انتخابات2020: حلقہ نمبر5 نگر2

گلگت بلتستان اسمبلی کا حلقہ5نگر 2سب سے چھوٹا حلقہ ہے۔ یہ حلقہ 7چھوٹے مگر خوبصورت وادیوں پر مشتمل ہے۔ جن میں قدرتی حسن سے مالامال ہوپر وادی، ہسپر، نگرخاص، سمائر، اسقرداس، شائر شامل ہیں۔ اس حلقے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی میں ضلع نگر پورے کی سب سے پہلے نمائندگی اسی حلقے کے حاجی قربان علی نے کی ہے۔ حاجی قربان علی کا شمار پاکستان پیپلزپارٹی کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ 6نومبر 1975کو منعقد ہونے والے ناردرن ایریاز کونسل کے 16ممبران میں سے ایک حاجی قربان علی تھے جو نگر پورے کی نمائندگی کررہے تھے۔ اس کے علاوہ اس حلقے سے میر شوکت علی خان کو بھی نگر کی نمائندگی کا اعزاز رہا ہے۔ میر شوکت علی خان راجگی دور کے حکمران خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ سیاسی طور پر ضلع نگر کی ایک منفرد بات یہ ہے کہ اس ضلع سے آج تک اسمبلی میں کوئی خاتون نہیں آئی ہے۔

نگر کو 1994میں دو حلقوں میں تقسیم کیا گیا جس کی حدبندی آج تک قائم ہے۔ انتظامی طور پر 2007تک گلگت کا سب ڈویژن تھا جسے پرویز مشرف نے اپنے دور میں گلگت سے الگ کرکے ہنزہ نگر ضلع بنادیا جبکہ 2015میں مسلم لیگ ن کے وزیراعظم نوازشریف نے اس نگر کو الگ ضلع بنادیا۔ 1994کے انتخابات میں اس حلقے سے میر شوکت علی خان جبکہ 1999کے انتخابات میں حاجی قربان علی نے اس حلقے کی نمائندگی کی۔

2009کے انتخابات میں اس حلقے سے 13688ووٹر رجسٹر ہوئے جن میں سے 7094مرد اور 6594خواتین تھیں۔ انتخابات کے لئے 19 امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے تاہم صرف 6امیدواروں نے 100کا ہندسہ عبور کرلیا جبکہ متعدد امیدوار بعد میں دستبردار ہوگئے۔ آزاد حیثیت میں لڑنے والے سجاد حسین نے 111، ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر لڑنے والے عبدالکریم نے 384، پرنس برکت علی نے 390، سابق چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل کلب علی نے 794 ووٹ حاصل کرلئے۔ 2009کے انتخابات میں اصل مقابلہ پیپلزپارٹی کے زوالفقار علی مراد اور مسلم لیگ ق کے امیدوار مرزا حسین کے درمیان ہوا۔ پیپلزپارٹی کے زوالفقار علی مراد نے 1739ووٹ حاصل کرلئے جبکہ مرزا حسین 1890ووٹ لیکر مسلسل دوسری مرتبہ اس حلقے سے رکن اسمبلی منتخب ہوگئے۔ مرزہ حسین کا شمار ایسے اراکین اسمبلی میں رہا جو عوامی حقوق کے لئے سب سے پہلے کھڑے ہوتے تھے۔ انتخابات میں کل 5352ووٹ پڑے جو کہ مجموعی ووٹ کا صرف 39فیصد تھا۔ مرزہ حسین اپنی پارٹی فیصلے کی بنیاد پر پہلے اپوزیشن جبکہ بعد میں حکومت کا حصہ بن گئے تاہم انہیں وزارت نہیں دی گئی تھی۔

2015کے انتخابات میں ون پرسن ون ووٹ کی بنیاد پر اس حلقے سے 11992ووٹر رجسٹرڈ ہوئے جن میں سے 5639خواتین جبکہ 6353مرد تھے۔ انتخابات کے لئے 6آزاد امیدواروں سمیت 20امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے۔ جن میں سے 15امیدوار 100کا ہندسہ عبور نہیں کرسکے۔ اسلامی تحریک کے جنرل سیکریٹری شیخ مرزا علی سمیت متعدد امیدوار کاغذات جمع کرانے کے بعد دستبردار ہوگئے۔ مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم سے مسلسل دو مرتبہ نمائندگی کرنے والے مرزا حسین نے اس بار پاکستان تحریک انصاف سے قسمت آزمائی کرلی تاہم خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوسکا۔ مرزہ حسین نے انتخابات میں صرف 1013ووٹ حاصل کرلئے۔ جبکہ پیپلزپارٹی کے زوالفقار علی مراد کے ووٹ بھی کم ہوکر 1337پر آگئے۔ سابق چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل کلب علی نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر انتخابات لڑتے ہوئے 1416 ووٹ حاصل کرلئے۔

قدیم حکمران خاندان کے چشم و چراغ پرنس قاسم علی نے کچھ دنوں کی محنت میں 1547ووٹ لے لئے۔ جبکہ مجلس وحدت المسلمین کے ٹکٹ پر لڑنے والے حاجی رضوان علی نے 2171ووٹ حاصل کرکے اسمبلی تک اپنا راستہ صاف کرلیا۔

مجلس وحدت المسلمین کے رکن حاجی رضوان علی پانچ سالوں تک حزب اختلاف کی نشست پر براجمان رہے تاہم انہیں متحدہ حزب اختلاف کی بجائے حکومت سے اچھے تعلقات رکھنے والا رکن قرار دیا جارہا تھا۔یہی وجہ تھی کہ متحدہ حزب اختلاف کے متعدد احتجاج اور بائیکاٹ کے فیصلوں میں حاجی رضوان شریک نہیں ہوئے تاہم اپنے مواقعوں پر وہ حکومت پر شدید تنقید کرتے تھے۔ 2015کے انتخابات میں 7635ووٹ کاسٹ ہوئے جو کہ کل ووٹ کا 63.67فیصد بنتا ہے۔انتخابات کے کچھ مہینے بعد مرزا حسین صاحب کو دل کا دورہ پڑگیا اور وہ جانبر نہیں ہوسکے۔

آمدہ انتخابات کے لئے حلقہ نمبر5نگر 2سے 26امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے ہیں جو کہ گلگت حلقہ 2اور غذر حلقہ 2کے ہمراہ سب سے زیادہ امیدواروں کا ریکارڈ کا حامل ہے۔ انتخابات میں نگر حلقہ 5نے ایک مرتبہ پھر سب سے کم ووٹوں کا ریکارڈ سنبھالا ہے، حلقہ سے صرف 14001ووٹ رجسٹرڈ ہوئے ہیں جن میں سے 6241خواتین، 7760مردوووٹر ہیں۔ حلقہ نمبر5میں انتخابات کے لئے 26پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن میں سے 10مردوں کے، 10خواتین کے اور 6مخلوط ہیں۔ مجموعی طور پر حلقے میں 38پولنگ بوتھ بھی قائم کئے گئے ہیں۔

نگر حلقہ 5سے پاکستان تحریک انصاف کے پاس پرنس قاسم علی اور جاوید منوا جیسے امیدوار ہونے کے باوجود انہوں نے مجلس وحدت المسلمین کے امیدوار کے حق میں کسی کو ٹکٹ جاری نہیں کیا ہے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی حاجی قربان کے فرزند زوالفقار علی مراد کو ٹکٹ جاری نہیں کیا ہے۔ انتخابات میں حاجی قربان مرحوم کے فرزند زوالفقار علی مراد اور مرزا حسین مرحوم کے فرزند جاوید منوا آزاد حیثیت میں اترے ہیں جبکہ پرنس قسم علی نے پی ٹی آئی کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے دستبرداری حاصل کرلی ہے۔ مجلس وحدت المسلمین نے سابق رکن اسمبلی حاجی رضوان، پیپلزپارٹی نے میرزہ حسین، مسلم لیگ ن نے سجاد حسین،اسلامی تحریک پاکستان نے شبیر حسین، پاکستان مسلم لیگ ق نے عابد حسین، آل پاکستان مسلم لیگ نے محمد عیسیٰ کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔

مذکورہ حلقہ اعداد و شمار کے مطابق بنیادی طور پر پیپلزپارٹی، قدیم حکمران خاندان (پرنس قاسم علی)، اور مرزہ حسین کے مابین ٹاکرے کا باعث بنا ہے۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے اپنے روایتی امیدوار زوالفقار علی مراد کو ٹکٹ نہ دینے کی وجہ سے خدشہ ہے کہ ووٹ تقسیم ہوجائے تاہم زوالفقار علی مراد کا ماضی کا ووٹ بھی قابل زکر نہیں رہا ہے اور مسلسل انتخابات لڑنے کے باوجود وہ ہارتے ہوئے آئے ہیں جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو متبادل پلان لانا پڑا ہے۔ مرزہ حسین کے بیٹے جاوید منوا نے گزشتہ پانچ سال پاکستان تحریک انصاف کے ضلعی صدر حیثیت سے سیاسی میدان میں اپنا لوہا منوایا تاہم تحریک انصاف نے اس حلقے سے خاموش تماشائی کاکردار ادا کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے پیچیدہ فیصلوں کو سامنے رکھتے ہوئے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انتخابات میں حاجی رضوان کا مقابلہ دوسرے امیدواروں سے ہوگا۔جبکہ دیگر جماعتوں کے اور آزاد امیدوار صرف کسی کو ہرانے کے پوزیشن میں ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے