تعلیم‘ استاد اور تبدیلی

جب بھی تعلیمی معیار میں بہتری کی گفتگو ہوتی ہے تو اس کا محور اکثر اساتذہ کا معیار ہوتا ہے‘ اسی لیے تعلیمی تحقیق کا ایک بڑا حصہ اساتذہ کے معیار اور کارکردگی کے حوالے سے ہے۔ تعلیمِ اساتذہ کے روایتی پروگرامز اس حوالے سے تنقید کی زد میں رہتے ہیں کہ اکثر پروگراموں میں اساتذہ کو تدریس کے حوالے سے کچھ تکنیکس کے بارے میں بتا دیا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب اساتذہ اپنے کلاس رومز میں تبدیلی لانے کے لیے تیار ہیں‘ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے اساتذہ کی اپنی زندگی اور ان کے پیشے کے درمیان تعلق پر تحقیق ہو رہی ہے۔

دوسرے لفظو ں میں اساتذہ کے اپنے تعلیمی اعتقادات (Educational Beliefs) اور تدریس کے درمیان ایک مضبوط رشتے کو دریافت کیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں تربیتِ اساتذہ کے کئی ایسے پروگرام شروع کیے گئے ہیں جن میں اساتذہ کے تعلیمی اعتقادات میں تبدیلی کو محور بنایا گیا ہے۔ ماہرینِ تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تھیوری اور پریکٹس کے درمیان دوطرفہ رشتہ ہے۔ کسی ایک میں تبدیلی دوسرے پر اثرانداز ہوتی ہے اس نقطۂ نظر کے مطابق اساتذہ اس وقت تک کلاس روم اور طلبا کے ذہنوں میں تبدیلی نہیں لا سکتے جب تک ان کے اپنے تعلیمی اعتقادات میں تبدیلی نہیں آتی۔

یہ آج سے تقریباً تین دہائیاں پہلے کا ذکر ہے جب مجھے کراچی میں تعلیمِ اساتذہ کے ایک معروف ادارے میں پڑھانے کا اتفاق ہوا جہاں پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک سے بھی طلبا تربیتِ اساتذہ کے پروگرام میں شریک ہوتے تھے۔ اس ایک سالہ پروگرام کے پہلے ماڈیول کا نام ”Reconceptualisation‘‘ تھا جس میں طلباکو اپنے تعلیمی اعتقادات کو ازسرِ نو جانچنے کا موقع فراہم کیا جاتا۔ اپنے تعلیمی اعتقادات کو جاننے کیلئے انہیں چند رہنما سوالات دیے جاتے مثلاً کون سا استعارہ (Metaphore) بطورِ فرد مجھے بیان کرتا ہے؟ اور کیوں؟ کون سا استعارہ مجھے بطورِ استاد بیان کرتا ہے اور کیوں؟ میں نے استاد بننا کیوں پسند کیا؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو مجھے بطورِ استاد متاثر کرتے ہیں؟

میں نے کلاس کے شرکا کو جب یہ سوالات دیے تو سب سے دلچسپ مرحلہ یہ تھا کہ بہت سے شرکا کو تشبیہ اور استعارے کے فرق کے بارے میں نہیں معلوم تھا۔ سو سب سے پہلے میں نے اس فرق کو سمجھانے کیلئے کئی مثالیں دیں تاکہ کورس کے شرکا اس فرق کو سمجھ سکیں اور صرف استعارے کے حوالے سے بطورِ فرد اور بطور استاد اپنے بارے میں بتا سکیں۔ یہاں میں صرف دو سوالات کے جوابات کے حوالے سے بات کروں گا جن میں شرکا سے پوچھا گیا تھاکہ وہ بطورِ فرد اور استاد اپنے لیے کیا استعارہ استعمال کریں گے‘ آپ ان استعاروں کو دیکھیں گے تو کورس کے شرکا کو بطورِ فرد اور بطورِ استاد سمجھنے میں مدد ملے گی۔ یاد رہے کہ شرکا نے نہ صرف اپنے تعارف کیلئے کسی استعارے کا انتخاب کرنا تھا بلکہ اس انتخاب کی وجہ بھی بتانی تھی شرکا میں سے ایک نے اپنے لیے موم بتی کا استعارہ استعمال کیا اور وضاحت کی کہ میں موم بتی کی طرح علم کی روشنی لوگوں میں پھیلانا چاہتا ہوں۔

کچھ اور شرکا نے بھی روشنی سے تعلق رکھنے والے استعارے استعمال کیے جن میں چاند‘ سورج‘ چراغ شامل ہیں‘ اسی طرح خضر کا استعارہ بھی استعمال کیا گیا جو بھٹکے ہوئے لوگوں کو راستہ دکھاتا ہے‘ اسی طرح یہ استعارہ بطورِ فرد بھی استعمال کیا گیا روشنی کے استعاروں اور خضر میں مشترک خوبی رہنمائی کی تھی۔ ایک طالب علم نے بطور استاد اپنے لیے نیم کے درخت کا انتخاب کیا جو دوسروں کو چھائوں دیتا ہے اور ایک طالب علم نے روڈمیپ کا استعارہ انتخاب کیا جس سے لوگوں کو اپنی سمت کے تعین میں مدد ملتی ہے۔ روشنی کے استعارے اور نیم کے درخت کے استعارے میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ یہ صرف دینے کے عمل کو توجہ کا مرکز بناتے ہیں‘ اس کے برعکس دوسرے لفظوں میں یہ استاد کے کردار کو اپنی ذات میں مکمل دیکھتے ہیں‘ اس کے برعکس روڈ میپ کا استعارہ نہ صرف رہنمائی کے علم کی وضاحت کرتا ہے بلکہ سیکھنے والے طالب علم کی روڈ میپ پڑھنے کی کوششوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔

شرکا میں سے ایک نے اپنے لیے ایک بڑے برتن کا انتخاب کیا جس کے اندر علم کا ذخیرہ اپنے شاگردوں تک منتقل کرتا ہے۔ ایک نے اپنے لیے چیونٹی کا استعارہ استعمال کیا جو سماج پسند ہوتی ہے اور دوسروں سے مل کر کام کرنا پسند کرتی ہے۔ ایک شریکِ کورس نے بطور استاد اپنے لیے شہد کی مکھی کا استعارہ کا انتخاب کیا جو ہمہ وقت محنت میں مصروف رہتی ہے۔ کورس کے تین شرکا نے اپنے لیے مالی کا استعارہ استعمال کیا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک شریک کورس نے بتایاکہ پودوں کی طرح بچے بھی اپنی انفرادی ضروریات اور ترجیحات رکھتے ہیں‘ جن کی نگہداشت ضروری ہے۔

بچے بھی بیج کی طرح اپنے اندر حیران کُن خصوصیات رکھتے ہیں اور ایک اچھا مالی ان خصوصیات کو پہچان کر ان کی پرورش کرتاہے۔ اگر کسی پودے کو بہت زیادہ پانی دیا جائے تو وہ مرجھا جاتاہے یا پھر اس کے پتوں کا رنگ بدل جاتا ہے۔ جس طرح مالی اپنی محنت‘ محبت اور توجہ سے ایک باغ کی پرورش کرتا ہے۔ اسی طرح ایک اچھا استاد اپنی محنت اور توجہ سے ایک کلاس روم کو مثالی بنا سکتا ہے۔ ایک شریک کورس نے اپنے لیے ”ڈریکولا‘‘ کے استعارے کا انتخاب کیا‘ اس کی وضاحت کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ لوگوں کے مطابق میں سخت مزاج ہوں۔ اس نے مزید بتای کہ میں تدریس کے پیشے میں نہیں آنا چاہتی تھی لیکن مجبوری کے طور پر اس شعبے میں آنا پڑا۔

طلبا کے ذہنوں میں جھانک کر ان کے خیالات سے آگاہی آسان کام نہیں لیکن استعارے کے انتخاب سے مجھے ان کے خیالات سے آگاہی ہوئی۔ تحقیق میں استعارے کا استعمال اب عام ہو گیا ہے۔ استعارے کو تحقیقی حکمت اختیار کرتے ہوئے مجھے کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سے ایک شریک کورس کا ”استعارہ‘‘ کی تعریف سے آشنا ہونا تھا اس کیلئے مجھے مثالوں سے استعارے کا تصور واضح کرنا پڑا۔ ایک اور چیلنج میرے کلاس روم میں مختلف ممالک اور ثقافتوںسے آئے ہوئے شرکا تھے‘ ان میںسوشل کلاس کے بھی امتیازات تھے‘ ایسی کلاس میں شرکائے کار اور استاد کو ایک دوسرے سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔

Reconceptualisation Module کا مرکزی نکتہ یہ تھاکہ کورس کے شرکا تعلیمی مسائل کے حوالے سے پرانے خیالات کا تنقیدی جائزہ لیںاور ان مسائل کے ممکنہ متبادل حل پیش کریں۔ اس ماڈیول میں مَیں نے مختلف تدریسی طریقے استعمال کیے جن میں گروپ ورک‘ پیئرورک‘ سیمینارز‘ پریزنٹیشنز‘ ریفلیکٹیو جرنلز‘ ورکشاپس شامل تھے۔ کورس کے آخر میں شرکاکا اس ماڈیول کے بارے میں مجموعی تاثر یہ تھا کہ Reconceptualization ماڈیول کے دوران انہیں اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ استاد صرف علم بانٹتا ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت اپنے شاگردوں‘ رفقائے کار اور ماحول سے سیکھتا بھی ہے۔ یوں تدریس اور سیکھنے کا عمل ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اس طرح ایک اچھا استاد محض ہر وقت سیکھنے کی دھن میں رہتا ہے اور اپنے علم‘ مہارتوں اور رویوں کی تازگی کو برقرار رکھتا ہے۔

استعارات (Metaphores) کے استعمال نے کورس کے شرکا کو اپنے موجودہ تعلیمی تصورات کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کیااور نئے متبادل تصورات کی تشکیل میں مدد بھی دی۔ تعلیمی تصورات کا جائزہ لیتے ہوئے انہیں اپنے ذاتی تشخص سے بھی آگاہی ہوئی۔ تصورات میں تبدیلی (Conceptual Change) انہیںایک ایسے استاد میں بدلنے میں مدد دے سکتی ہے جو اپنے شاگردوں کی زندگیوں میں تبدیلی لاتا ہے اور جس کے شاگرد جب عملی زندگی میں داخل ہوتے تو معاشرے کو بہتر بنانے کے بارے میں سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔

اپیل:ایک مریض جن کی عمر پچاس سال ہے، گردوں کے مرض میں مبتلا ہیں۔اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کے ذریعے انہوں نے رابطہ کیا تھا اور ان سے ان کے حقیقی مستحق ہونے کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ سفید پوش اور چار بچوں کے باپ ہیں۔

جو کچھ تھا وہ علاج کی نذر کر چکے۔ ان کی زندگی بچانے کے لئے 35 لاکھ روپوں کی ضرورت ہے۔ پندرہ لاکھ کا بندوبست وہ خود کرچکے ہیں لیکن بیس لاکھ کی کمی ہے۔ صاحب خیر اور اہل ثروت میں سے کوئی اس پڑھے لکھے مگر غریب انسان کی زندگی بچانے میں مدد کرنا چاہے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز سے براہ راست رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

اکائونٹ نمبر

0112027310074952

United bank Ltd ( UBL)

IBAN no. PK60 UNIL

CiF21403688

بشکریہ دنیا نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے