اور بھی دکھ ہیں زمانے میں پی ایچ ڈی کے سوا!

کراچی یونی ورسٹی کی پی ایچ ڈی کی ایک لڑکی کی اپنے سپروائزر سے تنگ آ کر خود کشی کرنے کی خبر پڑھی، ایک دوست نے اس پر دکھ بھرا سٹیٹس لگایا ہوا تھا، جس میں یونی ورسٹی اساتذہ کے رویے پر افسوس کا اظہار بھی تھا۔ اس پر کچھ کمنٹ ہو گئے۔ پھر خیال آیا کہ یہ اہم موضوع ہے، آپ کو بھی اس میں شریک کیا جائے اور ان کمنٹس کی ایک منظم صورت آپ کے سامنے پیش کر دی جائے۔ تو جناب!

پہلی بات تو یہ کہ ہمیں یہ تفصیل معلوم نہیں کہ وہ لڑکی اپنے سپروائزر سے کیسے اور کیوں کر تنگ تھی؟ ہم لوگ تو اپنے طلبہ کی اَوٹ آف وے بھی فیور کرتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے یونی ورسٹیاں ہی کیا اس دنیا میں ہر شعبے میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں اور ہم کسی کی بہ طور شعبہ صفائی دے سکتے ہیں اور نہ اس کو سراپا برائی کہہ سکتے ہیں۔ کہانیاں بھی بڑی بڑی اور مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں ۔ لیکن ہمارا تجربہ یہ بھی ہے کہ بہت سے طلبہ کام کو درست اور معیاری بنانے کی تجویز کو بھی نافہمی سے یا کسی اور کے کہنے پر سپروائزر کا روڑے اٹکانا سمجھ لیتے ہیں۔

اٹکاتے ہوں گے لوگ روڑے بھی ، ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہم بیسیوں ایم فل اور پی ایچ ڈی کرو اچکے ہیں، کبھی کسی سٹوڈنٹ کے بارے میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ اس کو لٹکانا ہے، یا اس کا ایم فل یا پی ایچ ڈی روکنا ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے (اگرچہ ہمارے علم کی حد تک تو ایسا بھی کسی نے نہیں کہا) کہ کسی طالب علم نے کام کو بہتر بنانے کی تلقین کا یہ مطلب لیا ہو کہ ہمیں لٹکایا جا رہا ہے۔ خدا شاہد ہے ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ کام اگرچہ اتنا معیاری نہیں کہ اس طالب علم کو ایم فل یا پی ایچ ڈی کی ڈگری دی جا سکے ، لیکن چونکہ یہ ابھی سیکھنے کے مرحلے میں ہے (جی ہاں کم ازکم میرے نزدیک یہ ابھی سیکھنے ہی کا مرحلہ ہوتا ہے) اگر طالب علم واقعی علم دوست ہوا تو آگے چل کر اپنی استعداد کو ضرور بڑھا لے گا،(نہیں تو نوکری حاصل کرنے کے باوجود علم کی دنیا میں بے ننگ و نام ہو جائے گا) لہذا ہمیں اس سے وہ توقع نہیں کرنی چاہیے، جو پی ایچ ڈی کے بارہ پندرہ سال بعد تحقیق سے مسلسل ربط کے بعد ہم کر رہے ہیں ۔ اتنی رعایت کے بعد بھی جو طلبہ سمجھتے ہوں کہ انھیں تنگ کیا جا رہا ہے، میرے خیال میں ان کی تنگی کی وجہ کہیں اور ڈھونڈنی چاہیے۔

رہی بات مذکورہ لڑکی کی تو ہم نہیں کہتے کہ اس کے سپروائزر نے اس کو تنگ نہیں کیا ہوگا۔ یقیناً ایسے خبطی لوگ ہوتے ہیں ، جو لوگوں کو تنگ کرنے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہوتے ہیں۔لیکن ایسے لوگوں کا علاج یہ نہیں کہ اپنی زندگی ہی ختم کر لی جائے۔ ان پر لعنت بھیج کر کوئی اور کام کریں۔ دین نے خود کشی سے یو نہی تو منع نہیں کیا ہوا! خود کشی سے بچ کر مشکلات میں جینا ہی زندگی ہے۔ زندگی کوئی پھولوں کی سیج نہیں۔ یہاں جس کو دیکھیں ، طرح طرح کی مشکلات سے گزر رہا ہوگا۔ کسی کی پی ایچ ڈی پھنسی ہوئی ہے ، تو کسی کی پروموشن، کسی کو تنگیِ معاش کا سامنا ہے، تو کسی کو کسی کے حسد و بغض اور مخالفت کا۔ بس اللہ نے آپ کو جو سپیس دی ہے ، اس میں کام اور کوشش کرنا سیکھیں، زندگی اور دنیا آپ کی مرضی سے نہیں چلتی اور نہ کبھی چلے گی۔

اگر آپ یہ سوچنا شروع کر دیں گے کہ ساری دنیا ہی میرے خلاف ہوئی پڑی ہے، مجھے مر ہی جانا چاہیے تو نتیجہ خود کشی ہو گا ،اور اگر آپ سوچیں گے کہ مجھے جو اللہ نے دیا ہے اس پر قناعت کرنی اور مزید کے لیے اپنی بساط اور ہمت کے مطابق کوشش کرنی ہے ،اور اس کے بعد نتیجہ میرے اختیار میں نہیں تقدیر کے اختیار میں ہے (تقدیر کا فلسفہ بھی بس یہی ہے)، تو آپ جس حال میں بھی رہیں کم ازکم خود کشی نہیں کریں گے۔

اب رہی پی ایچ ڈی تو جناب اس کے سوا بھی دنیا میں بہت دکھ ہیں۔ آپ فیض احمد فیض سے فیض حاصل کریں اور ان دکھوں کی طرف بھی توجہ دیں جو پی ایچ ڈی کے سوا ہیں ،تو پی ایچ ڈی کو زندگی موت کا مسئلہ سمجھنا چھوڑ دیں گے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ پی ایچ ڈی ہو کر آپ بڑے پیسے کما لیں گے، تو جناب جب پی ایچ ڈی کر لیں گے تو پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ بھی ہم نے ایک دکھ ہی پالا ہوا تھا ، ورنہ ہم سے تو سپین اور ساؤتھ افریقہ میں سیل مینی کرنے والے ، دبئی اور سعودی عرب میں ویلڈنگ کا کام کرنے والے انڈر میٹرک اور پاکستان میں بی اے کر کے سی ایس ایس کرنے والے ،اور ایف اے کر کے کپڑے اور جوتیاں بیچنے والے بہت سے لوگ ہم سے زیادہ پیسے کما رہے اور زیادہ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں!

اور اگر آپ کا خیال یہ ہے کہ آپ پی ایچ ڈی کرکے کوئی بڑے عالم فاضل یا سائنس دان بن جائیں گے ،تو یہ بھی خام خیالی ہے، یہ کام آپ کو محنت سے کرنا پڑے گا اور عموما یہ پی ایچ ڈے کے بعد ہی ہوتا ہے(یا زیادہ صحیح یہ ہے کہ اس کے بغیر ہی ہوتا ہے) ورنہ فقط اس ڈگری کی بنیاد پر نہ آپ آئن سٹائن بن سکتے ہیں اور نہ شاہ ولی اللہ ۔ تو نصیحت آپ کو طلبہ کرام یہ ہے کہ پی ایچ ڈی کو زندگی موت کا مسئلہ مت بنائیں ۔ بلکہ میرا تو مشورہ یہ ہے کہ اگر آپ میں ایک خاص نوعیت کا پاگل پن نہیں ہے،تو آپ اس سے دور ہی رہیں، اسی میں آپ کا بھلا ہے اور پروفیسروں کا بھی اور قوم کا بھی۔ مختصر سی بات کرنا چاہتا تھا ، لمبی ہوگئی، کسی وقت پھر اس پر اظہار خیال کی کوشش کروں گا۔ والسلام۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے