کشمیر، نیا گپکار ڈیکلریشن اور اس کے مضمرات

گپکار روڈ سرینگر پر 4 اگست 2019 کو سابق وزیر اعلٰی کشمیر فاروق عبداللہ کے گھر،اندرونی خود مختاری کے ساتھ ہندوستان کے ساتھ الحاق کی حامی، چھ سیاسی جماعتوں ، نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی، کانگریس، پیپلز کانفرنس ، کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) عوامی نیشنل کانفرنس کے اتحاد نے اتفاق رائے سے حکومت ہندوستان کو انتباہ کیا تھا کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت اور دفعہ 370 / 35A کو ختم کرنے سے باز رہے۔ اس ڈیکلریشن کو کشمیر کی سیاسی تاریخ میں گپکار ڈیکلیریشن کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

گپکار جھیل ڈل کے کنارے سرینگر شہر کی مشہور ترین گلی ہے جو کشمیر کے بڑے لوگوں کی رہائش کا علاقہ اور اب ہائی سیکیورٹی زون ہے ، جس میں کشمیر کی سیاست اور نظم و نسق کو کنٹرول اور مستقبل کے فیصلہ کرنے والے مرکزی اداروں کے سربراہوں کی رہائش اور دفاتر بھی ہیں – کشمیر میں اس کی سیکیورٹی حیثیت اسلام آباد کے آبپارہ جیسی ہے-

پہلی میٹنگ کے فوراً بعد ان سب لیڈروں کو گرفتار کر کے ، 5 اگست کو دفعہ 370 کے تحت ریاست کو حاصل خصوصی امتیازی حیثیت ہی نہیں ، بلکہ اس کی وحدت اور شناخت کو ختم ، اور اس کے دو الگ الگ ٹکڑے کر کے مرکز کے زیر انتظام علاقے قرار دیا گیا-

یہ عمل نہ صرف بین الاقوامی قانون، انصاف اور سیاسی شعور کے خلاف تھا ، بلکہ ہندوستان کے آئین کی ہر دفعہ کے بھی خلاف تھا جس کو کشمیریوں نے ہی نہیں ، سوائے RSS کے بنیاد پرستوں کے ، ہندوستان کی سول سوسائٹی نے بھی جائز تسلیم نہیں کیا-

ایک سال بعد ، مورخہ 23 اگست 2020 ’’جب چُھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا ‘‘ کی مصداق ان ہی چھ جماعتوں کا ، اسی مقام پر ، سال بھر کی اسیری سے رہائی کے بعد دوبارہ اجلاس ہوا ، جس میں 5 اگست کے عمل اور اس کے تحت تمام جبری اقدامات کی مذمت اور منسوخی، ریاست کی وحدت اور دفعات 370/35A کی بحالی کے بعد، سیاسی عمل کو جاری کرنے کا اعادہ بھی کیا-

یہ دوسرا گپکار ڈیکلریشن ، پہلے کی تائید اور تسلسل میں ہے – ان چھ جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سارے لوگ وادئ کشمیر سے تعلق رکھنے کے علاوہ مسلمان ہیں اور 5 اگست سے ہی نظر بند کیے گئے تھے-

پاکستان کے وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی نے اس ڈیکلیریشن کو ’’خیر مقدم “ کے الفاظ کہے بغیر، ان حالات میں مین سٹریم جماعتوں کے اس اقدام کی خوبیوں اور اہمیت کو بیان کرتے ہوئے”بڑی بات “ کہا- اگر ایسا نہ کرتے تو ہندوستان کہتا پاکستان بھی اس کے خلاف ہے ، اگر اتنا کہہ دیا جاتا ”یہ ان کام مقامی عمل ہے ، پاکستان کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں “- مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسند لوگوں نے قریشی صاحب کے بیان کو ہندوستان کی بالواسطہ حمایت قرار دیا –

قطع نظر قریشی صاحب کے بیان اور کشمیریوں کی نا پسندیدگی کے ، گپکار اتحاد کے لوگ ستر سال سے یکے بعد دیگرے ان ہی کشمیریوں کے جائز یا ناجائز ووٹوں اور اسی ہندوستان کی اعانت سے کشمیر پر حکومت کرتے رہے ہیں، اس کے باوجود ان طلاطم خیز حالات میں اپنے سیاسی منشور کے مطابق ایک جاندار موقف لے کر ہندوستان کے خلاف کھڑے ہوئے ، یہ معمولی بات نہیں تھی –

لیکن یہ ان کی سیاسی سوچ اور سیاسی عمل کا حصہ ہے ، تحریک آزادی کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ، یہ جماعتیں کبھی تحریک آزادی کا حصہ نہیں رہیں کہ انہوں نے کسی کو دھوکہ دیا ہو – اس عمل کو زمینی حقائق کی رو شنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے-

اس پریس کانفرنس پاکستانی وزیر خارجہ کے ساتھ عمران حکومت کے ”نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر” معید یوسف بھی بیٹھے تھے جس سے اس پریس کانفرنس اور اس میں استعمال کیے گئے الفاظ کے ”معتبر” ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے-

معید یوسف صاحب امریکہ کے اس تھنک ٹینک سے منسلک ہیں جو اس وقت پس پردہ سفارت کاری میں مشرف ، من موہن سنگھ فارمولہ اور کشمیر پر دیگر آپشنز پہ از سر نو کام کررہا ہے اور ہندوستان و پاکستان کے ساتھ رابطہ میں ہے- پاکستان کے ساتھ رابطہ ممکن ہے معید یوسف کے ذریعہ ہی ہو ، جو فی الوقت دونوں کے اعتماد کا آدمی ہے-

ہندوستانی حکومت نے ، ہندوستانی اخباروں کی رپورٹس کے مطابق اس ڈیکلریشن کو اتنی ہی اہمیت دی جتنی فاروق عبداللہ کی اٹانومی رپورٹ اور پہلے گپکار ڈیکلیریشن کو دی تھی- صرف بی جے پی کے ریاستی صدر رویندر رائنا نے کہا کہ 5 اگست کے عمل کو رد کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ، جو مکمل ہو چکا ہے-

ریاست کے اندر تین طرح کی سیاسی سوچ کی حامل جماعتیں کار فرما ہیں :

پہلے نمبر پر ، کشمیر کی ہندوستان سے مکمل آزادی ، خواہ وہ آزاد اور خود مختار ملک کے طور ہو یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے طور – اس سوچ کی نمائندگی حریت کانفرنس میں شامل سب جماعتیں کرتی ہیں-

دوسرے نمبر پر ہندوستان کے ساتھ الحاق کے حامی ریاست کی خود مختاری/ سیلف رول کے نظریہ والے ہیں ، جس میں گپکار ڈیکلیریشن میں شامل سب کشمیری مسلمان ہیں.

تیسرے نمبر پر ہندوستان کے اندر مکمل انضمام ، جس میں جموں ، کشمیر اور لداخ سے تعلق رکھنے والے سارے غیر مسلم اور آٹے میں نمک کے برابر چند مسلمان بھی ہیں.

تینوں طرح کی سوچ رکھنے والے ریاستی باشندے ہیں جو اپنی اپنی سوچ ، فکر اور مفاد کے مطابق ریاست کے مستقبل کا حل چاہتے ہیں – ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا حق ان کو سلامتی کونسل کی قرار دادیں دیتی ہیں ، جبکہ خود مختار ریاست کی مانگ زمینی حقائق سے واضح ہے- سوائے انضمام کے حامیوں کے ، باقی سیاسی سوچ والے سب ہندوستان کے اس سارے عمل کے خلاف ہیں جو اس نے 5 اگست 2019 کو کیا گیا- جبکہ ہندوستان اور پاکستان اپنی اپنی منطق اور دلیلوں کی بناء پہ ریاست کو اپنا اٹوٹُ ا نگ اور شہ رگ سمجھ کے اس کے دعویدار ہیں-

اس وقت ریاست ، بالخصوص وادی کشمیر ، اور اس سے ملحق مسلم اکثریتی علاقے جس کرب و بلا سے گزر رہے ہیں اس کا اندازہ اور ادراک وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اس کیفیت کوسمجھتے ، اس سے گزر رہے یا اس سے براہ ریاست باخبر ہیں – اس وقت وادئ کشمیر کے لوگ ابلتے تیل میں تڑپتی مچھلی کی مانند ہیں-

انضمام کے حامیوں کے وارے نیا رے ہیں، جبکہ ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے خود مختاری اور سیلف رول کے حامیوں کو بھی ہندوستان اسی لاٹھی سے ہانک رہا ہے جس سے ہندوستان مخالفوں کو ہانک رہا ہے – یہ لوگ بھی سال بھر کی قید و بند کی صعوبتیں بھگتنے کے بعد دوبارہ بھی اپنے موقف اور اتحاد پر قائم ہیں –

دوسرا گپکار ڈیکلریشن ، ہندوستان سے الحاق کی حامی، سال بھر جیل میں رہنے اور سنگین ترین حالات کے باوجود ، کشمیر کی ہندوستان مخالف سیاست میں مثبت ارتعاش اور ہندوستان کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے-

ان سے الگ ہو کے مودی کے ہاتھ پہ بیعت کرنے والے الطاف بخاری صاحب کی قیادت میں مودی کے ہاتھ پہ بیعت کرکے ”اپنی پارٹی” بنانے والے، اس وقت تک اپنا کوئی مقام بنا سکے نہ ہی کشمیریوں کو اپنا ہمنوا ، اس پس منظر میں دوسرا گپکار ڈیکلریشن ہندوستان کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے-

ہندوستان آخر کب تک جبر کے قانوں اور طاقت سے لوگوں پر قابو پا سکتا ہے جن کے حق میں دنیا بھر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں اور یہ واضح ہے کہ فوج کے بغیر کشمیر میں ہندوستان ایک دن بھی نہیں رہ سکتا. فوج کو تو فوج ہی نکال سکتی ہے ، جو پاکستان بھی کرنے کو تیار نہیں جو کشمیر کا دعویدار ہے ، اور کون کر سکتا ہے؟

حریت اور ان سے وابستہ لوگوں این -آئ -اے کے ذریعے اتنا دبا کے رکھا گیا ہے کہ وہ سنبھلنے نہیں پا رہے اور ان کا کیڈر بھی منضبط نہیں رہا ہے ، لیکن ہندوستان کے خلاف مزاحمت کی علامت ہونے کی وجہ سے لوگوں کی امیدوں کا مرکز یہی لو گ ہیں- میرے خیال میں ان کو دوسرے گپکار ڈیکلریشن کے خلاف ہندوستانی الحاق کے حامیوں کی مزاحمت سے مدد مل سکتی ہے- ان کا کبھی اتحاد تو نہیں ہو سکتا لیکن ان کو دانستہ یا نا دانستہ طور گذارا کرنا پڑے گا-

ہم لوگ جو ان کے خیر خواہ ہیں، کو اس سلسلے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے – اس صورت حال میں ہمیں بیلنس قائم کرنے کی ضرورت ہے تا کہ حریت کو بھی نقصان نہ پہنچے اور مین سٹریم کشمیری جماعتوں کو ہندوستان کے مقابلے میں ریاست کے تشخص اور وحدت کو بحال کرانے کی سیاسی طاقت میں بھی فرق نہ پڑے.

سفارتی، آئینی اور سیاسی طور ہندوستان کی پوزیشن کشمیر کو مکمل ہضم کرنے کے حوالے سے واضح ہے – اس مقصد میں کانگریس اور بی جے پی میں سوائے اس کے کوئی فرق نہیں کہ کانگرس نے جو کچھ کیا وہ آئین ، جمہوریت اور سیکولرازم کو ڈھال بنا کے کیا ، جبکہ بی جے پی ان سب تکلفات سے بے نیاز ہو کے کررہی ہے – ابھی تک پاکستان کی طرف سے اس کے مقابلے کے جواب کا انتظار ہے-

پاکستان کو دوسرے گپکار ڈیکلریشن نے ایک اور موقعہ فراہم کیا ہے ان لوگوں کو پاکستان کے اندر ، اس سطح سے زیادہ کی خود مختاری کی آفر کرے ، جو وہ ہندوستان سے مانگ رہے ہیں ، لیکن ہندوستان دے نہیں رہا- پاکستان کو آئین کی دفعہ 257 کے تحت اپنا مدعا اور مقصد تبدیل کیے بغیر سکوت توڑ کے حکمت عملی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے- اگر پس پردہ کوئی اور کھچڑی نہیں پک رہی ، اس کی ابتداء پاکستان آزاد کشمیر سے کر سکتا ہے-

بہتر سالہ ”سیاسی، سفارتی اور اخلاقی ” مدد والے منترا کی پالیسی کے تسلسل سے پاکستان کچھ حاصل نہیں کر سکا ، جبکہ ہندوستان اپنے مقصد پر قائم رہتے ہوئے حالات کے ساتھ بدلتا اور قدم قدم آگے بڑھتا رہا – اس پر سوچنے کی ضرورت ہے –

پاکستان کشمیر کا ہراصول ، ضابطے ، ملکی اور بین الاقوامی قانون کے تحت جائز دعویدار ہے، اس کو اپنے موقف پر قائم رہنا چاہیے ، تاہم حکمت عملی بدلنا چاہیے، اس کو بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے سے کسی طور سستی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے ، کشمیریوں کا حامی رہے اور سلامتی سلامتی کونسل کی قرار دادوں پہ ڈٹا رہے – مقبوضہ کشمیر کی داخلی سیاست سے مکمل طور لا تعلق رہے ، لیکن کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم سے نہیں –

پاکستان افہام و تفہیم کے ذریعہ کسی بھی ایسے حل کو نظر انداز نہ کرے جو کشمیریوں اور پاکستان کے مفاد میں ہو ، لیکن ایسے حل میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان باقی تمام حل طلب معاملات بھی شامل ہوں اور مستقبل میں کسی بھی تنازعہ کے حل کے لیے اس کا بین الاقوامی گارنٹی کے تحت خود کار میکنزم موجود ہونا چاہیے ، جیسا سندھ طاس معاہدہ میں ہے- لیکن اس کے پرچار کرنے کی ضرورت نہیں ، اطمینان قلب کے ساتھ اس پر کشمیر کے سنجیدہ فکر لوگوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے، 47, 65 اور 90 کی دہائیوں کی یکطرفہ مہم جوئی کی طرح نہیں – جب تک کشمیر کے سنجیدہ فکر لوگ اس میں شامل نہیں ہوں گے کوئی ڈیل کامیاب نہیں ہو سکتی –

پاکستان ہندوستان کے 5 اگست 2019 کے عمل کو ختم کرنے یا بحال رکھنے کے مقبوضہ ریاستی باشندوں کے مطالبے کی قولآ اور فعلآ حمایت کرے نہ مخالفت کرے ، یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے اور ہندوستان کے ہر عمل کے رد عمل میں وہ اپنا طرز عمل بدلنے میں آزاد رہنے چاہییں- جہاں ریاست کے عام لوگوں نے وزیر خارجہ کے بیان کو بالواسط ہندوستان کی حمایت سمجھا وہیں ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے شاہ محمود قریشی کا حوال دئے بغیر اس کے بیان کے رد عمل میں کہا کہ“ ہم نہ دہلی کے کٹھ پتلی ہیں نہ سرحُد پار کسی کے ، ہم اپنے لوگوں کو جواب دہ ہیں“ – شاہ محمود قریشی کو اس پرکوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہیے تھا –

ہندوستان نواز جماعتوں کی طرف سے گپکار ڈیکلریشن بھی حریت اور پاکستان کے موقف کو بالواسطہ تقویت اور ہندوستان پر دباؤ بڑھائے گا – جس عمل سے بھی کشمیریوں کو راحت ملے ، وہ تحریک کے حق میں ہے-

گپکار اتحاد کے پریشر میں اگر صورت سابق بحال ہوتی ہے ( جس کا بظاہر کوئی امکان نہیں ، لیکن اگر کبھی ایسا ہوا بھی تو یہ صرف بی جے پی ہی کر سکتی ہے باقی کسی ہندوستانی جماعت میں یہ دم نہیں ) تو ہندوستان کے آئین کے اندر دفعہ 370/35A کا موجود ہونا کشمیر کا ایک حل طلب مسئلہ ہونا علامت کے طور موجود رہے گا- وہ ریاستی باشندے ہیں اور ان کا موقف بھی یو این ریزو لوشنز کے تحت ایک آپشن ہے-

ریاست کے ہر خطے اور ہر سوچ کے لوگوں کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ ریاست کے مستقبل کا حل ہونا پتھر پہ لکیر ہے ، کب ہوگا کیسے ہوگا کچھ نہیں کہا جا سکتا – سارا ہوگا یا صرف وادئ کشمیر ہوگی جو اپنی سر پہ کفن باندھے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے – اب چین غیر مبہم طور لداخ کو فتح کرتا جا رہا ہے جبکہ اس کا اصل دعویدار پاکستان اس پر چپ سادھے ہوئے ہے- امریکہ کے جدید جنگی جہاز ہندوستان کی مدد کے لیے تیار بیٹھے ہیں – اس لیے اب یہ صرف ہندوستان، پاکستان اور کشمیریوں کا مسئلہ نہیں ، دنیا کا مسئلہ ہے اور دنیا اس کو اکیسویں صدی کے حالات کے تناظر میں حل کرے گی ، انیسویں کے تناظر میں نہیں –

ہندوستانی آئین کی دفعات 370-35پاکستان کا مسئلہ نہیں ، اس کا مطالبہ سلامتی کونسل کے ذریعہ استصواب رائے ہے – پاکستان کو صرف استصواب رائے کی حمایت کرنا چاہیے، مقبوضہ ریاست میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف ڈٹا رہنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ اپنے ملک کے سیاسی استحکام ، اقتصادی ترقی اور سفارتی اثر و رسوخ کو بڑھانے میں کو شاں رہے – اور کچھ نہ بھی نہ کرے ، یہ بھی کشمیریوں کے لیے کافی ہے-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے