غذر: پاکستان کا وہ ضلع جہاں ہر سال بڑی تعداد میں لڑکیاں خود کشی کرتی ہیں.

[pullquote]غذر کا تعارف [/pullquote]

گلگت سے دو گھنٹے کی مسافت پر ضلع غذر اپنے ارد گرد پھیلے قدرتی اور پرکشش نظاروں ، جگہ جگہ چیری، خوبانی اور آلو بخارے سے لدے درخت اور رنگ برنگے پھولوں کی وجہ سے گلگت بلتستان کی خوبصورت وادیوں میں شمار ہوتا ہے . یہاں گرمیوں میں موسم اتنا ٹھنڈا ہوتا ہے کہ اکثر پنکھوں کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ نو سو سالوں سے جاری دو روزہ قدیم ثقافتی تہوار جشن تخم ریزی سے مشہور غذر ، واخان راہداری کے ذریعے افغانستان سے ملتا ہے، مشرق میں ضلع ہنزہ نگر،ضلع گلگت اور ضلع دیامر سے ملتا ہے جبکہ جنوب اور مغرب میں صوبہ پختونخوا کے کوہستان،سوات اور ضلع چترال سے ملتا ہے۔ یہاں کے باشندے شینا ،کھوار اور بروشسکی زبان بولتے ہیں، جغرافیائی طور پر یہ خطہ پہاڑوں میں واقع ہے اور سردی کے موسم پر یہاں برفباری بھی ہوتی ہے۔ گاہکوچ غذر کا ضلعی دار الحکومت ہے۔ غذر میں سب سے بلند ترین پہاڑی چوٹی کویو زوم ہے جس کی بلندی 6871 میٹر ہے جو ضلع غذر اور ضلع چترال کے درمیان واقع ہے۔اس کے نام کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جب چترال کے مہتر کے ظلم کی وجہ سے چترال کے لوگوں کو علاقہ بدر کر کے زبردستی گوپیز کی طرف بھیج دیا جاتا تھا ۔ وہ لوگ عام طور پر گوپیز اور چترال کے درمیان ایک علاقے میں پناہ لیتے تھے ۔ وہاں کی مقامی زبان کھوڑ میں پناہ گزینوں کو غرذ کہا جاتا ہےاسی مناسبت سے اس علاقے کا نام غذر پڑ گیا۔

[pullquote]غذر کی سیاست [/pullquote]

ڈیڑھ سے دو لاکھ آبادی والا یہ ضلع چھ تحصیلوں یعنی پنیال ، گاہکوچ ، اشکومین ، یاسین ، گوپیز اور پھنڈر پر مشتمل ہے ۔ ضلع کے تین انتخابی حلقے جی بی 19 ، 20 اور 21 ہیں ۔ گزشتہ دونوں الیکشنز میں حلقہ 19 سے بی این ایف یعنی بلوارستان نیشنل فرنٹ کے امیدوار کامیاب ہوئے ، جب کہ دیگر دونوں حلقوں میں آزاد امیدوار اور حالیہ الیکشن میں ایک سیٹ پرپی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔ بی این ایف ایک چھوٹی سیاسی پارٹی ہے – جو گلگت بلتستان (پرانا نام بلوارستان) کی آزادانہ حیثیت پر یقین رکھتی ہے ۔ بہرحال پارٹی گلگت بلتستان میں کوئی خاص تعارف نہیں رکھتی ہے ۔ کیونکہ الیکشنز میں پارٹی نے صرف دو حلقوں میں اپنےامیدوار کھڑے کئے ۔ دیگر پارٹیوں میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نمایاں ہیں ۔

[pullquote]سماجی مسائل [/pullquote]

تعلیمی لحاظ سے ہائی رینکینگ والا یہ علاقہ مختلف سماجی مسائل کا شکار ہے ۔ ان مسائل میں خواتین کا خود کشی کرنا سر فہرست ہے ۔ یہاں کی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے جبکہ انسانی حقوق کمیشن کے مطابق یہاں اوسطاً سالانہ 20 خواتین اپنی زندگی کا خاتمہ کر رہی ہیں۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ ڈپریشن کی وجہ سے لڑکی نے خودکشی کر لی۔ وہ ذہنی مریضہ تھی۔لیکن سماجی حلقوں سے ایسے باتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ لڑکیوں کو تشدد کر کے قتل کیا گیا ۔ اگرچہ لڑکیاں پڑھی لکھی ہوتی ہیں لیکن گھریلو تشدد جیسے مسائل سے دو چار لڑکیاں خود کشی کو اپنا آخری حل سجھتی ہیں ۔ ابھی تک اس بارے مصدقہ اور غیر جانبدار تحقیق نہیں ہو سکی ہے ۔

[pullquote] بجلی، پانی اور گیس کے مسائل [/pullquote]

یہ گلگت بلتستان کا مشترکہ مسئلہ ہے ۔ غذر ایک مرکزی سیاحتی مقام ہے ۔ لیکن اس کے باوجود یہ وادی لوڈ شیڈنگ جیسے بدترین مسئلے کا شکار ہے۔ دریائے پھنڈر پر بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ پائپ لائن میں ہے ۔ 80 میگاواٹ کا یہ منصوبہ علاقے کی تقدیر کب بدلے گا ۔ یہ معلوم نہیں ۔ گرمیوں میں یہاں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 12 سے 18 گھنٹے تک کا ہوتا ہے ۔ اسی طرح سردیوں میں ٹرانسمیشن لائنز میں خرابی یا ٹوٹنے کی وجہ سے بجلی کی سپلائی طویل اوقات تک معطل رہتی ہے ۔ ایک سیاحتی مقام ہونے کی وجہ سے یہاں کا رخ کرنے والے لاکھوں مہمانوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح گھریلو استعمال کے لئے گیس کی شارٹیج ایک معمول کی بات ہے ۔ سردیوں میں اس کی طلب میں اضافے کے باعث گھروں میں گیس کی سپلائی تاخیر سے ہوتی ہے ۔ صاف پانی کی دستیابی بھی اہم مسئلہ ہے۔ پانی کی گندگی کی وجہ سے ہیپاٹائٹس سمیت کئی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ 34 کروڑ کی لاگت سے ایک پانی کی سکیم در مدرسے سے شروع ہو چکی ہے ۔ لیکن ایک سال کے بعد صرف ایک پائپ لائن بچھی ہے . ترقیاتی کاموں کی رفتار انتہائی سست ہے .

[pullquote]صحت کے مسائل [/pullquote]

ڈسٹرکٹ ہسپتال گاہکوچ سمیت تمام طبی مراکز میں سہولیات کا فقدان ہے ۔ عمومی مسائل میں ادویات کی کمی ، ڈاکٹرز کی تعیناتی ، سرجنز کی کمی شامل ہیں ۔ جب کی اسپتالوں میں سی ٹی سکین اور ایم آر آئی کی مشینیں تک دستیاب نہیں ہیں ۔20 کروڑ کی لاگت سے بننے والی ہسپتال کی عمارت میں ایک بھی سپیشلسٹ ڈاکٹر نہیں ہے ۔ سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے کوئی سپیشلسٹ گلگت سے گاہکوچ آنے کو تیار نہیں ہے، ڈاکٹرز اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے گلگت چلے جاتے ہیں کیونکہ انہیں وہاں سہولیات ملتی ہیں لیکن ان کی تنخواہ غذر کے بجٹ سے ادا کی جاتی ہے . اسی طرح پھنڈر تحصیل میں ایک بھی میڈیکل آفیسر نہیں ہے ۔ ان مسائل پر علاقے کے عوام کئی دفعہ مقامی نمائندوں سے احتجاج ریکارڈ کروا چکے ہیں ۔ لیکن تاحال شنوائی نہیں ہوئی ہے . اسی طرح خواتین میں خود کشی کی ایک وجہ ڈپریشن بتایا گیا ہے ۔ لیکن ڈپریشن کے علاج کے لئے کوئی سہولت موجود نہیں ہے ۔ نہ ماہرین نفسیات ہیں ، نہ ہی ایسے کوئی مراکز جہاں پر خواتین جا کر اپنے سماجی مسائل اور ان کے حل پر کھل کر بات کر سکیں ۔ گھریلو تشدد کے حوالے سے کوئی بھی خاتون ” حیا ” کی وجہ سے قانونی قدم نہیں اٹھا سکتی ہیں ۔ کئی طبی مراکز میں سرے سے ڈاکٹر موجود نہیں ۔ عام خیال یہی ہے کہ اگر کوئی ڈاکٹر یہاں آتا بھی ہے تو سیر وسیاحت کر کے واپس چلا جاتا ہے ۔ جب کہ طبی مراکز پیرا میڈیکل سٹاف کے رحم و کرم پر ہیں ۔ سیاسی نمائندوں نے عمارتوں پہ کام کیا ہے لیکن افرادی قوت پر کام نہیں کیا ہے۔

[pullquote]تعلیم کے مسائل [/pullquote]

غذر شرح تعلیم کے حوالے سے ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے ۔ چاہے لڑکے ہو ں یا لڑکیاں ، تعلیم کی شرح بلند ہے ۔ لیکن اس کے باوجود بھی غذر معاشی طور پر پسماندہ ہے ۔ غربت کے مارے لوگ محنت مزدوری کر کے بچوں کو پڑھاتے ہیں ۔ بنیادی مسئلہ حکومتی سطح پر سرپرستی کا نہ ہونا ہے ، جس کی وجہ سے یہ پڑھے لکھے نوجوان اپنے مستقبل کا لائحہ عمل طے نہیں کر سکتے . محکمہ تعلیم میں آسامیوں کی منظوری نہ ہونا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے نوکریاں نہیں ہیں۔ غیر منظورر شدہ تعلیمی ادارے بھی چل رہے ہیں۔

[pullquote]انفراسٹرکچر [/pullquote]

سیاحتی حوالے سے دنیا میں مقبول ترین علاقہ غذر سڑکوں کے حوالے سے اتنا ہی محروم ہے ۔ جتنا قدرتی نظاروں سے بھرپور۔ غذر روڈ مشرف دور میں تعمیر کیا گیا ۔ اس کے بعد وزیر اعلی سمیت عوامی نمائندوں نے سڑکوں کو بہتر بنائے پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ اگرچہ یہاں کے قدرتی نظارے پرکشش ہیں ۔ لیکن سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ علاقے کی واحد ٹوارزم انڈسٹری کے لئے ایک چیلنج ہے ۔ اسی طرح شہر میں صفائی ستھرائی اور ماحول کو بہتر بنانے کا کوئی خاص انتظام نہیں .

[pullquote]سیاحت [/pullquote]

غذر ، قدرتی نظاروں ، دریاؤں ، جھیلوں اور پہاڑوں کا ایک خوبصورت امتزاج ہے ۔ یہاں کے سیاحتی مقامات میں شندور پاس، ہیال پاس، تھوئی پاس ، جھیلوں میں پھنڈر جھیل، کھلتی جھیل ، اور شندور جھیل مشہور ہیں ۔ جبکہ پھلوں سے لدے باغات سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔ تاہم انفراسٹکچر ، گندگی اور بنیادی سہولیات سے محرومی سیاحوں کے لئے قابل تکلیف ہے ۔

[pullquote]پارلیمان اور عوامی مسائل [/pullquote]

شہری عام طور پر حکومت کو اقربا پروری اور کرپشن کی وجہ سے سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہے ۔سماجی حلقے بھی حکومتی اداروں پر ذمہ داریاں نہ پورنے کے اعتراضات کرتے ہیں . اداروں میں فیصلہ سازی کرنے والے افراد کا غیر مقامی ہونا ایک عام شکایت ہے ۔

[pullquote]غذر کے مسائل کے حل کے لئے تجاویز [/pullquote]

خواتین میں خودکشی کے رجحان پر آزادانہ تحقیق ہونی چاہیے کہ کہ آخر پڑھی لکھی خواتین کیوں اپنی جانیں ضائع کر رہی ہیں ، تحقیق کے بعد ہی اس مسئلے کا کوئی مناسب حل نکالا جا سکتا ہے.
صحت کے شعبے میں ڈاکٹرز کی کمی کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اسپتالوں میں ادویات اور ضروری آلات کا جلد از جلد بندوبست ہونا چاہیے.
پھنڈر بجلی گھر کے منصوبے کو سی پیک کا حصہ بنایا جائے .
اداروں میں کرپشن اور اقربا پروری کو ختم کرکے میرٹ کو فروغ دیا جائے ۔
کمیونیکیشن کے نظام کو بہتر بنایا جائے – ایس کام کی اجارہ داری کو ختم کر کے دیگر کمپنیوں کو مواقع دیے جائیں۔ ڈیجیٹل کمیونیکیشن کے اس دور میں غذر کو انٹرنیٹ کی سہولیات سے محروم رکھنا باعث افسوس ہے ۔
علاقے میں ووکیشنل اینڈ ٹریننگ سنٹرز کا ہونا ناگزیر ہے ۔ علاقے میں معاشی پسماندگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کو ہنر سیکھنے کے مواقع میسر نہیں ہیں ۔
سیاسی حوالے سے بھی غذر کی آواز کافی کمزور ہے ۔ اسمبلی میں نشستیں بڑھائی جائیں تاکہ غذر کے مسائل پر بات کرنے والے موجود ہوں ۔
پانی کے لیے واسپ سے تعاون لیا جائے.
غذر چترال ایکسپریس وے کو سی پیک یا پی ایس ڈی پی میں شامل کیا جائے۔ پی سی فور کے مرحلے کو تیز کیا جائے۔ تا کہ یہ منصوبے مکمل ہوں۔ اور ان منصوبوں میں مقامی افراد کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے .
ٹاؤن پلاننگ کے قانون پر عملدرآمد کرایا جائے۔
نوجوانوں میں مایوسی دور کرنے کے لیے صحت مندانہ سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے. ثقافتی سرگرمیوں کی سرپرستی کی جائے .

نوٹ : یہ مضمون آئی بی سی اردو کے زیر اہتمام فریڈرک ایبرٹ سٹفٹنگ (ایف ای ایس) کے اشتراک سے منعقدہ ورکشاپ کے دوران غذر کے صحافیوں جاوید اقبال اور یعقوب تائی کی معاونت سے تیار کیا گیا . ورکشاپ میں انتخابات سے پہلے "گلگت بلتستان کے ترقیاتی منشور ” کی تیاری کے بارے میں صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے درمیان مکالمہ ہوا . مکالمہ کے رپورٹ آپ اس لنک پر ملاحظہ کر سکتے ہیں .

۔[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے