اپنے شکار کی لاشیں اوڑھ کر خود کو چھپانے والا قاتل کیڑا

میکسیکو: دنیا بھر میں گھاتک اور قاتل کیڑوں کی بڑی اقسام پائی جاتی ہیں جنہیں ’اساسن بگ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک کیڑا اپنے شکار کو کھا کر اس کا اوپری خول اپنی کمر پر چپکا کر گھومتا رہتا ہے۔

https://www.youtube.com/watch?time_continue=99&v=a3YiF-SXyck&feature=emb_logo

دنیا بھر میں قاتل کیڑوں کی سات ہزار سے زائد اقسام ہیں اور ان کی جسامت چار سے چالیس ملی میٹر تک ہوتی ہے۔ مشترکہ طور پر ہر قسم کا کیڑا ایک خمیدہ اور سوئی کی طرح نوکدار ڈنک رکھتا ہے جسے ’روسٹرم‘ کہتے ہیں۔ یہ اپنے ڈنک سے چھوٹے کیڑوں میں زہر اتارتا ہے جس پر شکار بے حِس ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد وہ اندر سے شکار کو کھاپی لیتا ہے اور اس کا خول یا چھلکا باقی رہ جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ شکار کے خول کو اپنے اوپر چپکالیتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے جسم سے کئی کیڑوں کے خول لگائے گھومتا رہتا ہے۔

ان گھاتک کیڑوں کی کئی اقسام پتوں کے حصوں جیسی ہوتی ہیں۔ یہ خاموشی سے پڑے رہتے ہیں شکار قریب آنے پر حملہ کرتے ہیں۔ بعض کیڑوں کا ڈنک 15 سیکنڈ میں شکار کو بے بس کردیتا ہے اور اس میں ہاضمے والے اینزائم کیڑے کو گھلادیتے ہیں۔

ماہرین اب تک نہیں جان پائے کہ کیڑے اپنے شکار کی باقیات کس طرح اپنے جسم چپکاتے ہیں کیونکہ یہ عمل وہ اپنی ٹانگوں سے نہیں کرسکتے کیونکہ وہ کمر تک نہیں پہنچ پاتے۔ شاید ان کا جسم خاص گوند خارج کرتا ہے سے خول چپک جاتا ہے۔

لیکن حشراتی سائنسدانوں کے مطابق کیڑا لاشوں کو چپکا کر خود کو چھپاتا ہے جس سے شکار میں آسانی رہتی ہے۔ یہ آس پاس کے ماحول سے ہم آہنگ ہوکر دھیرے دھیرے اپنی دعوت تک جاتا ہے اور کیڑے کھاکر پیٹ بھرتا ہے۔ پھر کیڑوں کی لاشیں اسے بڑے شکاری مثلاً چھپکلی، مینڈک یا کسی مکڑی کا شکار ہونے بھی بچاتی ہیں جسے ہم زرہ بکتر بھی کہہ سکتے ہیں۔

ماہرِ حیاتیات کرسچیئن ویروخ کے مطابق ایک تجربے میں مردہ کیڑوں کے خول میں چھپی اور بغیر خول کے کیڑے کو چھوڑا۔ اب اس پر ایک قسم کی مکڑی،’جمپنگ اسپائیڈر‘ کو قریب لایا گیا۔ مکڑی نے بغیر خول کے دس کیڑوں کو شکار کرلیا لاشوں کو چپکانے والے کیڑے کا بہت کم شکار کیا اور دس میں سے ایک کو ہی پہچان سکی۔

اس طرح ثابت ہوا کہ ارتقائی طور پر قاتل کیڑا لاشوں کے برقعے میں چھپ کر خود کو بڑے شکاریوں سے بچاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے