خواتین ممبران اسمبلی کا کردار اور گلگت بلتستان کی خواتین کی حالت زار….

یوں تو خواتین کو 1991 سے لے کر 2020 تک اسمبلی میں نمائندگی دی گئی اور خواتین بھرپور انداز میں خواتین کی نمائندگی کرتے رہیں…
19دسمبر 1991 کو اسمبلی میں خواتین کی دو مخصوص نشستوں کو متعارف کروایا گیا، منتخب اراکین کونسل نے مخصوص نشستوں پر خواتین کا چناؤ عمل میں لایا گیا، ان نشستوں پر گلگت سے رانی عتیقہ غضنفر اور سکردو سے فوزیہ سلیم منتخب ہوئی۔

اس کے بعد 25 اکتوبر 1994 کو 24 حلقوں پر پہلی دفعہ انتخابات ہوئے اور اس بار خواتین کی مخصوص نشستوں پر پاکستان پیپلز پارٹی کی شائستہ شمیم اور ڈاکٹر پروین اشرف کا چناؤ عمل میں لایا گیا ، اس کے بعد قانون ساز کونسل کے آٹھویں انتخابات 3 نومبر 1999میں انتخابات میں خواتین کی مخصوص نشستوں کو دو نشستوں سے بڑھا کر پانچ کر دیا گیا، جس میں عقیلہ خاتون گلگت سے فریدہ بتول سکردو سے، شائستہ شمیم حمزہ دیامر سے، کنیز زہرہ غذر سے، ناصرہ بیگم گانچھے سے منتخب ہوئی ۔

12 اکتوبر 2004 کوانتخابات میں وفاقی حکومت نے ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر چھے مخصوص نشست متعارف کروائیں اور خواتین کی مخصوص نشستوں کی تعداد پانچ سے چھ کر دی گئی، جس میں گلگت سے رانی عتیقہ دوسری بار سکردو سے فوزیہ سلیم دوسری بار، دیامیر سے گل میرا،غزر سے نورالعین،گانچے سے آمنہ انصاری،استور سے شاہدہ شفیع خواتین کی مخصوص نشستوں پر آئی۔

12 نومبر 2009 کو گلگت بلتستان کے تاریخ کے دسویں انتخابات ہوئے جس میں خواتین کی منتخب سیٹوں پر گلگت سے محترمہ سعدیہ دانش پاکستان پیپلز پارٹی، سکردو سے شیرین فاطمہ پاکستان پیپلز پارٹی،دیامیر سے محترمہ گل میرا پاکستان پیپلز پارٹی ، محترمہ یاسمین نظر پاکستان پیپلز پارٹی گلگت سے محترمہ مہناز ولی جے یو ای پاکستان، گانچھے سے محترمہ آمنہ انصاری پاکستان مسلم لیگ قاف سے اسمبلی میں آئیں ، کونسل میں بھی دو خواتین کو نمائندگی دی گئی ، جن میں سے ڈاکٹر شمع خالد ، مہرین انور راجا ممبرگلگت بلتستان کونسل رہیں۔

12 دسمبر 2014 تا 25 جون 2015 نگران کابینہ میں محترمہ فوزیہ سلیم تیسری بار خواتین کی نمائندگی کرتی ہوئی آئی، اور گلگت بلتستان کی تاریخ کے گیارہویں انتخابات 8 جون 2015 کو ہوئے، جن میں ہنزہ سے رانی عتیقہ غضنفر تیسری بار ، دیامیر سے محترمہ ثوبیہ جبین مقدم، گلگت سے محترمہ بی بی سلیمہ،سکردو سے محترمہ ریحانہ عبادی، استور سے محترمہ نسرین بانو،گانچھے سے محترمہ شیرین اختر ٹیکنوکریٹس کی سیٹوں پر اسمبلی آئیں اور اپنا ٹینور مکمل کرکے چلی گئی۔

جیسا کہ آپ سب کو بخوبی علم ہے گلگت بلتستان کے خواتین کن مسائل اور مشکلات سے دوچار ہیں، جدید دور میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم خواتین کہیں غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں، تو کہیں گھریلو تشدد کا شکار ، خواتین کو کہیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اجازت نہیں ملتی تو کہیں صحت عامہ کے مسائل سے دوچار ہیں۔ خواتین کو ہنر مند بنانے کیلئے اقدامات ہو رہے پیں اور نہ خواتین کو خوشحالی کیلئے،اور خواتین کو نوکریوں میں مختص کوٹہ سیٹوں پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا، مختلف دفاتر میں ہراساں کرنے کے واقعات اور معاشرے میں عزت کے ڈر سے چپ رہ کر اپنی زندگی گزارنے والی خواتین کا اب تک کوئی پرسان حال نہیں، خواتین کو نمائندگی دی گئی لیکن ان خواتین نے دیگر خواتین گلگت بلتستان کے خواتین کے لیے کسی قسم کی راہ ہموار نہیں کی اور نہ انکی ترقی خوشحالی کیلئے اقدامات اٹھائیں بلکہ اپنی ذاتی مفادات حاصل کرنے کی حد تک محدود رہی۔

اس کی وجہ کیا تھی؟؟؟
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کی نمائندگی ملنے کے باوجود بھی خواتین کی بنیادی حقوق سے محروم کیوں ہیں؟
کیا وہ خواتین جو ایوانوں میں بیٹھی رہی اور اپنے حق کے لیے آواز بھی بلند نہیں کر سکی؟؟؟؟؟
کیا ان کی آواز کو دبایا گیا؟ ؟؟؟؟
یا پھر ان خواتین نے خود اپنے حق کے لیے آواز بلند نہیں کیا؟؟؟؟؟
کیا وجہ تھی کہ اب تک خواتین کے لئے صحیح معنوں میں خواتین کی آواز کوئی بھی خاتون بن نہیں سکیں؟؟؟؟؟,
آخر کوتاہی کس کی تھی؟؟
کیا آنے والے انتخابات میں بھی ایسی خواتین آئیںگے جیسے پہلے گزر چکی ہیں؟کیا تاریخ کو دہرایا جائے گا؟
کیا خواتین کی قسمت بدل جائے گی اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔۔۔۔؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے