گلگت بلتستان انتخابات 2020: حلقہ نمبر4نگر

ضلع نگر گلگت اور ضلع ہنزہ کے درمیان شاہراہ قراقرم کے دائیں بائیں پھیلاہوا ضلع ہے جس کا ایک حصہ ضلع ہنزہ کے بالکل سامنے دریا کے پار پڑتا ہے۔ ضلع نگر سیاسی معاملات کے علاوہ قدرتی ماحول، راکاپوشی جیسے پہاڑ، گلیشیئرز، سیاحت، حیوانات، جنگلی حیات، معدنیات اور دیگر قدرتی وسائل کی وجہ سے زیادہ مشہور ہے۔ ضلع نگر 2007تک ہنزہ کے ہمراہ ضلع گلگت کا سب ڈویژن تھا۔ 2007میں پرویز مشرف کے دور میں ہنزہ نگر کو الگ ضلع بنایا گیا۔ 2015کو وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے ہنزہ اور نگرکو الگ الگ ضلع بنانے کا اعلان کیا اور چند مہینوں میں ہی اس کا نوٹیفکیشن کردیا۔ سیاسی نکتہ نگاہ سے ضلع نگر بھی ایک زرخیز ضلع ثابت ہوا ہے جہاں سے حاجی قربان، سید یحیٰ شاہ،میر شوکت علی خان، شیخ غلام حیدر اور مرزا حسین مرحوم جیسے جہاندیدہ رہنماؤں نے نمائندگی کی ہے۔بنیادی طور پر ان نگر کے حلقوں میں اسلامی تحریک پاکستان اور پیپلزپارٹی کا ٹاکرا رہا ہے تاہم آمدہ انتخابات غیر روایتی ثابت ہونے جارہے ہیں۔

ضلع نگر 1994سے دو حلقوں میں بٹا ہوا ہے۔ نگر1جی بی 4میں 2009کے انتخابات کے دوران کل 21259ووٹ رجسٹرڈ تھے جن میں سے 10929مرد اور 10330خواتین ووٹر رجسٹرڈ تھیں۔ 2009 کے انتخابات میں کل 15 امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے تھے جن میں سے 9امیدواروں نے بعد میں دستبرداری حاصل کرلی۔ جبکہ کل پانچ امیدوار باضابطہ انتخابات لڑے جن میں آزاد امیدوار فدا علی نے 733، متحدہ قومی موومنٹ کے محمد حسن نے 810، آزاد امیدوار فدا حسین نے 2150ووٹ لئے۔ اصل مقابلہ آزاد امیدوار محمد علی اور پیپلزپارٹی کے محمد علی اختر کے مابین ہوا۔ جس میں محمد علی (شیخ حیدر کے فرزند) نے آزاد حیثیت میں 3622ووٹ لئے جبکہ پیپلزپارٹی کے محمد علی اختر نے 3885ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کرلی جو حکومت تشکیل پانے کے بعد وزیر خزانہ مقرر ہوگئے۔انتخابات میں کل 11240ووٹ پڑے جو کہ کل 52.8فیصد تھا۔

2015کے انتخابات سے قبل وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے لالک جان سٹیدیم میں خطاب کرتے ہوئے نگر کو الگ ضلع بنانے کا اعلان کرلیاتھا تاہم نگر کے دونوں حلقوں سے مسلم لیگ ن کو کامیابی نہیں مل سکی۔ 2015 کے انتخابات میں بھی یہ ضلع ہنزہ نگر کا پہلا حلقہ تھا جس میں اس وقت کل 18818ووٹ رجسٹرڈ ہوئے کیونکہ ان انتخابات میں ون ووٹ ون پرسن کا قانون رائج کیا گیا جس کی وجہ سے نمایاں کمی سامنے آئی۔ 18818ووٹوں میں سے 10024مرد اور 8794خواتین تھیں۔ انتخابات میں کل 8 امیدواروں نے حصہ لیا، پیپلزپارٹی نے محمد علی اختر کی بجائے جاویدحسین کو ٹکٹ جاری کردیا جس پر محمد علی اختر نے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تاہم بعد ازاں انہوں نے غالباً مجلس وحدت المسلمین کے امیدوار کی حمایت میں دستبرداری لے لی۔ 2015کے انتخابات میں، پاکستان عوامی تحریک کے امیدوار رئیس خان نے 18ووٹ، پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر لڑنے والے محمد جاوید نے 46ووٹ، آزاد حیثیت میں محمد حسین نے 77ووٹ، پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر فدا حسین نے 1361ووٹ، مجلس وحدت المسلمین کے امیدوار علی محمد نے 3014ووٹ حاصل کئے۔ انتخابی معرکہ پیپلزپارٹی کے پہلی مرتبہ لڑنے والے جاوید حسین اور محمد علی شیخ کے مابین سج گیا جس میں پیپلزپارٹی کے جاوید حسین نے 4091ووٹ حاصل کئے جبکہ اسلامی تحریک پاکستان کے امیدوار محمد علی شیخ 5039ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے،بعد ازاں حزب اختلاف کی بنچوں پر بیٹھ گئے اور اسلامی تحریک کے پارلیمانی لیڈر بن گئے۔2015کے انتخابات میں 18818ووٹ میں سے 13657ووٹ کاسٹ ہوئے جو کہ 72.5فیصد بنتا ہے

2015کے انتخابات میں حلقہ 4نگر سے جیتنے والے رکن محمد علی شیخ 26 فروری 2017کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے جس کے بعد حلقہ 4 نگر میں ضمنی انتخابات منعقد کرائے گئے۔ ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی کی صوبائی قیادت اپنے ناراض رہنما محمد علی اختر کو منانے میں کامیاب ہوگئی اور جاوید حسین کی حمایت کرلی۔ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن نے اپنا امیدوار اتارنے کی بجائے مرحوم کے اہلخانہ سے بظاہر ہمدردی کرتے ہوئے مرحوم کے چھوٹے بھائی شیخ محمد باقر کی حمایت کا اعلان کردیا جو کہ اسلامی تحریک پاکستان کے امیدوار تھے۔پاکستان تحریک انصاف نے بھی ضمنی انتخابات میں شیخ اختر کی شکل میں ایک امیدوار اتاردیا جس نے چند سو ووٹ حاصل کرلئے۔ 9جولائی 2017کو ہونے والے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے جاوید حسین شیخ محمد باقر کو ہراکر اسمبلی پہنچ گئے۔ ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی کے جاوید حسین کو 6888ووٹ مل گئے جبکہ محمد باقر 5743ووٹ حاصل کرسکے۔مذکورہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈوکیٹ اور پیپلزپارٹی کے رہنما مرحوم سید رضی الدین رضوی نے انتہائی جاندار مہم چلائی جو کہ پیپلزپارتی کی صوبائی قیادت کا پہلا امتحان بھی تھا، جاوید حسین نے 24جولائی کو ہونے والے اسمبلی اجلاس میں حلف لیا اور کمزور اپوزیشن کے جسم میں نئی روح پھونک دی۔
15نومبر کو ہونے والے انتخابات کے لئے ضلع نگر کے حلقہ 1جی بی 4سے کل 23171ووٹ رجسٹرڈ ہوئے ہیں جس میں سے 10440خواتین اور 12731مرد ووٹر ہیں۔ حلقہ میں 77پولنگ بوتھ اور 42پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن میں سے 16خواتین کے لئے الگ، 16مردوں کے لئے جبکہ 10سٹیشن مخلوط ہیں۔ آمدہ انتخابات کے لئے 18امیدوار سامنے آگئے ہیں جس میں سے 13آزاد امیدوار ہیں اور 5امیدواروں کو سیاسی پارٹیوں کی جانب سے نامزدگی مل چکی ہے۔

حلقہ نمبر4میں پہلی مرتبہ عملاً شیخ حیدر مرحوم کے گھرانے کا سیاسی کردار صفر کردیا گیا ہے، اسلامی تحریک کے ٹکٹ پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے شیخ محمد باقر کو بنک کا نادہندہ ہونے کی وجہ سے نااہل قرار دیا گیا ہے جبکہ پیپلزپارٹی کے بہترین پوزیشن کے حامل امیدوار جاوید حسین کو بھی اسی وجہ سے نااہل قرار دیا گیا ہے۔ حلقہ 4نگر کی سیاسی صورتحال ناقابل اعتبار ہوگئی ہے۔ اسلامی تحریک پاکستان کے پاس مضبوط امیدوار نہیں ہونے کی وجہ سے گمنام کارکن کو سامنے لایا گیا ہے جبکہ پیپلزپارٹی کے ضلعی عہدیداروں کا آپس میں اتفاق نہ ہونے پر صوبائی صدر پیپلزپارٹی امجد حسین ایڈوکیٹ کو امیدوار نامزد کردیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈوکیٹ اس وقت حلقہ 1گلگت اور حلقہ 4نگر سے بیک وقت انتخابات لڑرہے ہیں۔ اس وقت کوئی بھی امیدوار بالخصوص سیاسی جماعتوں کا نامزد امیدوار بیک وقت دو حلقوں سے نہیں لڑرہا ہے سوائے امجد حسین ایڈوکیٹ کے۔

پاکستان تحریک انصاف نے آمدہ انتخابات کے لئے علم فلکیات پر دسترس رکھنے اور علم نجوم کے حوالے سے معروف شخصیت زوالفقار علی (آغا بہشتی) کو میدان میں اتارا ہے۔ پیپلزپارٹی کے امجد حسین ایڈوکیٹ نے 2017کے ضمنی انتخابات میں اپنے صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں۔ بظاہر انتخابی معرکہ بھی انہی دونوں کے درمیان ہیں جس میں تحریک انصاف کو مرکز میں حکومت ہونے کا فائدہ اور آغا بہشتی کی ناتجربہ کاری کا سامنا ہے جبکہ پیپلزپارٹی کو جاندار ضلعی تنظیم اور منی لاڑکانہ ہونے کے علاوہ پیپلزپارٹی کے امیدوار کو دو حلقوں کی نگرانی کا معاملہ درپیش ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے