فنون لطیفہ میں مجھے ڈرامے کی صنف سے رغبت یوں بھی ہے کہ میرا پسندیدہ مصنف چیخوف اس میدان کا ماہر تھا۔ وہ اس مہارت کے ذریعے روسی معاشرے کے اندر پلتی بربریت اور سماج کے دکھ سکھ اجاگر کرتا تھا۔مگر معاشروں کا چلن جدا ہوتا ہے ہر جا۔ظلم، تنگدستی،بے بسی، جرائم،اخلاقی برائیاں،تشدد، جنسی و دیگر مسائل ہر معاشرے میں وقوع پذیر ہوتے ہیں مگر جو اہم ہوتا ہے وہ ہوتا ہے معاشرے کا ان چیزوں پر ردِ عمل ۔ اب ردِ عمل دو طرح کا ہوسکتا ہے منفی اور مثبت، موافق اور مخالف۔ اب اگر میں کہوں کہ کسی ظلم کی حمایت میں ہاتھ کھڑے کر دیں تو کوئی بے ضمیر ہی ہاتھ اٹھائے گا ، ایسا آپ کو لگتا ہے مگر ہوتے ہیں ایسے لوگ جن کو ظلم کی دلیل دینی آتی ہے۔ سو وہ اپنے ضمیر کو ظلم کی حق میں کھڑا ہونے پر مائل و قائل کر ہی لیتے ہیں۔ بات چلی تھی ڈرامے کی صنف سے، میں یہاں ڈرامے کی انواع کی تفصیل میں نہ جاؤں گی کیونکہ مجھے کم لفظوں میں زیادہ بڑی بات کہنی ہے۔تمہید سمیٹتے ہوئے یہ کہوں گی کہ ڈرامہ نویس جو ہوتا ہے وہ کسی بھی معاشرے کے اندر ہی کا ایک فرد ایک اکائی اٹھ کر ان جملہ مسائل کی ایک تصویر بنا کر اسے آئینے میں سجا دیتا ہے۔ جدید دور میں اس آئینے کا نام سکرین ہے ، سو اب سکرین پر اپنی تصویر ‘جو ہے جیسی ہے’ کی بنیاد پر دیکھ کر، سماج تاؤ کھانے لگتا ہے۔ وہ ان سب کی روک تھام میں تو حصہ دار نہیں بنتا مگر اس تصویر کو چلنے سے روکنے کا ذمہ دار ضرور بن جاتا ہے۔
اب آتے ہیں پسِ تمہید،واقعہ یوں ہے کہ ہماری دوست سدرہ سحر عمران صاحبہ جو کہ نظم کی بہترین شاعرہ ہیں سو شعور سے مالا مال ہیں،ان کے متنوع خیالات سے لبریز ذہن نے سوچا کہ ایک روزمرہ کی بنیاد پر دیکھنے میں آنے والا مسئلہ قلم بند کیا جائے۔جو غیر محسوس طریقے سے ان کے معاشرے یعنی پاکستانی معاشرے میں سرایت کر چکا ہے اور یہ عین فطری بھی ہے ،یعنی جلن کا جذبہ حسد کی آگ۔ سو کیوں نہ اس کو سکرین پر دکھایا جایا کہ جلن کا انجام برا ہوتا ہے۔مگر اس ڈرامے کے ساتھ ہوا یہ کہ اس کو سراسر غلط سمجھا گیا، اس کا مرکزی خیال ‘جلن’ اور بہنوں کے درمیان حسد کے جذبے کے علاوہ کچھ اور سمجھا گیا۔اور پیمرا نے نوٹس جاری کردیا اور بندوق رکھی ناظرین کے کندھوں پر، جو سماجی برائیوں کے ارتکاب کو تحفظ تو دیتے ہیں مگر ان کا قلع قمع کرنے کے لئے اقدامات نہیں کرتے ۔اور اس ڈرامے کا اصل مقصد ہی نہیں سمجھا گیا۔
صرف سمجھا نہیں گیا، بلکہ کہا اور لکھا گیا کہ ‘سالی بہنوئی پر عاشق۔ ‘ سالی لکھنا، کہنا مناسب ہے ،مگر جلن کے جذبے کے تحت رونما ہونے والی کوئی اخلاقی برائی دکھانا مناسب نہیں، خواہ وہ واقعہ خود کے محلے میں تیسرے مکان میں ہی کیوں نہ پیش آیا ہو۔ جلن پر اعتراضات ان لوگوں نے بھی کیے جنھوں نے ڈرامہ دیکھا تک نہیں۔ قرنطینہ کے زمانے میں فرصت سے لبریز انسانوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ ہر ڈرامے کی ایک پوری ٹیم ہوتی ہے اور ہر چینل کا کانٹینٹ ڈیپارٹمنٹ، اب جب اتنی جگہوں سے سکرپٹ اور کہانی گزر کر سکرین پر آچکی تو اسے زہرِ ہلاہل بولا جا رہا ہے۔معترضین کو ایک چیز میں فیصلے کی نوبت پیش نہیں آرہی وہ یہ کہ وہ سکرین اور ڈرامے سے کیا مراد لیتے ہیں۔ کیا ٹی وی تبلیغ کا ڈبہ ہے یا ڈرامہ نصیحت نامہ ہے یا انٹرٹینمنٹ ذرائع پر تربیتِ اطفال کی ذمہ داری لاگو ہوتی ہے۔ان کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ اگر یہی کلیہ ہے تو سامری جادوگر کو کس ڈرامے سے بچھڑا بنانے کی ترکیب ذہن میں آئی یا قارون کیسے بخیل بنا؟ مگر شاید شام کی چائے کی چسکی کے ساتھ نمک پارے کھانے کی بجائے یہ جملہ کہنے کی حاجت ہوتی ہے کہ ‘آج کل کیا دکھایا جا رہا ہے ڈراموں میں۔’
اور ان میں اکثریت Netflix subscription لے کر اپنا یوٹیوب چینل بھی آپ سے ضرور بیل آئکون دبا کر سبسکرائب کروانا چاہتے ہیں۔سو، ان کی شکایات چہ معنی دارد!
یادش بخیر ، میں اسلام آباد میں ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں اردو نیوز چینلز پر نشر ہونے والی املاء اور تلفظ کی غلطیاں جمع کرنے کے سلسلے میں کافی خبریں دیکھتی رہتی تھی۔ وہاں چینلز پر کرائم سین والے افسانے دکھائے جا رہے ہوتے۔ ان کی تعداد اور نوعیت دیکھ کر تو لگتا تھا کہ یا تو پیمرا کو ‘اصلاحی’ مہم روکے ہوئے عرصہ ہوا یا صرفِ نظر کر جاتے ہیں۔یا بس وہ تمثیل نگاری کے سوا کچھ نہیں۔۔سو اس کلیے کے تحت بھی ٹیم ‘جلن’ کو رعایت دی جائے
جن لوگوں کو بشمول پیمرا کے ،ڈرامہ سیریل جلن میں اخلاقی برائی نظر آتی ہے تو برائی کو ختم کرنے کا سوچیں، برائی بتانے والے کی محنت کو جڑ سے مت اکھاڑیں۔ کیوں کہ آپ جب ‘دو ٹکے کی عورت’ کو برداشت کرسکتے ہیں تو اس کو بھی ہلکا لیں، کوئی تربیت یافتہ اور سلیم عقل والا انسان ڈرامے دیکھ کر گم راہ نہیں ہوتا۔پیمرا اور دیگر پاکستانی اداروں سے یہ گزارش ہے کہ ڈرامے پر پابندی نہ لگائی جائے۔بلکہ ان جرائم و اخلاقی برائیوں کے خلاف آگاہی پھیلائیں جن کے خلاف ایک لکھاری قلم اٹھاتا ہے جیسے سدرہ نے اٹھایا۔