’’کاہل‘‘ وزیراعظم کو گھر بھجوانے کا تازہ ترین ’’نسخہ‘‘

اوکاڑہ سے قومی اسمبلی کی ایک نشست پر ہوئے ضمنی انتخاب میں جج کی عرفیت والے ایک ’’آزاد‘‘ امیدوار نے مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے نامزد امیدواروں کو بھاری اکثریت سے شکست دے کر مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
پیر کے روز اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات میں بھی آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد جیت کر سامنے آئی ہے۔ حکمران جماعت البتہ مطمئن ہے کہ ’’جہیڑا جتے اوہدے نال‘‘ والے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے ان ’’آزاد‘‘ افراد کی اکثریت میئر کے انتخاب کے موقع پر ان کے ساتھ مل جائے گی۔

اسلام آباد کے دیہی علاقوں سے متعلق دھڑوں اور ڈیروں کی سیاست کے ایک انتہائی تجربہ کار کھلاڑی، حاجی نواز کھوکھر مگر نواز لیگ کے اطمینان سے متفق نہیں۔ 9کے قریب آزاد امیدواروں کا تعلق ان کے گروپ سے جوڑا جارہا ہے۔ اگر یہ گروپ متحد رہا تو تین میں سے ایک ڈپٹی میئر کی نشست بالکل لے سکتا ہے اور سی ڈی اے یا مقامی انتظامیہ سے اپنے معاملات کو سیاسی قوت کی بدولت باآسانی طے کرسکتا ہے۔

’’ککھ سے لکھ‘‘ ہوئے نودولتیوں کا’’آزاد‘‘ حیثیت میں نواز شریف اور عمران خان کی مضبوط اور مقبول جماعتوں کے مقابلے میں اپنا اثر ثابت کرنا ملکی سیاست کے طالب علموں کے لئے کئی ٹھوس سوالات اٹھارہا ہے۔ ان کے جواب ڈھونڈنے کے لئے کرنا ہوگی تحقیق اور کافی سوچ بچار۔ ان دو صلاحیتوں سے مگر ہم عرصہ ہوا محروم ہوچکے ہیں۔

ترکی کے ناول نگار اورحان پامک کا ذکر میں اس کالم میں تواتر سے کرتا رہتا ہوں۔ اس کے تازہ ترین ناولA Strangeness in my Mindکی بات بھی چند دن پہلے کی تھی۔ اس ضخیم ناول کے 200صفحات لیکن ابھی مجھے ختم کرنا ہیں۔ وہ ناول پورا پڑھ لوں تو اس کے بارے میں شاید ایک سے زیادہ کالم لکھنا پڑیں گے۔

فی الوقت آپ کو صرف یہ بتانا ہے کہ ایک خالص ادیب ہوتے ہوئے بھی پامک نے یہ ناول لکھنے سے پہلے چند نوجوان طلباء کی خدمات حاصل کیں۔ ان نوجوانوں کو اس نے ایسے لوگوں کو ڈھونڈ کر ان کے تفصیلی انٹرویوز کرنے پر آمادہ کیا جو اناطولیہ کے پہاڑی قصبوں سے رزق کی تلاش میں استنبول آئے۔ اس شہر میں دن بدن پھیلتی کچی بستیوں میں قبضہ گروپوں کی معاونت سے اپنے رہنے کے لئے زمین کے ٹکڑے حاصل کئے۔ ان ٹکڑوں پر اِدھر اُدھر سے کچرا اور ملبہ جمع کرکے محض شب بسری کے ٹھکانے بنائے اور بعدازاں نہ چاہتے ہوئے بھی یہ لوگ ان افراد کے آلہ کار بن جانے پر مجبور ہوئے جو قبضہ گروپوں کو سیاسی بنیادوں پر ’’لشکر‘‘ فراہم کرتے ہیں۔ یہ لشکر نسل یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر اپنے مخالفین کا چین سے جینا ناممکن بنادیتے ہیں۔ ریاست ان پر قابو پانے میں بالکل ناکام رہتی ہے اور بالآخر ہوتا یہ بھی ہے کہ ’’عوام کے ووٹوں سے‘‘ منتخب ہونے والی حکومتیں اپنی طاقت اور وسائل کو قبضہ گروپوں کی بسائی بستیوں کو ’’قانونی‘‘ بنانے اور وہاں بجلی،سڑکیں اور سیوریج کا نظام پھیلانے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔
استنبول پر قبضہ گروپوں کی یلغار اور ان کے طفیل پھیلی لسانی اور فرقہ وارانہ منافرت نے مجھے بارہا کراچی کی یاد دلائی۔ اس شہر کو مگر اورحان پامک نصیب نہیں ہوا۔ لے دے کر ایک ڈاکٹر عارف حسن ہیں جو کئی برسوں سے رزق کی تلاش میں کراچی آئے افراد کی اپنے سرپر چھت حاصل کرنے کی تڑپ کو اعدادوشمار کے ذریعے خالصتاََعلمی انداز میں بیان کئے چلے جارہے ہیں۔

اسلام آباد کراچی نہیں مگر اس شہر میں زمین پر قبضے یا ملکیت کے حوالے سے جڑے معاملات ایک زمانے میں قبرستان کی مانند خاموش اور سرکاری ملازمین پر مشتمل ایک منظم اور صاف ستھرا نظر آنے والے شہر کو بھی کراچی بنانے ہی والے ہیں۔ ان معاملات پر اخبارات کے لئے سٹی رپورٹنگ کرنے والوں نے بھی پوری توجہ نہیں دی۔ اورحان پامک جیسا کوئی تخلیق کار مل جانا تو ناممکن ہی نظر آرہا ہے۔

اسلام آباد کی روزمرہّ زندگی میں اُبھرتی نئی حقیقتوں میں پنہاتضادات اور ان کے ممکنہ اثرات پر غوروفکر کا تردد میرے جیسے ریٹنگوں کے متلاشی صحافی اور عقلِ کل بنے اینکرخواتین وحضرات اس لئے بھی کرنے کو مائل نہیں ہوتے کہ ہمارے ہاں 1985ء سے جیسے ہی کوئی سیاسی وزیر اعظم آیا تو ہم اس کی فراغت کا دن طے کرنے میں مصروف ہوگئے۔

محمد خان جونیجو مرحوم کو 8سال تک مکمل مارشل لاء کے بعد جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے قائم ہوئی قومی اسمبلی کا وزیر اعظم بنایا تھا۔ موصوف کی اپنی کوئی ٹھوس سیاسی حیثیت نہیں تھی۔ صرف پیرپگاڑا کی سرپرستی حاصل تھی۔ پوری عاجزی مگر یکسوئی اور ہوشیاری کے ساتھ اس کمزور نظر آنے والے فرد نے صرف ایک سال بعد ہی ایسی قوت حاصل کرلی کہ ان کی چھٹی کی بات شروع ہوگئی۔ کہا جانے لگا کہ ضیاء الحق، جونیجو مرحوم کی دن بدن بڑھتی ’’خود مختاری‘‘ سے نالاں ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ انہیں وزیر اعظم بنا کر پچھتارہے ہیں۔ 1986ء کے نومبر سے جونیجو کی ’’رخصت‘‘ کی بات شروع ہوگئی اور بالآخر مئی 1988ء میں جنرل ضیاء الحق نے انہیں اور ان کی اسمبلی کو فارغ کردیا۔

جونیجو مرحوم کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی دونوں حکومتیں بھی اپنی آئینی مدت مکمل نہ کرپائیں۔ پھر آئے طویل عرصے کے لئے جنرل مشرف اور بالآخرNROکے ذریعے آصف علی زرداری کو ایوانِ صدر تک پہنچانے پر مجبور ہوگئے۔
آصف علی زرداری کا واحد کمال یہی ہے کہ موصوف نے جیسے تیسے ہی سہی اپنی آئینی مدت کے 5سال مکمل کئے۔ اس کے بعد نواز شریف کو روایتی جمہوری انداز میں اقتدار منتقل ہوگیا۔ مجھ ایسے افراد کو کم از کم یہ تسلی ہوگئی کہ وطن عزیز میں اب حکومتیں صرف سیاسی ذرائع اور ووٹ کی قوت سے آیا اور جایا کریں گی۔

گزشتہ چند ہفتوں سے مگر اس ضمن میں میرے اطمینان کو شدید دھچکے لگ رہے ہیں۔ ٹی وی سکرینوں پر بیٹھے میرے چند ساتھی پورے اعتماد اور واضح الفاظ میں ہمیں نواز شریف کی فراغت کے لئے ذہنی طورپر تیار کررہے ہیں۔ تازہ ترین ’’نسخہ‘‘ ان کی فراغت کا بندوبست نوازشریف کو بیماری کے نام پر ایک سال کی چھٹی پر بھیجنے کے ذریعے بتایا جارہا ہے۔

بیماری کے بہانے ایک سال کی چھٹی والے نسخے کے دفاع میں کہا جارہا ہے کہ آج کے زمانے میں پاکستان ایک اور مارشل لاء کا نشانہ بنا تو ’’دُنیا کو عجیب لگے گا‘‘۔ ہمیں تو ایسا ماحول درکار ہے جہاں منتخب ادارے بھی بظاہر موجود ہوں اور صحافت بھی مکمل طورپر بے باک اور آزاد نظر آئے۔

مجھے اپنی ریاست کے حتمی فیصلوں کا دائمی حق واختیار رکھنے والے اداروں کے سرکردہ لوگوں تک کوئی رسائی حاصل نہیں۔ ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے لیکن سن گن پاہی لیتا ہوں۔ معلوم مجھے یہ ہوا ہے کہ نواز شریف کے خلاف اصل شکایت یہ ہے کہ وہ Laid Back Incarnateثابت ہورہے ہیں۔ ’’مجسم کاہلی‘‘ اس کا آسان اور مناسب ترجمہ ہوسکتا ہے۔ اس ’’کاہل‘‘ وزیر اعظم کو مکمل آرام کے لئے غیر ملک بھیج کر اس قومی اسمبلی میں سے کسی ’’متحرک‘‘ شخص کو وزیر اعظم بنادیا جائے تو سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔

کہنے اور سننے کی حد تک رخصت والایہ ’’نسخہ‘‘ کافی معقول ہے۔ مگر نواز شریف کو ’’رخصت‘‘ پر جانے کا مشورہ عمران خان نے کبھی اپنے دھرنے کے دنوں میں بڑی رعونت کے ساتھ دیا تھا۔ اس پر ان دنوں عمل نہ ہو پایا تو اب کیسے ہوگا۔ اس سوال کا جواب مجھے کوئی فراہم نہیں کرنا چاہ رہا۔ ’’دیکھو اورانتظار کرو‘‘ کہہ کر بات ختم کردی جاتی ہے۔ میں نے بھی کج بحثی کی عادت سے اب اپنی جان چھڑالی ہے۔ انتظار کے لئے بالکل تیار ہوں مگر یہ بات کہنے سے پھر بھی باز نہیں رہوں گا کہ خدارا چودھری نثار علی خان کی ذات میں کوئی ’’متحرک وزیر اعظم‘‘ نہ ڈھونڈا جائے۔ یہ بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں۔

بشکریہ:نوائے وقت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے