پشتونستان تحریک

سن1965 میں ایک طرف بھارت نے پاکستان کی مشرقی سرحدوں کے علاوہ پشاور اور کوہاٹ کو اپنے جنگی عزائم کا نشانہ بنایا تو دوسری طرف ہمسایہ مسلم ملک افغانستان نے پاک افغان سرحد پر پاکستان مخالف مسلح پشتونستان تحریک کی مالی اور عسکری معاونت کر کے پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی اپنے تئیں پوری کوشش کی۔

پشتونستان تحریک کے جنگجو پاک بھارت جنگ میں بھی افغانستان کی طرف سے وزیرستان اور خیبر پر مسلح حملے کر رہے تھے۔ اس طرح پاکستان اس وقت مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ مغربی سرحد پر بھی دفاع کے عمل کیلئے سرگرم تھا۔

افغانستان کی جانب سے 1947 کے بعد مسلسل پشتونستان تحریک کی حمایت جاری رہی اور 1965میں جب پورا پاکستان بھارت کےخلاف حالت جنگ میں تھا تو افغانستان کی حمایت یافتہ پشتونستان تحریک پوری تندہی سے پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ کرنے میں مگن تھی۔ کابل میں اس وقت کے پاکستان کے سفارت خانے نے افغانستان سے درخواست بھی کی کہ جنگ کی حالت میں پاکستان کی مشکلات کو مزید نہ بڑھایا جائے۔

[pullquote]پشتونستان تحریک کی مختصر تاریخ ۔۔۔۔؟؟؟؟[/pullquote]

3جون 1947کے منصوبے کے تحت جب کانگریس، مسلم لیگ اور برطانوی راج کے درمیان معاہدہ ہوا کہ متحدہ ہندوستان کو تقسیم کیا جائے گا اور پاکستان کے بننے والے حصے میں اس وقت شمالی مغربی سرحدی صوبے کا فیصلہ ریفرنڈم کے ذریعے کیا جائے گا ، تو جون 1947میں بنوں کے مقام پر قوم پرستوں کے ایک بڑے جلسے کا انعقاد ہوا، جس کی صدارت سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی کے دادا امیر محمد خان نے کی۔

اس جلسے میں قوم پرستوں نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کا حصہ بننے کی بجائے، ایک علیحدہ خود مختار ریاست قائم کی جائے گی اور اس جلسے میں پیش کردہ قرار داد میں تمام پشتونوں سے حمایت کی درخواست کی گئی۔ باچا خان اگر چہ ابتدائی دور میں پشتونستان تحریک کے حامی تھے، لیکن بعدازاں انہوں نے پاکستان کے دستور ساز ایوان کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھا کر خود کو اس تحریک سے علیحدہ کرلیا، لیکن ان کے خدائی خدمت گار بڑے پیمانے پر اس تحریک کا حصہ تھے۔

جب اس تحریک کی سیاسی طور پر حمایت بند ہوئی تو پشتونستان تحریک نے بندوقیں اٹھا لیں اور ان کی قیادت وزیرستان کے مرزا علی خان المعروف فقیر آف ایپی کے ہاتھ میں آگئی جنہوں نے خود مختار پشتونستان ریاست کا اعلان کردیا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ دنیا بھر میں صرف افغانستان نے پشتونستان کے نام سے بننے والے اس ملک کو تسلیم کر لیا جس کا اصل میں کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ فقیر آف ایپی نے اپنی کابینہ کا بھی اعلان کردیا ان کے وزراءکو اس وقت خلیفہ کہا جاتا تھا۔ بعد میں فقیر آف ایپی کے کئی خلیفہ حکومت پاکستان کے سامنے سرنڈر ہو گئے۔

افغانستان کی جانب سے پشتونستان کی اس مسلح تحریک کی مسلسل حمایت ہوتی رہی۔ افغانستان کے جاری کردہ سرکاری گزٹ نے پشتونستان تحریک کے کئی رہنماﺅں کے افغان وزراء کےساتھ تصاویر بھی شائع کیں۔ افغان گزٹ کے مطابق افغان کابینہ کے انتہائی اہم وزیر سردار داﺅد 60کی دھائی میں پاکستان کے شدید مخالف سمجھے جاتے تھے اور انہوں نے پشتونستان تحریک کی ہر جگہ کھل کر حمایت کی۔ افغان صدر ظاہر شاہ ان دنوں پاک افغان امور کو دیکھنے کی بجائے اپنے وزیر سردار داﺅد کے ذریعے کام کرتے تھے۔ پشتونستان تحریک نے پشاور، خیبر، باجوڑ، وزیرستان اور دیگر کئی مقامات پر پاکستانی تنصیبات پر حملے کئے ۔1958ء،1962ء،1963ءاور دیگر کئی مواقعوں پر افغانستان کی جانب سے پشتونستان تحریک کے مسلح افراد اور افغان فوجیوں نے پاکستان کے سرحدی علاقوں پر حملے کئے۔

[pullquote]سن 1965 کی جنگ میں کیا ہوا۔۔۔۔؟؟؟؟[/pullquote]

4 ستمبر1965ءکو افغانستان کے سرکاری اخبار کابل ٹائمز نے خبر شائع کی کہ پشتونستان کے مسلح جوانوں نے وزیرستان میں پاکستانی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا۔ اس روزنامہ کے مطابق نیاز علی خان نامی کمانڈر نے شمالی وزیرستان کے میر علی اور پیر کلے میں پاکستانی فوج کی تنصیبات پر حملہ کیا اور انہیں نقصان پہنچایا۔ 6 ستمبر سے قبل مشرقی سرحد بالخصوص رن کچھ پر پاکستان اور بھارت کے مابین جھڑپوں کا آغاز ہوا تھا امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق چھ ستمبر کو باقاعدہ حملہ ہوا۔ اس حملے دوران بھارتی جنگی طیاروں نے پشاور صدر اور پشاور کے لنڈی ارباب کے علاقے میں مسجد کو نشانہ بنایا جائے جس میں 30 عام شہری جاں بحق ہوئے۔ اس کے علاوہ بھارتی جنگی طیاروں نے کوہاٹ میں کئی مقامات کے علاوہ لیاقت میموریل ہسپتال کو بھی نشانہ بنایا جس میں 34 شہری مارے گئے۔

افغانستان نے اس دوران بھی جنگی عمل کو روکنے یا بھارت کی مخالفت کرنے کی بجائے بھارت کی حمایت جاری رکھی۔ افغان سرکاری اخبار کابل ٹائمز میں شائع ہونے والے سرکاری بیان میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کی سرکار امید رکھتی ہے کہ بھارت پشتونستان کے علاقوں کو مزید نشانہ نہیں بنائے گی۔

محقق ڈاکٹر نفیس الرحمان کہتے ہیں کہ افغانستان ان جنگی حالات کے دوران بھی پشتونستان تحریک کی حمایت کررہا تھا کیونکہ اس تحریک کو سب سے پہلے افغانستان نے ہی تسلیم کیا تھا۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ افغانستان کے بھارت کے ساتھ روز اول سے بہترین تجارتی اور سفارتی تعلقات تھے اور بیشتر تجارت پاکستان کے راستے ہی ہوتی تھی۔ اس جنگ میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مزید پیچیدگیوں کا شکار ہوگئے۔ پاکستان کو 1951سے اندزہ ہوا کہ اگر افغانستان کے خلاف گھیرا تنگ کرنا ہے تو طورخم اور چمن بارڈر کو بند کیا جائے جس کے باعث افغانستان کے زمینی رابطے منقطع ہوجاتے تھے۔

سن 1965کی جنگ سے قبل فقیر آف ایپی کے انتقال کے بعد خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے قوم پرست رہنما افغانستان کے ریڈار میں آگئے اور انہوں نے پشتونستان تحریک کو جاری رکھا۔ 1965کی جنگ میں اجمل خٹک جو بعد میں عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر بھی بنے جنگی صورتحال کے دوران افغانستان میں مقیم رہے اور 1965میں پشتونستان تحریک کی حمایت میں اپنی شاعری کے ذریعے پاکستان مخالف تحریک کو تقویت دیتے رہے۔ اجمل خٹک نے ان دنوں افغانستان میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر رکھی تھی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے