استور : راما لیک کے کناروں پر آباد شہری کس حال میں ہیں ؟

[pullquote]استور کی تاریخ [/pullquote]

ضلع استور گلگت بلتستان کے ان خوبصورت علاقوں میں شمار کیا جاتاہے جواپنے قدرتی حُسن سے مالامال ہے۔ گلگت بلتستان کا سب سے مشہور کھیل پولو فیسٹیول ضلع استور کے گاؤں راما میں منعقد ہوتاہے۔ ضلع استور سطح سمندر سے 2،600 میٹر بلندی پر واقع ہے . گلگت شہر سے تقریبا 120 کلومیٹر پر واقع ہے .اس کے شمال میں جگلوٹ ، مشرق میں اسکردو جبکہ جنوب میں چترال واقع ہے . استور میں چھوٹے بڑے تقریبا 100 گاؤں ہیں جن کی آبادی 120،000 افراد پر مشتمل ہے۔ شینا استور کی علاقائی زبان ہے. مشہور سیاحتی علاقوں میں چیلم، بوبین، عیدگاہ، چونگراہ پریشنگ رامکھا اور ترشنگ قابل ذکر ہے۔ مشہور سیاحتی مقامات میں فیری میڈوز، نانگا پربت، رامہ ویلی اور اس کے ساتھ جڑی ایک خوبصورت جھیل، شنگری، روپل پیک، چونگراہ پیک اور لیالاپیک ضلع استور کی پہچان ہیں .گلگت بلتستان سے قبل استور گلگت بلتستان کےلیے ایک گیٹ وے کی حیثیت رکھتا تھا. لوگ استور سے ہوتے ہوئے کاروبار یا تعلیم کی غرض سے سری نگر جاتے تھے. 1967 تک استور کی سرزمین گلگت بلتستان کے لیے گیٹ وے کہلاتی تھی . لوگ استور شونٹر پاس سے ہوتے ہوئے مظفرآباد اور اسلام آباد کا سفر کرتے تھے. جب شاہراہ قراقرم بنی ، اس کے بعد استور کی سڑکیں خاموش ہو گئیں .

[pullquote]استور کا تعارف[/pullquote]

گلگت بلتستان کا پسماندہ ضلع استور دفاعی ، جغرافیائی اور سیاحتی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے. استور ضلع کی آبادی سوا لاکھ افراد پر مشتمل ہے یہاں دو انتخابی حلقے اور دو تحصیلیں ہیں ۔ استور میں سہولیات کے فقدان کی وجہ سے پڑھے لکھے، پیشہ ور ، ہنر مند اور متمول لوگ اپنا شہر چھوڑ کر دوسرے شہروں میں جا کر آباد ہو گئے . ضلع کے اندر تعلیم ،صحت ، پانی ، بجلی اور شہر میں بڑھتی ہوئی آلودگی ،سیاحتی شعبے کی زبو ں حالی سمیت دیگر بے پناہ مسائل کا انبار لگا ہوا ہے.

[pullquote]سڑکوں کی صورتحال [/pullquote]

گلگت جاتے ہوئے شاہراہ قراقرم کے مقام سے دائیں طرف ایک پتھریلی سڑک گزرتی ہے جسے استور ویلی روڈ کہا جاتا ہے . استور کی طرف جانے والی اس سڑک پر سفر کرنا دل گردے کا کام ہے . ہر حکومت اس سڑک کی مرمت کے لیے ہر سال ترقیاتی بجٹ مختص کرتی ہے . سڑک کی مرمت بھی ہوتی ہے لیکن زلزلوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے سڑک پھر بری طرح متاثر ہو جاتی ہے .استور کی 75 فیصد غربت استور روڈ سے جڑی ہوئی ہے. استور روڈ کو فیڈرل پی ایس ڈی پی میں شامل کر کے بہترین شاہراہ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ سیاحوں اور افواج پاکستان کی سفری مشکلات میں کمی آسکے . استور کی مین شاہراہ کی حالت زار تو اکثر میڈیا کی زینت بھی بنتی رہتی ہے مگر بالائی علاقوں سمیت دیگر علاقوں کی رابطہ سڑکوں کی خستہ حالی بھی حکومتوں کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔استور شہر کے اندر مختلف سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہیں. شہر کو ماسٹر پلان کے تحت بنانے کی ضرورت ہے. استور میں سیاحتی مقام راما جو سطح سمندر سے تقریباً 10 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے. یہاں تک پہنچنے کے لئے سڑک کی خستہ حالی بہت بڑی رکاوٹ ہے .

[pullquote]تعلیم کی صورتحال [/pullquote]

ضلع استور کی پسماندگی اپنی جگہ مگر استور کی اپنی ایک تاریخ ہے . استور میں تعلیم کی شرح 98 فیصد ہے. لوگ استور سے دیگر شہریوں میں جا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں . استور ضلع میں ایک گرلز ہائیر سکینڈری سکول اور ایک بوائز ہائیر سکینڈری سکول ہے. ابھی تک لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ڈھری کالج نہیں بن سکا جسکی وجہ سے غریب لوگ انٹرمیڈیٹ کے بعد تعلیم سے محروم ہو جاتے ہیں .بااثر طبقہ تعلیم کے حصول کے لیے اپنے بچوں کو شہر سے باہر بھجوا دیتا ہے.

[pullquote]صحت کے مسائل [/pullquote]

جبکہ دوسری طرف ضلع استور اس جدید دور میں بھی صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے. ڈی ایچ کیو ہسپتال کے نام پر بننے والے ہسپتال میں میں تاحال آپریشن تھیٹر موجود نہیں . پورے ضلع میں کسی بھی شعبے کا اسپیشلسٹ ڈاکٹر تک نہیں ہے. گائنا کالوجسٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال حاملہ خواتین کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہو جاتی ہے .استور کی ڈومیسائل پر کئی طلبہ میڈیکل کالجز میں داخلہ لیتے ہیں لیکن ڈاکٹر بننے کے بعد وہ استور کے بجائے گلگت یا سہولیات سے مزین دیگر شہروں میں ملازمت کرتے ہیں . وہ استور آنا گوارا نہیں کرتے .گوریکوٹ میں بننے والا 50 بیڈ اسپتال بھی شروع ہونے سے پہلے ہی تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے. استور میں ڈسپنسریاں ہیں لیکن یہاں طبی سہولیات اور ادویات کا شدید فقدان ہے . استورمیں غیر معیاری اشیائےخوردونوش کی وجہ سے صحت کے مسائل بڑھ رہے ہیں لیکن انتظامیہ کی طرف سے کوئی نوٹس نہیں لیا جا رہا .

[pullquote]سیاحت، معشیت اور تجارت کے مسائل [/pullquote]

استور ضلع جہاں پسماندگی کا شکار ہے وہی پر قدرتی وسائل سے بھی مالامال ہے . دیوسائی جس کو دنیا کا چھت کہا جاتا ہے بھی استور میں واقع ہے. اسی طرح منی مرگ دومیل جھیل قدرتی حسن سے مالامال ہے. ان خوبصورت سیاحتی مقام تک رسائی کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے .دوسری طرف سیاحت کے شعبے کو فروغ دینے کے لئے انفارمیشن سنٹرز اور سائن بورڈ سمیت سیاحوں کی سہولت اور آرام کی خاطر بڑے اقدامات کی ضرورت ہے. سیاحوں کا رخ اگر استور کی طرف مڑ گیا تو یہاں روزگار سمیت کئی مسائل حل ہو سکیں گے اور علاقے میں خوشحالی آئے گی .یہاں اچھے ہوٹلز تعمیر کرنے کی بڑی گنجائش ہے .

استور کے تمام پہاڑ بھی قدرتی وسائل سے مالامال ہیں . استور میں قدرتی جڑی بوٹی پائی جاتی ہے مگر حکومتی سطح پر اقدامات نہ اٹھانے کی وجہ سے بااثر لوگ جڑی بوٹیوں کی اسمگلنگ کرتے ہیں . اگر حکومت جڑی بوٹی نکالنے سے متعلق کوئی پالیسی وضع کرےتو اس سے بھی روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں . لوگ یہاں ایندھن کے لیے غیر قانونی طور پر بے دریغ لکڑی کاٹتے ہیں . جنگلات کی غیر قانونی کٹائی کوروکنے کے لئے استور میں بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کیے جائیں . استور میں بجلی پیدا کرنے کے بڑے وسائل موجود ہیں لیکن حکومتی عدم توجہی کی بنا پر یہ مسئلہ حل نہیں ہو رہا .

[pullquote]پینے کے صاف پانی کا مسئلہ [/pullquote]

ضلع استور میں سیکڑوں کی تعداد میں ایسے چشمے پائے جاتے ہیں جن سے حکومت شہریوں کو صاف پانی فراہم کر سکتی ہےلیکن استور میں پینے کے صاف پانی کا بحران موجود ہے. حکومت کی عدم دلچسبی کی وجہ سے آئے روز لوگ پینے کے صاف پانی کے حصول کے لیے احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں .ضلع استور میں سب سے بڑا اور اہم مسلہ کرپشن کا ہے محکمہ برقیات اور تعمیرات کے سینکڑوں ایسے پراجیکٹس کو عوامی مفاد عامہ نوعیت کے ہیں مگر محکمہ برقیات اور تعمیرات عامہ کی ملی بھگت سے متعلقہ ٹھکیداروں نے کاغذات کی حد تک پراجیکٹس کو مکمل کر کے ٹھکیداروں سے اپنی کمیشن وصول کر کے ایڈوانس پیمنٹ کردئے مگر متعلقہ پراجیکٹس مویشی خانے کے منظر پیش کررہے ہیں . ان پراجیکٹس پر متعلقہ حکام اور ٹھکیداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے تحقیقاتی اداروں کو فعال بن کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے ادارے اور ٹھکیداروں کو عبرت کا نشان بنایا جا سکے.

[pullquote]استور کے مسائل کا حل [/pullquote]

استور میں گلگت بلتستان اسمبلی کے ایک حلقے کا اضافہ کیا جائے . اسی طرح ایک اضافی تحصیل کا قیام بھی ضروری ہے . اس سے استور کے بجٹ میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مسائل ان کے گھروں کی دہلیز پر حل ہو سکیں گے .

ضلع استور میں ہنگامی بنیادوں پر گرلز اور بوائز ڈگری کالج کا کا قیام عمل میں لایا جائے. استور کے دور دراز علاقوں میں بھی اسکولوں کی کمی ہےتاکہ بالائی علاقوں کے طلبہ و طالبات انٹرمیڈیٹ تک اپنے اپنے علاقوں میں تعلیم حاصل کر سکیں.

ڈی ایچ کیو ہسپتال استور میں آپریشن تھیٹر قائم کیا جائے. گائنا کالوجسٹ سمیت دیگر شعبوں کے اسپیشلسٹ ڈاکٹرز کو تعنیات کیا جائے .استور کے ڈاکٹرز کو یہاں ڈیوٹی کرنے کا پابند بنایاجائے.گوریکوٹ میں قائم اسپتال میں عملے کی تعنیات کر کے وہاں صحت عامہ کی بہترین سہولیات فراہم کی جائیں . ڈسپنسریوں میں طبی سہولیات ، طبی آلات اور ادویات فراہم کی جائیں .

استور ویلی روڈ ، رابطہ سڑکوں ، راما جھیل تک جانے والی سڑک اور دیوسائی کی طرف جانے والی سڑک کی بہترین منصوبہ بندی کر کے تعمیر کیا جائے. ان سڑکوں کی تعمیر سے پورے استور کے بڑے مسائل حل ہو سکتے ہیں .

ایندھن کے لیے جنگل کی کٹائی کو روکنے کے لیے استور میں بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کیے جائیں.

اشیائے خوردونوش کی قیمتوں اور معیار کو بہتر بنانے کے لیے محکمانہ کارروائی کی اشد ضرورت ہے.

مقامی سطح پر لوگوں کو ہنرمند بنانے کے لیے سرکاری سطح پر تربیتی مراکز کھولنے کی ضرورت ہے . اس سے بے روزگاری میں کمی ہوگی .

نوجوانوں کے لیے کھیلوں کے گراؤنڈ ، ثقافتی سرگرمیوں کے لیے ہال اور خواتین کی سماجی تقریبات کے لیے مخصوص فیملی پارک بنائے جائیں .

نوٹ : یہ مضمون آئی بی سی اردو کے زیر اہتمام فریڈرک ایبرٹ سٹفٹنگ (ایف ای ایس) کے اشتراک سے منعقدہ ورکشاپ کے دوران استور کے صحافیوں شمس الرحمان شمس اور رفیع اللہ آفریدی کی معاونت سے تیار کیا گیا . ورکشاپ میں انتخابات سے پہلے "گلگت بلتستان کے ترقیاتی منشور ” کی تیاری کے بارے میں صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے درمیان مکالمہ ہوا . مکالمہ کے رپورٹ آپ اس لنک پر ملاحظہ کر سکتے ہیں .

۔[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے