بی آر ٹی بس میں سفر کی روداد

میرے سنیئر اور باجوڑ پریس کلب کے صدر حسبان اللہ کے ساتھ پشاور آیا تھا ، ان کے کچھ میٹنگز اور میرے کچھ ذاتی کام تھے ۔ صدر سے فارغ ہوکر جب ہم اپنے قیام گاہ کا رُخ کررہے تھے راستے میں دوست اور ہمارے نوجوان کیمرہ مین بلال خان کے ساتھ مشاورت کرلی کہ ہم بی آرٹی بس میں ضرور چکر لگائیں گے ، اورجہاں تک ممکن ہو اس چمکتی گاڑیوں کے سفر کا لطف اٹھائیں گے۔ خیبربازار میں ہم اپنے ساتھیوں سے جدا ہوئے ۔ ہم دونوں ہی اس قسم کے بس سروس سے نااشنا تھے۔ ہم نے بسم اللہ پڑھ کر ٹکٹ کاونٹر کا رخ کیا ، کاونٹر پر بیٹھی خواتین سے جھجک جھجک کر ٹکٹ یا زو کارڈ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہی تو خاتون آنکھوں پر چشمہ پر اور منہ پر ماسک لگائی کچھ اشاروں سے سمجھانے کی کوشش کررہی تھی پر اس کے اشارے ہمارے لیے بے سود ثابت ہورہے تھے ، اس دوران مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے خاتون صاحبہ سے کہا کہ ایک تو آپ نے ماسک لگایا اور بولتی بھی اتنی آہستہ آواز سے ہیں کہ کچھ سمجھ نہیں آرہا ، برائے کرم ہم پہلی بار آئے ہیں ، ہماری رہنمائی فرمائیں۔ تب وہ مسکرائی اور میرا شناختی کارڈ لے کر ٹائپنگ کرنے لگی ، چند منٹ کے بعد میرا زو کارڈ تیار تھا۔

پاکستان میں لاہور میٹرو سے نسبتا جدید بسوں میں سفر کا آغاز ہوا ہے۔ لاہور ، اسلام راولپنڈی ، ملتان کے بعد پشاور میں بھی میٹرو بسیں پاکستان میں ٹریفک کم کرنے اور عوام کو سہولت فراہم کرنے کا قابل ستائش اقدام ہے ۔ پشاور میں یہ بسیں پہنچاتی تو بلاشبہ جلدی ہیں لیکن فی الحال اس میں بندے کی جو حالت ہوجایا کرتی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ سٹیشن پر کھڑے کھڑے ہم نے بسوں میں دیکھا کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ، انتظار میں اتنے لوگ کھڑے ہیں کہ شائد ہی گھنٹوں بھی موقع ملے۔ ہم بھی کسی ایمرجنسی میں نہ تھے بلکہ چکر اور بی آر ٹی انجوائے کرنے کے غرض سے آئے تھے لہذا کچھ دیر انتظار کے بعد فل زور زبردستی کے ساتھ ایک بس میں چڑھنے میں کامیاب ہوگئے۔ کچھ دیربس کے اندر دھکے کھاکر پتہ چلا کہ سوائے سڑک کی حالت اور ظاہری نمود و نمائش کے عام لوکل بسوں کی طرح اندر کچھ نہیں بدلا ۔۔۔

بس سٹاپ سے روانہ ہوئی تو سب سے پہلا اعلان جو ہماری سماعتوں کے نظر ہوا کہ اپنے جیبوں پر نظر رکھیں ، فوراً سے پیشتر ہم اپنے بٹوے اور موبائل کے جانب متوجہ ہوئے ۔ گاڑی چل پڑی ، ساتھ میں ہماری آزمائش اور سخت امتحان کا آغاز بھی ہوگیا ، بس میں بے پناہ رش تھا ، ہر سٹاپ پر جانوروں کی طرح ایک دوسرے کو دھکے دیتے لوگ کم اترتے اور زیادہ سوار ہورہے تھے۔ بس میں ای سی کی سہولت تھی اور چل بھی رہی تھی مگر اتنے زیادہ سواروں میں گاڑی کی اے سی کا اثر دکھانا ناممکن لگا۔ جوں جوں ہم آگے بڑھتے گئے ، حبس بڑتا رہا ، بالکل دم گھٹتا محسوس ہوا۔ ساتھی بلال خان نے کہا کہ مجھے تو چکر آنے لگا ہے بس اب اترتے ہیں ۔ میں نے انہیں دلاسہ دیا کہ بس بلال تھوڑی دیر اور انجوائے کرلینے دو۔ بلال غصے سے لال ہوا اور منہ پھیر لیا۔

بس میں کھڑا تقریبا ہر دوسرا تیسرا شخص ہاتھ میں موبائل اٹھائے ، کوئی ویڈیوز بنانے ، کوئی تصاویر اتارنے ، کوئی لائیو ویڈیوز میںآکر اپنے پاگل پن کا اظہار فرینڈ کے ساتھ شیئر کرنے میں ، تو کوئی لائیو کال پر کسی عزیز کو لیکر پوری بس کا معائنہ کرواتا ، تو کوئی ٹک ٹاک کیلئے عجیب عجیب حرکتیں کرتا نظر آیا ۔ان حالات کے ساتھ ہمارا سفر جاری تھا۔

پشاور کی تاریخ میں پچیس ماہ قبل پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے بی آر ٹی منصوبہ شروع کیا گیا تو چھ ماہ میں اس منصوبے کے مکمل ہونے کی نوید سنائی گئی اور شہر کا شہر اس کے لیے کھود دیا گیا۔ مگر منصوبہ مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت میں پورا نہ ہو سکا۔ بی آر ٹی پر جاری کام پشاور کے رہائشیوں کے لیے ایک عذاب محسوس ہونے لگاتھا۔ شہری پریشانی سے دوچار ہوئے تو اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس منصوبے کو لے کر پی ٹی آئی کو خوب آڑھے ہاتھوں لیا اور مسلسل تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ پچیس ماہ قبل جب بی آر ٹی پر کام کا آغاز ہوا تو اس منصوبے کی ممکنہ لاگت 49 بلین بتائی گئی مگر تاخیر اور منصوبے میں تبدیلیوں کے باعث بی آر ٹی کی لاگت 78 بلین تک پہنچ گئی۔

تاہم ان تمام تر مشکلات کے باجود آج پشاور کے رہائشی خوش نظر آتے ہیں۔ پشاور انتظامیہ کے مطابق اس منصوبے سے غریب اور متوسط طبقہ مستفید ہو گا کیونکہ پشاور کے شہری آج سے قبل چمکنی سے کارخانوں مارکیٹ تک کا سفر لوکل ٹرانسپورٹ میں کرتے، جس کے لیے انہیں 80 روپے تک کرایہ دینے کے ساتھ ساتھ گاڑی، ویگن یا چنگچی رکشہ تبدیل کرنا پڑتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ صرف پچاس روپے میں شہری چمکنی سے کارخانوں مارکیٹ کا یہ سفر صاف اور ٹھنڈی بس میں کر سکتے ہیں۔
میری ملاقات پشاور میں ایک دوست سے ہوئی ۔ اس نے بتایا کہ ہمارے لیے بالعموم اور خواتین کے لیے بالخصوص سکول آفس یا بازار جانا مشکل ترین مرحلہ تھا، جو اب آسان ہو چکا ہے۔ پہلے گھنٹوں ایک سٹاپ پر سواری کا انتظار کرنا اور پھر منزل پر پہنچنے کے لیے آدھے راستے میں سواری بدلنا مشکل تھا۔ وہ کبھی کبھار سوچتی تھیں کہ کیا یہ مشکلات بھی آسان ہوں گی؟
میرے دوست نے بی آرٹی کے فوائد پر مزید نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ ”پردہ ہمارے کلچر کا حصہ ہے اور لوکل ٹرانسپورٹ میں سفر کے لیے جہاں طویل انتظار کی زحمت تھی، وہیں سواری ملنے کے بعد خواتین کی مخصوص نشستوں پر جگہ ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا مگر اب بی آر ٹی میں خواتین کی مخصوص نشستیں بھی موجود ہیں اور ہر پانچ منٹ بعد کی یہ سروس انتظار میں کمی بھی لے آئی ہے۔

انتظامیہ کی جانب سے بی آر ٹی کے افتتاح کے موقع پر ایک لاکھ زو کارڈ کی مفت تقسیم نے اس منصوبے کی کامیابی پر مہر ثبت کر دی ہے کیونکہ ایک لاکھ زو کارڈ پہلے دو دن میں ہی تقسیم کر دیے گئے تھے اور زو کارڈ کے حامل افراد چمکنی سے حیات آباد تک کا سفر دس روپے میں کر سکیں گے۔ پچیس ماہ کا انتظار تو تھا لیکن اب پشاور کے مزدور، غریب اور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد انتہائی خوش اور پرجوش دیکھائی دیتے ہیں۔ وہ خوش ہیں کہ پشاور کی تاریخ میں یہاں کے عوام کو سفری فائدہ پہنچانے والا سب سے بڑا منصوبہ کامیاب ہوا ہے۔

میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس بس سروس میں مزید بہتری آئی گی۔ بس اور بس سٹاپ پر بہترین سہولیات میسر ہیں مگر بسوں کی نہایت کمی ہے تمام بسیں اب تک فعال نہیں ہوسکی ہیں۔ جب تمام بسیں فعال ہوں گی تو بڑی حد تک یہ مشکلات بھی حل ہوجائیں گے ۔ اس کے علاوہ سواریوں کیلئے بھی ضروری ہے ۔ کہ ان سہولیات کو دشمن کا مال نہ سمجھیں اس کو خراب کرنے کی کوشش نہ کریں ، انسانوں کی طرح رہیں اور اس شاندار سروس کو انجوائے کریں۔ سختی اور مشکلات کے باوجود نہایت شاندار تجربہ رہا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے