عبدالحمید خان کی واپسی اور مقامی قیادت کا المیہ

گلگت بلتستان کے قوم پرستی کا ایک دور اختتام کو پہنچ گیا۔ بالاورستان نیشنل فرنٹ کے قائد عبدالحمید خان کے سرنڈر پلس پہ گفتگو سے قبل ریاستی اداروں کو مبارکباد دینی چاہئے کہ انہوں نے ریاست مخالف ایک اہم علامت اور عنصر کو پاکستان کے نظام میں جگہ دیدی اور انہیں اس بات پر راضی کرایا کہ وہ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھ سکیں۔ گلگت بلتستان کا جو ڈھانچہ ہے شاید اس میں ابھی قوم پرستی کی گنجائش بھی نہیں ہے کیونکہ جہاں ون یونٹ کے مسائل سامنے آرہے ہیں اور ہم آواز نہیں ہوپارہے ہیں وہی پر صرف ملکی سیاسی جماعتوں کے نعروں کی بنیاد پر سیاست کی جاتی رہی ہے، اور مقامی طور پر ابھرنے والے کسی مطالبے یا آواز کو وہ مقبولیت نہیں مل سکی ہے۔ اور اس کی وجہ صاف ستھری ظاہر ہورہی ہے وہ یہاں کی فطری اور غیر فطری تقسیم ہے۔

تنازعہ کشمیر کے اہم فریقوں آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان میں ریاست سے مڑبھیڑ کوئی نئی بات نہیں ہے آخر الذکر میں اس حوالے سے کثیرالآرائی معرکہ بھی موجود ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں درجنوں ایسے افراد تھے جنہوں نے بھارت کے خلاف باقاعدہ محاز سنبھال کر بیرون ممالک چلے گئے اور وہی سے اپنے مطالبات اور بھارت کی مخالفت میں دنیا کی توجہ حاصل کرلی۔ مگر بھارت کو وقت گزرنے کے ساتھ اس چیز کا احساس ہوگیا کہ ان آوازوں کو دبانے سے کچھ نہیں ہوتا ہے لہٰذا ان کو بولنے دیا جائے اور غیر ضروری پابندیوں کو ختم کیا جائے جس کے بعد بڑے بڑے رہنماؤں کو ملک میں واپس آنے کی اجازت مل گئی جن میں شوکت کشمیری نام کا ایک کردار بھی ہے جو کسی زمانے میں طیارہ ہائی جیک کیس کے مرکزی ملزم تھے لیکن اب وہ بھارت کے ایک بڑے شہر میں موجود ہے۔ گلگت بلتستان میں ایسے رہنماؤں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جنہوں نے ریاست کے خلاف باقاعدہ محاز سنبھالا ہو۔ اکثریت کا موقف اب بھی یہی ہے کہ ہم پاکستان حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرتے ہوئے اپنے حقوق لے سکتے ہیں یا پھر حکومت پاکستان سے ملک کے اندر رہتے ہوئے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کریں گے۔ یہ پاکستان اور ریاستی اداروں کی بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے عبدالحمید خان کو محفوظ راستہ دیدیا۔ عبدالحمید خان سے منسلک رہنے والے افراد میں جذباتیت ضرور ہوگی مگر وہ قابلیت میں بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے اور عقل و منطق کی بنیاد پر گفتگو ان کا وصف تھا۔ کتابوں سے شغف رکھنا بھی ان کا مشغلہ تھا، ایسا نہیں تھا کہ وہ صرف عبدالحمید خان کی تقاریر کو رٹ کے اپنی سیاسی پوزیشن بنائیں۔ موصوف کا یہ یقینا اہم کارنامہ ہے کہ انہوں نے شعور اور جدوجہد کے لئے تعلیم کا راستہ اپنا نے پر زور دیدیا اور عسکریت سے تعلق بہت کم رہا۔

بالاورستان نیشنل فرنٹ کے قائد عبدالحمید خان

ریاست کی جانب سے سستی کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے عبدالحمید خان ایک علامت بنا ہوا تھا۔ موجودہ نوجوان نسل، جو سیاسی معاملات میں پیش پیش ہے، کی شاید حمید خان سے ملاقات بھی نہیں ہوسکی مگر ان کے لئے ایک نرم گوشہ تھا۔ لیکن عبدالحمید خان کی موجودگی ریاست مخالف ایک علامت بنی ہوئی تھی اور چونکہ جی بی کے نوجوانوں میں فرسودگی زیادہ ہے اس لئے سود و زیاں میں حمید خان کا نام لیا جاتا رہا ہے۔ اس سے قبل ریاست کے پاس آکر خود کو سرنڈر کرنے والے نوجوان آفاق بالاور بھی اسی کی بھینٹ چڑھ گیا لیکن انہیں بروقت احساس ہوگیا اور اگلے محاز سے قبل ہی وہ واپس آگئے۔ اس وقت آفاق بالاور کے راستے کو مشکوک نظروں سے دیکھا گیا لیکن عبدالحمید خان کی جانب سے اعتراف جرم کے بعد یہ راستہ صاف ہوگیا۔

اب حمید خان صاحب کی وطن واپسی پر سوالات کی شاید کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق بالاورستان کے قائد کو ’اعتراف جرم‘ تک لانے میں کم از کم ایک سال لگ گیا ہے اور یقینا اس دورانیہ میں معاملات بھی طے پاگئے ہوں گے اور مستقبل کا لائحہ عمل بھی کھینچا گیا ہوگا۔ لیکن جس طرح روش کی قوم پرستی کی بنیاد انہوں نے ڈالی تھی اس کا دور اختتام پذیر ہوگیا ہے۔

گلگت بلتستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں پر مقامی قیادت ابھی تک پنپ نہیں سکی ہے۔ اس کے کئی وجوہات ہیں جن میں سے کچھ بالائی سطور میں بھی زیر بحث آگئے ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں سیاسی مشق کا عمل سب سے مختصر ہے۔ گزشتہ تیس سالوں کے دوران ہی جتنی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان کو انگلیوں پر گنا نہیں جاسکتا ہے۔ 2009سے قبل تک ہم ’شمالی علاقہ جات‘تھے اور پہچان بالاسم کے عدم وجود کا شکار تھے۔ اس سے پہلے 1994تک یہاں پر سیاسی جماعتوں کی بنیاد پر انتخابات نہیں ہوتے تھے، جس کا لازمی نقصان یہی تھا کہ لوگ حلقوں کے حصول کے لئے مزید محدود ہوگئے۔ پھر مشرف دور تک جی بی میں ڈپٹی چیف ایگزیکٹو نام کا کوئی عہدہ ہوا کرتا تھا جو اب کمپنیوں سے بھی ناپید ہوگیا ہے۔ باقاعدہ سیاسی مشق کی عمر زاتی خیال میں محض دو انتخابات ہیں۔

گلگت بلتستان میں مقامی قیادت کو آگے لانے کے لئے قائدین حاضر کے علاوہ ریاست کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ گلگت بلتستان میں مبہم سا انتخابی عمل ہوتا ہے لیکن اس عمل میں وفاقی حکومت کی مداخلت بھی ایک دستور ہے۔ اس روش کو توڑ کر جی بی میں صاف شفاف انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے تاکہ قائدین اسلام آباد سے اعتماد لینے کی بجائے گلگت بلتستان کے شہریوں سے اعتماد لیں۔ وفاق سے نوٹیفیکیشن اور توسیعی قوانین لاگو کرانے کی بجائے وفاقی حکومت کے سامنے اپنے حقوق کے لئے کھڑے ہوجائیں۔ اس صورتحال کو سمجھنے کے لئے شاید موجودہ وقت سے بہتر وقت کوئی اور نہیں ہوسکتا ہے۔ صدر پاکستان نے جی بی میں انتخابات کرانے کی منظوری کے لئے جو وقت دیا تھا وہ اصولی طور پر 24اگست کو اختتام پذیر ہوگیا ہے۔ بعد ازاں مقامی ہائیکورٹ کا سہارا لیااور توسیع کرائی گئی۔ اس وقت تمام قانونی ضوابط ہوا میں ہیں، وفاقی حکومت کی جانب سے وضع کردہ شرائط برائے انتخابات کو مختصر کردیا گیا ہے جس میں ووٹرلسٹوں سے لیکر اعتراضات کا وقت بھی شامل ہے جبکہ اسلام آباد سے شطرنج کے مہروں کو ادھر ادھر کیا جارہا ہے جس سے صاف شفاف انتخابات پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

ریاست کو اس ایک قدم بیک فٹ کا جتنا فائدہ ہے اتنا جی بی کو بھی شاید نہیں ہے۔ اگر تنازعہ کشمیر اور مسئلہ کشمیر کو دنیا بھر میں گلگت بلتستان کے کسی شہری یا سیاسی قائد کے زریعے پیش کرتے تو آج تک معاملات کسی اور نہج میں ہوتے۔ سرتاج عزیز اور شاہ محمود قریشی جیسے لوگ جتنے بھی قابلیت کے تعویزوں کو گھول کر پئے ان کی زات پر اس موضوع میں جانبداری کا ٹھپہ لگا ہوا ہے اور وہ کسی صورت اس کیس کو اچھے طریقے سے پیش نہیں کرسکتے ہیں۔اور جب تک مقامی قیادت مضبوط نہیں ہوگی، اس ضمن میں پاکستان کا اپنا کیس بھی مضبوط نہیں ہوسکتا ہے۔ پاکستان کو مقامی قیادت کے لئے اقدامات اٹھانے ناگزیر ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے