انتخابات 2020: حلقہ نمبر2گلگت

حلقہ نمبر2گلگت کا شمار اہم ترین حلقوں میں ہوتا ہے، جہاں پر وفاق سے اٹھنے والی ہوا کا اثر زیادہ نہیں ہوتا ہے۔ 2015 کے علاوہ سابقہ تین انتخابات کو ہی اگر دیکھا جائے تو یہاں پر وفاقی حکومت کی جماعت کو کامیابی نہیں ملی ہے۔ گلگت بلتستان کے ہیڈکوارٹر کا اکثریتی علاقہ اسی حلقے میں موجود ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ حلقہ نمبر2گلگت ہسپتال روڈ اور آر سی سی پل کونوداس کے مقام پر حلقہ 1سے جدا ہوتا ہے اور گلگت کے علاوہ سب ڈویژن جگلوٹ پر مشتمل ایک حلقہ بن جاتا ہے۔ حلقہ نمبر2گلگت میں مبینہ دھاندلی کی بنیاد پر اٹھنے والے الزامات نے 1994 کے انتخابات نے فساد برپا کردئے تھے۔ 2003میں حلقہ نمبر 2 سے جیت کر مشیر (اس وقت وزیر کی بجائے مشیر ہوتا تھا) کے عہدے پر فائز ہونے والے ممبر سیف الرحمن کو حکومتی پروٹوکول کے دوران شہید کردیا گیا، جس کے بعد ان کے چھوٹے بھائی حافظ حفیظ الرحمن کو بطور جانشین اتارا گیا جس کا اثر مسلسل دو انتخابات بشمول ضمنی پر پڑا۔ اس حلقے سے انتخابی میدان میں اترنے والے معروف رہنماؤں میں محمد موسیٰ، سنبل شاہ، دیدار علی و دیگر شخصیات بھی شامل ہیں جو اس وقت بڑی حد تک انتخابی سیاست سے کنارہ کش ہیں۔

گلگت بلتستان (قانون ساز) اسمبلی کے حلقہ نمبر2گلگت میں 2009کے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ رجسٹرڈ تھے۔ 2009کے انتخابات میں اس حلقے سے 62048ووٹ رجسٹرڈ ہوئے تھے جو کہ اب تک جی بی کے کسی بھی حلقے میں رجسٹرڈ ہونے والے ووٹروں میں سب سے زیادہ ہیں، مذکورہ انتخابات میں دستی ووٹر لسٹیں بننے کی وجہ سے ایک فرد متعدد مقامات پر اپنا ووٹ کاسٹ کرتا تھا۔ 2009 کے انتخابات میں اس حلقے سے 18امیدوار سامنے آگئے جن میں سے 7 دستبردارہوئے۔ 18میں سے 10امیدوار وں نے آزاد حیثیت میں کاغذات جمع کرائے جبکہ 8امیدوار جماعتی بنیادوں پر سامنے آئے۔ مذکورہ انتخابات میں پہلی مرتبہ پاکستان تحریک انصاف کے اکلوتے امیدوار صابر حسین لڑے اور 103 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، ان کے علاوہ دو اور امیدوار ہزار کا ہندسہ عبور نہیں کرسکے ججبکہ دو امیدواروں کو 100کا ہدف بھی پورا نہیں ہوا۔ 6امیدواروں نے ایک ہزار سے زائد ووٹ لئے جن میں سے عوامی نیشنل پارٹی کے اورنگزیب ایڈوکیٹ (اب ن لیگ)نے 1059، فتح اللہ خان (اب پی ٹی آئی)نے آزادحیثیت میں 1867، مسلم لیگ ق سے محمد اسلم (اب پیپلزپارٹی) نے 1986 ووٹ حاصل کرلئے۔ انتخابات میں شکست اور فتح کی جنگ پیپلزپارٹی کے جمیل احمد اور ن لیگ کے حفیظ الرحمن کے درمیان تھی تاہم لالٹین سیاست کے لئے مشہور دیدار علی تیسری قوت کے طور پر ابھرے اور کامیاب ہوگئے۔ حافظ حفیظ الرحمن نے ان انتخابات میں 4170 ووٹ لئے اور تیسرے نمبر پر رہے، جمیل احمد نے 4512 ووٹ جبکہ دیدار علی نے آزاد حیثیت سے لڑکر 5241ووٹ حاصل کرلئے جو بعد ازاں اسلامی تحریک کے پلیٹ فارم سے حکومتی اتحادی بنے اور وزیر برقیات بن گئے۔جبکہ پیپلزپارٹی کے جمیل احمد ٹیکنوکریٹ نشست پہ اسمبلی پہنچ گئے اور ڈپٹی سپیکر کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ انتخابات میں 62048 میں سے 20095ووٹ کاسٹ ہوئے جو کہ کل 32.3 فیصد بنتا ہے

2015 کے انتخابات میں ون پرسن ون ووٹ کے مطابق رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد کم ہوکر 34225ہوگئی۔حلقہ نمبر2میں سب سے سخت انتخابات 2015میں ہوئے۔ جس میں ایک مرتبہ پھر حافظ حفیظ الرحمن اور جمیل احمد آمنے سامنے ہوگئے۔ جمیل احمد ڈپٹی سپیکر رہنے کی وجہ سے ووٹ کو سنبھال نہیں سکے جبکہ حافظ حفیظ الرحمن کے پاس اپوزیشن میں ہونے کی وجہ سے ووٹ سنبھالنے کی صلاحیت موجود تھی، اس کے علاوہ اجتماعی طور پر کئے گئے فیصلوں کی وجہ سے سنسنی خیزی آخری لمحات تک برقرار رہی اور ایک رات میں پانسہ پلٹ گیا، مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہونے اور مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر کا بونس حافظ حفیظ الرحمن نے بھرپور کیش کرایا۔2015کے انتخابات میں کل 19 امیدوار سامنے آگئے جن میں سے 13امیدوار 100 کے ہندسے تک نہیں پہنچ سکے جبکہ 2امیدواروں کے لئے ہزار کا ہندسہ ناقابل عبور ہدف بن گیا۔پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار فتح اللہ نے اس ساری صورتحال کے باوجود 2561 ووٹ سمیٹ لئے۔ پیپلزپارٹی کے امیدوار جمیل احمد نے 7176ووٹ لیکر مسلسل دوسری مرتبہ دوسرے نمبر پر رہے جبکہ حافظ حفیظ الرحمن 10739ووٹ لیکر مردمیدان ٹھہر گئے۔ انتخابات کے بعد حافظ حفیظ الرحمن دو تہائی اکثریت والی حکومت کے وزیراعلیٰ بن گئے۔جبکہ جمیل احمد سیاسی میدان میں روایتی اپوزیشن سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے اور پیپلزپارٹی کے سینئر نائب صدر بن گئے۔انتخابات میں کل 22288افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا جو کہ 65.12فیصد بنتاہے۔

آمدہ انتخابات میں مذکورہ حلقے میں 41259ووٹر رجسٹرڈ ہیں جن میں سے 18200خواتین اور 23056مرد ووٹر ہیں۔ نادرا ریکارڈ کے مطابق اس حلقے سے مجموعی طور پر تین احمدی اقلیتی ووٹر بھی رجسٹرڈ ہیں جن میں سے دو مرد اور ایک خاتون ہے۔حلقہ نمبر2گلگت سے کل 37امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے ہیں۔پاکستان مسلم لیگ ن،پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے اپنے سابقہ امیدواروں کو ہی ٹکٹ جاری کیا ہے جس کے مطابق حافظ حفیظ الرحمن ن لیگ، جمیل احمد پیپلزپارٹی، اور فتح اللہ خان پی ٹی آئی کے امیدوار ہوں گے۔جی بی کی واحد رجسٹرڈ جماعت گلگت بلتستان قومی موومنٹ کے صدر عبدالواحد نے بھی اس بار حلقہ 2سے طبع آزمائی کا فیصلہ کرلیا ہے، مسلم لیگ ق نے ناصر میر، مذہبی جماعتوں میں اسلامی تحریک نے فقیر شاہ، جماعت اسلامی نے حبیب الرحمن،جمعیت علماء اسلام نے مولونا مجاہدکو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔دوسری جانب آزاد امیدواروں میں گلاب شاہ آصف، شبیر عالم لون ودیگر بھی زبردست طریقے سے اپنی انتخابی مہم چلارہے ہیں۔

حلقہ 2کی سیاسی صورتحال میں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ 2015 میں حافظ حفیظ الرحمن کو دستیاب سہولیات دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ مرکز میں حکومت ہونے کا فائدہ تحریک انصاف کے فتح اللہ خان کے پاس ہے جبکہ بھرپور حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کا سہرا جمیل احمد کے پاس ہے۔ بنیادی طور پر انتخابات میں اہم کردار انہی تینوں امیدواروں کا ہے، تاہم حلقے کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ اچانک کوئی بھی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے جو کہ کسی بھی آندھی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے جو نتیجے کو یکسر تبدیل کرسکتی ہے۔

حافظ حفیظ الرحمن کے پاس 2015 کے انتخابات میں حاصل طاقت اب نہیں ہے، تاہم اگر کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن لڑنے کے منشور کو منواسکتے ہیں تو آسانی سے عوام میں جاسکتے ہیں لیکن حامیوں کی اکثریت اب مخالفین میں تبدیل ہوگئی ہے۔ حلقہ انتخاب میں اہم ترین کشروٹ میں اب تک حفیظ الرحمن کے مقابلے میں جمیل احمد کی سیاسی سرگرمیاں زیادہ رہی ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ اب تک دو امیدواروں کو اپنے حق میں دستبردار کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جن میں سے ایک پارٹی کارکن ہی تھا۔ مرکزی حکومتی پارٹی کے امیدوار فتح اللہ نے بھی بمشکل اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے۔ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں آمدہ انتخابات میں ووٹروں کو وسیع آپشن ملتے نظر آرہے ہیں جس کی بنیاد پر 7ہزار تک ووٹ لینے والا امیدوار مرد میدان ٹھہر سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے