہنچ گئے ہیں تاہم اس وقت ایک مشکل مرحلہ معاشی اور معمولات زندگی کی بحالی کا ہے جو بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں چین اپنا کردار نبھانے کیلئے کمربستہ ہے۔
عالمی معیشت پر کووڈ ۱۹ کے سائے مزید دراز ہو تے جارہے ہیں۔ وباسے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) سے وابستہ کم ترقی یافتہ ممالک کو شدید معاشی دھچکا لگا ہے جس نے ان کے جی ڈی پی اور دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون کرنے کی صلاحیت کو متاثر کیاہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ وبا سے پیدا شدہ بحران نے ان ممالک کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا ہے ، اور انہیں ایک قسم کی مایوسی اور منفی پن میں مبتلا کردیا ہے۔
وبا نے نہ صرف ان ممالک کے قرضوں اور مالی استحکام کو متاثر کیا ہے بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے ان کی کشش کوبھی کم کردیا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے اپریل میں جاری کردہ عالمی معاشی آؤٹ لک کے مطابق ، ابھرتی ہوئی منڈیوں کو موجودہ خراب ہوتی عالمی مالیاتی حالات میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایسے میں، ان معیشتوں کے قرضوں پر انحصار کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
کووڈ ۱۹کی وجہ سے سرحد پار سفر ، ٹرانسپورٹ ، رسد وترسیل اور عالمی سپلائی چین پر کئی قسم کی پابندیاں لگ گئی ہیں ، جس نے سرمایہ کے علاہ دوسرے پیداواری عوامل کے حصول میں کم ترقی یافتہ ممالک کی صلاحیت کو کمزور کردیا ہے۔ دراصل وبا ان ممالک کے سامان اور خدمات کی تجارت میں بنیادی تعطل کا سبب بنا ہے ، اور ان کی سیاحت اور مالی صنعتوں کو خاص طور پر سخت نقصان پہنچا ہے۔
کووڈ ۱۹ نے مجموعی طور مغربی ممالک میں اضطراب اور بے چینی پیدا کی ہے۔ بعض مغربی ممالک کی چین مخالف پالیسی نے کسی حد تک چین کے بی آر آئی ممالک کے ساتھ تعاون کو متاثر کیا ہے۔ وبائی صورتحال کے دوران ، بعض ممالک کم ترقی یا فتہ ممالک کی مالی کمزوری کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں ، جس سے بی آر آئی تعاون پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
اگرچہ کووڈ ۱۹ نے کم ترقی یا فتہ ممالک کی معاشی نمو کو کمزور کردیا ہے ، چین گرتی ہوئی مارکیٹ کے عوامل کے باوجود ان ممالک کو امداد اور رقوم فراہم کررہا ہے۔ چین عزم رکھتاہے کہ بڑے ترقی یافتہ ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ کھلی اور جامع انداز میں ہم آہنگی کو مضبوط بنائے ، غیر ملکی امداد کے منصوبوں کو عملی ، لچکدار اور جدید انداز میں نافذ کرے اور بی آر آئی کے راستے پر کم ترقی یا فتہ ممالک کی مضبوطی اور پائیداری کو بڑھا ئے۔
چین نے وبا کے دوران کم ترقی یافتہ ممالک کو بروقت طبی سامان مہیا کیا ہے ، جس سے ان کی صحت عامہ کے نظام کی تعمیر اور ان کی صحت عامہ کی انتظامیہ کی صلاحیت کو مستحکم کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ کووڈ ۱۹پر جون میں شائع ہونے والے وائٹ پیپر کے مطابق ، چین نے مٗئی کے آخر تک ۲۷ ممالک میں اپنی طبی ماہرین کی ٹیمیں بھیجی ہیں اور ۱۸۰ سے زائد ممالک اور۱۰ سے زیادہ بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں کے ساتھ وبا سے متعلق معلومات کا تبادلہ کیا ہے۔
چین کی توجہ ترقی پذیر ممالک کے خدشات کے ادراک اور احترام کے ساتھ تما م متعلقہ فریقوں کی مشاورت کی بنیاد پر علاقائی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں کی تعمیر پر مرکوز ہے تاکہ ان مما لک میں پیداوری عمل کی بحالی کو ممکن بنا یا جاسکے۔
اگرچہ جنوری میں اپنی کورونا وائرس کی لڑائی کی وجہ سے چین پر بہت دباؤ تھا اس کے باوجود چین نے وسطی افریقی جمہوریہ میں شمسی پلانٹ کی امداد کا منصوبہ شیڈول کے مطابق شروع کیا ۔ جس کی تکمیل ملک میں بجلی کی قلت کو مؤثر طریقے سے دور کرے گی، جس سے اس کی صنعتی عمل اور جدت کاری میں بہت مدد ملے گی۔
چین نے کم ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے رابطے برقرار رکھے ہیں تاکہ وبا سے متاثرہ متعلقہ ممالک کے لئے بنیادی ڈھانچے کی امداد کے منصوبے تشکیل دیے جائیں، تاکہ ان ممالک میں تجارت اور صنعت کے درمیان ربط مضبوط ہوجائے ، معاشی لچک کو بہتر بنایا جائے اور وبا کے بعد بحالی کے عمل میں آسانی ہو۔