417 ارب روپے پر فاتحہ پڑھ لیں

بہت سکینڈل فائل کیے اور پھر حیران ہونا بند کر دیا۔ ایک عادت سی ہوگئی۔ صحافت اور خبروں کو پروفیشنل انداز میں لینا شروع کیا۔ خود کو سمجھایا کہ جرنلزم کا مطلب ہوتا ہے آپ رپورٹ کرتے رہیں۔ آپ جج، جیوری اور جلاد نہیں۔ دل میں کبھی کبھار پھر بھی درد اٹھتا، یار یہ کون لوگ ہیں اور اس ملک کا کیسے بیڑا غرق کر رہے ہیں۔ ہم تو وہ لوگ ہیں ، جن کے پاس کہیں جانے کا آپشن بھی نہیں رہا۔ مرنا جینا اسی ملک میں ہے۔

آج کل میں مختلف کتابوں پر کام کر رہا ہوں۔ کچھ کتابیں مارکیٹ میں آ چکی ہیں اور کچھ آ رہی ہیں۔ میں ان سکینڈلز پر بھی کتاب چھاپ رہا ہوں، جو میں نے اپنی پچیس سالہ رپورٹنگ میں فائل کیے۔ ایک سے بڑھ کر ایک سکینڈل فائل کیے لیکن کسی کا کچھ نہ بگڑا‘ الٹا جس پر سکینڈل فائل کئے‘ وہ مزید ترقی کرتا گیا۔ میرے یار دوست میرا مذاق اڑاتے کہ جس پر تم نے سکینڈلز فائل کیے وہ اگر وزیر تھا تو فوراً وزیر اعظم بنا دیا گیا۔

ابھی وزیر اعظم عمران خان نے ارشد شریف کو دو گھنٹے کا طویل انٹرویو دیا۔ دو تین باتیں ایسی کہیں کہ میں سوچنے لگا‘ حکومت کا سربراہ واقعی اتنا بے خبر یا بھولا ہو سکتا ہے یا اسے ہونا چاہیے؟ کیا وزیراعظم کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ ان کے یار دوست اور چندہ پارٹی اپنی جگہ لیکن ملک کے بائیس کروڑ لوگوں کا بوجھ اور اعتماد بھی ان کے کندھوں پر ہے؟

میرا بیٹا ڈرائیونگ سیکھنے لگا تاکہ لائسنس لے سکے تو میں نے اسے کہا: بیٹا ایک بات ذہن میں رکھنا‘ تمہاری اپنی جان تو قیمتی ہے ہی لیکن تمہاری جان کے علاوہ جو لوگ تمہاری گاڑی میں تمہاری ڈرائیونگ پر اعتبار کر کے بیٹھ گئے ہیں ان سب کا بوجھ بھی تمہارے اوپر ہے۔ جب بھی ایڈونچر کرنے کو دل کرے یا سپیڈ مارنے کو تو اپنی گاڑی میں نظر گھما لینا کہ تمہارے علاوہ بھی کچھ زندگیاں اللہ کے بعد تم پر بھروسہ کیے بیٹھی ہیں کہ تم انہیں بحفاظت منزل تک پہنچاؤ گے۔ تو کیا حکمرانوں کو اس بوجھ کا احساس نہیں رہا؟ اقتدار ملنے سے پہلے وہ عوام کا بوجھ محسوس کرتے تھے پھر اچانک انہیں عوام سے زیادہ اپنے دوستوں اور ان کے کاروباری مفادات کی فکر پڑ گئی؟

ارشد شریف کے انٹرویو میں دو باتیں اہم تھیں۔ ایک‘ ترکی کی کمپنی کارکے نے سوا ارب ڈالرز جرمانہ کیسے معاف کیا اور دوسری‘ جی آئی ڈی سی کیس کا 417 ارب روپے کا سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ۔ ان دونوں سوالات کے جو جوابات دیئے گئے مجھے وہ سن کر جھٹکا سا لگا کیونکہ میں ان دونوں کیسز سے بخوبی واقف ہوں اور ان پر کام بھی کیا ہوا ہے۔

کارکے کمپنی نے پیپلز پارٹی دور میں سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی مدد سے چھ سو ملین ڈالرز کے قریب کا کنٹریکٹ لیا اور اس میں سب کو پیسہ کھلایا گیا۔ جو کام سو ملین ڈالرز کا تھا اس کا بل چھ سو ملین ڈالرز کا بنایا گیا۔ جب ان کی کرپشن پکڑی اور کنٹریکٹ ختم کیا گیا تو انہوں نے نیب افسران کی مدد سے این او سی لے کر عالمی عدالت میں مقدمہ کیا اور جیت لیا۔ تب وزیر اعظم نواز شریف نے کمیٹی بنائی جس میں آئی ایس آئی افسر بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی نے دنیا بھر سے ترکش کمپنی کی کرپشن پکڑ لی اور عالمی عدالت میں پٹیشن فائل کر دی گئی۔ عالمی عدالت کے رولز کے تحت اگر ثابت ہو جائے کہ آپ نے کنٹریکٹ کرپشن کے ذریعے لیا ہے تو تمام جرمانہ معاف اور کمپنی بلیک لسٹ ہو جاتی ہے۔ اس پر ترک دوستوں نے فوراً عمران خان صاحب سے مدد مانگی‘ حالانکہ یہ کمپنی قبل ازیں عالمی عدالت سے کیس جیتنے کے بعد تین ملکوں میں پاکستان کے وہاں موجود اثاثوں کو بیچ کر جرمانہ ادا کرنے کے لیے ان ملکوں کی مقامی عدالتوں میں پٹیشن فائل کر چکی تھی۔

یوں ترکوں کو خوش کرنے کے لیے سارا الزام ہم نے خود پر لے لیا کہ ہم ہی برے تھے حالانکہ کرپشن ترک کمپنی نے کی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ترک حکام سے احتجاج کرتے کہ ہمارے ترک بھائیوں نے ہمیں اتنا بڑا چونا لگایا‘ الٹا ہم پر سو ارب ڈالر کا مقدمہ بھی کر دیا اور جیت بھی لیا۔ اب جب وہ کمپنی کرپشن کرتے پکڑی گئی اور ثبوت ہاتھ لگ گئے تو ہم نے خود پر ملبہ ڈال لیا۔ بھائی‘ اگر ترک کمپنی صاف تھی تو آپ نے اس معاملے کی تحقیق کرنے والے اپنے تین افسران کو ایک ایک کروڑ روپے کا انعام کیوں دیا؟ اب فرماتے ہیں‘ اس تفتیش سے ہمیں ایج ملا اور ہم نے پیسے معاف کرا لیے۔ تو پھر طیب اردوان صاحب کا شکریہ کس چکر میں اگر ہمارے افسران کی وجہ سے ایج ملا؟ اس وقت ترک صدر نے ہماری مدد کیوں نہ کی جب عالمی عدالت میں ہم ذلیل ہو رہے تھے یا ترک کمپنی دنیا کے تین ملکوں میں سو ارب ڈالر ہرجانہ نکلوانے کے لیے وہاں لوکل عدالتوں میں پاکستان کے اثاثوں کو بیچنے کے لیے مقدمے فائل کر رہی تھی؟

یہ ہے وہ احساس کمتری جو ہمیں لے ڈوبا ہے۔ کرپشن بھی ترک کمپنی نے کی‘ لوٹ مار بھی کی، ہمیں عالمی عدالت میں ذلیل بھی کیا‘ تگڑا مال بھی بنایا اور آخر میں ہم سے کریکٹر سرٹیفکیٹ بھی لے لیا۔ یہ کام انہوں نے کیا جو فرماتے تھے‘ میں پاکستان کی عزت بحال کراؤں گا۔ عزت بحال کرانے کا پہلا موقع آیا تو سب ٹھس ہو گئے۔ دوسرا ایشو اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے۔ ہم سمجھے بیٹھے تھے‘ وزیر اعظم جی آئی ڈی سی کیس کے تاریخی فیصلے سے بہت خوش ہوں گے‘ لیکن اب ارشد شریف کے پروگرام سے یہ پتہ چلا ہے کہ یہاں تو باقاعدہ سوگ کا عالم ہے کہ یہ کیس ہم کیوں جیتے۔ وزیراعظم کا ارشد کو کہنا تھا: ہم تو افسردہ بیٹھے ہیں کہ یہ کیس جیتنے میں فائدہ تھا یا ہارنے میں۔ ان کا مطلب تھا‘ ہار جاتے تو ہمارے لیے بہتر ہوتا۔ فرمایا: بتایا گیا ہے وہ پیسے نہیں ملیں گے جو اس کیس سے پہلے مل رہے تھے۔

وزیر اعظم کی باتوں سے صاف لگ رہا تھا کہ انہوں نے عدالت کا فیصلہ نہیں پڑھا‘ نہ ہی انہیں اس کیس کے حقائق کا پورا علم ہے۔ اس کیس کے جیتنے پر افسردگی دیکھ کر میں خود افسردہ ہو گیا کہ واقعی وہ اتنے سادہ ہیں کہ جو کچھ ندیم بابر نے بتا دیا وہ مان لیا؟ پتہ چلا‘ ندیم بابر نے انہیں بریفنگ دی کہ مشکل سے آپ کو نوے ارب روپے ملیں گے‘ آپ چار سو سترہ ارب روپے بھول جائیں‘ اور موصوف نے اس معاملے میں کئی کہانیاں بھی سنائی ہیں۔ میں نے پوچھا: نہ آپ نے وہ فیصلہ پڑھا ہے اور نہ ہی آپ کے وزیر اعظم نے۔ ان کا بڑا پن اور مہربانی کہ انہوں نے اعتراف کیا کہ واقعی میں نے وہ فیصلہ نہیں پڑھا۔ ان کا کہنا تھا: یہ بریفنگ ندیم بابر کی ہے۔

میں نے کہا: ندیم بابر تو اس جی آئی ڈی سی سکینڈل کے سب سے بڑے فائدہ اٹھانے والوں میں سے تھے۔ وہ فیصلہ تو ان کے خلاف ہے اور انہی سے بریفنگ لی گئی ہے اور انہوں نے وزیراعظم کو قائل کر لیا کہ بہتر ہوتا ہم یہ مقدمہ ہار جاتے‘ اور یہی بات عمران خان صاحب نے لفظوں کو آگے پیچھے کرکے ارشد شریف کے شو میں دہرا دی اور اس کیس کے جیتنے پر افسردہ نظر آئے۔ جس کو اس کیس میں پوری کابینہ کو مس لیڈ کرنے پر برطرف ہونا چاہیے وہ الٹا وزیراعظم کو قائل کیے بیٹھا ہے کہ بہتر تھا ہم یہ کیس ہار جاتے۔ دنیا بھر میں حکومتیں مقدمے جیتنے پر فتح کا جشن مناتی ہیں‘ یہاں سوگ منایا جارہا ہے۔

دراصل یہ لمبا کھیل تھا جس میں اربوں روپے کے فوائد بڑے بڑے مگرمچھوں نے اٹھانے تھے۔ جس ملک کا وزیراعظم چار سو سترہ ارب روپے کا کیس جیتنے پر سوگ منائے تو اندازہ لگا لیں اس ملک کی قسمت میں کیا لکھا ہے۔ جناب وزیراعظم کو افسردہ دیکھ کر میں نے تو 417 ارب روپے پر فاتحہ پڑھ لی ہے آپ بھی پڑھ لیں کیونکہ ندیم بابر نے وزیراعظم کو سمجھا دیا ہے بہتر ہوتا‘ ہم یہ کیس ہار جاتے۔

فیس بک پر زارا مظہر صاحبہ کا تبصرہ پڑھا۔ انہوں نے دریا کوزے میں بند کر دیا:
”ہمارے خان صاحب گرجنے والے بادل ہیں، برسنے والے نہیں‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے