کیا آپ کو بھی یہ کام کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے؟

ٹرین سے اترا تو راستے میں یہ سبھی خوش گپیاں لگا رہے تھے لیکن ساتھ ساتھ کوڑا بھی جمع ہو رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ یہ خاص طور پر سگریٹ کے ٹکڑے جمع کر رہے ہیں۔

انہوں نے دو برس قبل اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک چھوٹا سا گروپ بنایا تھا اور تب سے یہ مہینے میں ایک مرتبہ کہیں نہ کہیں جا کر صفائی کرتے ہیں۔ ویسے تو جرمنی میں صفائی کا انتہائی شاندار نظام موجود ہے، جگہ جگہ کوڑے دان لگے ہوئے ہیں۔ گھر کا کوڑا بلیک ڈبوں میں پھینکا جاتا ہے، بلیو کوڑے دان پیپر اور گتے کے لیے ہیں اور ییلو کوڑے دان میں آپ پلاسٹک وغیرہ پھینکتے ہیں۔ سٹی انتظامیہ کوڑا اٹھانے کے پیسے آپ سے ماہانہ وصول کرتی ہے۔ سڑکوں کی صفائی شہری انتظامیہ کی ذمہ داری ہے لیکن سگریٹ کے پھینکے ہوئے ٹکڑے اٹھانا آسان کام نہیں۔ صفائی کی مشینیں بھی کونوں وغیرہ میں نہیں پہنچتی۔
انہوں نے پانچ منٹ لگا کر مجھے بھی سمجھایا کہ سگریٹ کے ٹکڑے زیرزمین پانی کے لیے کس قدر نقصان دہ ہیں اور ساتھ ہی مجھے دعوت بھی دی کہ پانچ ستمبر کو میں بھی ان کے ساتھ صفائی میں شامل ہو جاوں۔ سگریٹ کا ایک پھینکا ہوا ٹکڑا چالیس لیٹر تک زیر زمین پانی آلودہ کر دیتا ہے۔

ایک لڑکی بولی کہ کچھ لوگ غیر ذمہ دار ہیں تو کچھ کو ذمہ داری اٹھاتے ہوئے ماحول کو صاف کرنے کی تحریک بھی چلانی ہو گی۔ اسی طرح اچھا نظام تشکیل پا سکتا ہے۔

اس گروپ میں بچے بھی ہیں، بوڑھے بھی اور جوان بھی۔ مقصد دوسروں میں احساس پیدا کرنا بھی ہے کہ کوڑا اس کے لیے بنائی گئی جگہ پر پھینکیں۔
لیکن ظاہر ہے حکومتی نظام نہ ہو اور ہر کوئی کوڑا پھینکنے کا ٹیکس نہ دے تو یہ نظام ناکارہ ہو جائے گا۔ یہ گروپ بھی پھر کچھ نہیں کر سکتا۔

مجھے یاد ہے کہ ہم نے بھی ایک مرتبہ محلے میں ایک گروپ بنایا تھا کہ گلی کو صاف رکھا جائے گا لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکا تھا کیوں کہ پیچھے کوئی نظام نہیں تھا، ہمارا کوڑا ری سائیکل نہیں ہوتا اور پھینکا کہاں جائے؟ یہ الگ مسئلہ تھا ۔

جرمنی نے کوڑے کو بھی معیشت سے جوڑ دیا ہے۔ یعنی کوڑا اٹھانے والوں کا روزگار لگا ہے، جہاں پھینکنا ہے، وہاں لوگ ملازمتیں کرتے ہیں۔ فیکڑیاں کوڑے سے جمع کردہ لوہا، پلاسٹک یا کاغذ آگے فروخت کرتی ہیں تو ایک مکمل نظام ہے۔

سوئٹزرلینڈ وغیرہ یا کسی پہاڑی علاقے میں جائیں تو وہاں سیاحوں کے رہنے کے کرایے میں ہی کوڑے کے پیسے ڈال دیے جاتے ہیں۔ یعنی سیاحوں کا کوڑا مقامی آبادی پر بوجھ نہیں بنتا۔ دوسرا جہاں تک سیاح جا سکتے ہیں، وہاں تک کوڑے دان لگا دیے گئے ہیں تاکہ کسی کو دوسری جگہ یا سبزے میں کوڑا پھینکنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ ظاہر ہے سیاح بچوں کے پیمپر یا دیگر چیزیں ساتھ ساتھ تو لے کر نہیں گھوم سکتے۔ لہذا ہر جگہ کے کرایوں یا ٹکٹوں میں ہی کوڑا فیس ڈال دی جاتی ہے تاکہ صفائی کا نظام چلتا رہے ، فیس سے کوڑے دان خریدے یا صفائی کرنے والوں کی ادائیگی کی جا سکے۔

خیر بات ان نوجوانوں کی ہو رہی تھی۔ تو یہاں کی سیاسی جماعتیں، یا دیگر تنظیمیں اسکولوں سے لے کر کالجوں تک نوجوانوں کو کسی نہ کسی مثبت کام میں لگائے رکھتی ہیں۔ بچوں اور نوجوانوں میں شروع سے ہی مسائل کا ادراک پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور وہ انہیں مقامی سطح پر حل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ بچوں کو ذمہ دار شہری بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سب کو علم ہے کہ انہی کے پیسوں سے سڑکیں اور دیگر چیزیں بن رہی ہیں۔ لہذا حکومتی املاک کی توڑ پھوڑ ان کے اپنے پیسوں کا ضیائع ہے۔

میں نے جرمن سیاسی جماعتوں کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے نوجوان کارکنوں کو مقامی مسائل کی نشاندہی اور پھر انہیں حل کرنے کے ٹاسک دے دیتی ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ نوجوان مقامی سطح سے شروع ہوتے ہیں اور ملکی سطح کی سیاست تک پہنچ جاتے ہیں، انہیں مسائل کا ادراک ہو جاتا ہے۔

اس کے برعکس آپ دیکھیں ہمارے زیادہ تر سیاسی پارٹیوں کے نوجوان گزشتہ آٹھ برسوں سے صرف سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو گالیاں دینے میں مصروف ہیں۔ میں سوچتا ہوں یہ ملکی سطح پر پہنچ کر کیسی سیاست کریں گے؟ شاید یہ عملی اور فلاحی سیاست میں بری طرح ناکام ہو جائیں۔

خیر یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ آپ نوجوان بھی ایسی چھوٹی سی تنظیم یا گروپ بنا سکتے ہیں۔ جو مہینے میں صرف ایک مرتبہ گلی کی صفائی کر لیا کرے، یا مہینے میں ایک مرتبہ بکھرے ہوئے شاپر جمع کر دیا کرے، یا پھر ہر مہینے کوئی دو درخت لگا دیا کرے، یا پھر دو ماہ بعد ایک دن پورے شہر، قصبے یا گاوں میں صفائی کا دن منائے، باقی لوگوں کو بھی اس کی دعوت دے۔ ہر جگہ کے مقامی مسائل ہوتے ہیں اور ان کے حل بھی مقامی تلاش کریں۔ پلیز کوئی نہ کوئی ایک مثبت چیز اگر انفرادی سطح پر نہیں تو گروپ کی صورت میں، اسکول میں، مدرسے میں یا اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ضرور کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے