انتخابات 2020: حلقہ 7سکردو1

گلگت بلتستان کو 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو نے تین اضلاع میں تقسیم کیا جن میں ایک ضلع گلگت، دوسرا ضلع دیامر اور تیسرا ضلع سکردو ہے۔ موجودہ صورتحال میں سکردو کا مذکورہ ضلع چار اضلاع میں تقسیم ہوا ہے جس میں گانچھے ضلع کو 1974میں بنایا گیا، ضلع شگر اور ضلع اور کھرمنگ کو 2015میں بنایا گیا۔ 1972کے ضلع سکردو کو آج بلتستان کے نام سے ایک ڈویژن کی حیثیت حاصل ہے جسے پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے 2014کو اپنے آخری کابینہ اجلاس میں منظوری دیدی تھی۔

بلتستان کا علاقہ جہاں قدرتی حسن، گورڈون آسٹن پہاڑ(کے ٹو)، ٹھنڈے بلند ترین صحرا سرفرنگہ، سرحدی علاقوں، قدیم رسومات، قدیم تہذیب اور سیاحت کے حوالے سے مشہور ہے وہی پر ادب کے لحاظ بھی بلتستان اپنا ثانی نہیں رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلتستان سے منتخب ہوکر اسمبلی آنے والوں میں اکثر شاعر ہیں یا صاحب کتاب ہیں اور کسی نہ کسی صورت پڑھنے اور لکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔گلگت بلتستان میں پہلی بار قرآن شریف کا ترجمہ بھی بلتی زبان میں 1995میں ہوا جس کا شرف یوسف حسین آبادی کو حاصل ہوا۔ادب بلتستان کسی مضمون کا ضمنی گفتگو کا نہیں بلکہ مفصل مضمون یا کتاب کا متقاضی ہے۔

ضلع سکردو کی اکثریتی عوام بلتی زبان بولتی ہے جو کہ شجرہ نسب کے مطابق تبتی زبان ہے۔ ضلع سکردو گزشتہ ا نتخابات یعنی 2015کے انتخابات تک سب سے بڑا ضلع تھا جس میں 6انتخابی حلقے موجود تھے اور وسیع رقبہ گھیرا ہوا تھا تاہم انتخابات کے بعد ضلع سکردو سے شگر اور کھرمنگ کو الگ الگ اضلاع بنائے گئے۔

ضلع سکردو حلقوں کے لحاظ سے دیامر کے ہمراہ سب سے بڑا ضلع ہے جہاں پر چار انتخابی حلقے شامل ہیں۔ سکردو کے حلقہ 1کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ 2009کے صدارتی خودمختاری و نظم ونسق آرڈر کے بعد صوبائی حیثیت ملنے کے بعد قائم ہونے والی اسمبلی میں قائد ایوان کا تعلق اسی حلقے سے رہا ہے۔

1970میں بننے والی مشاورتی کونسل میں پہلی بار سکرددو سے آغا محمد نے نمائندگی کی۔ 1974کی ناردرن ایریاز کونسل کے انتخابات میں سید حیدرشاہ کو سکردو کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1979 کے انتخابات میں حاجی جمعہ خان سکردو سے جیت کر رکن ناردرن ایریاز کونسل بن گئے۔ 1983کے انتخابات میں حاجی احمد چو کو نمائندگی کا اعزاز ملا۔1987میں وزیر فیض محمد کو نمائندگی کا فیض حاصل ہوا۔ 1991 کے محدود دور کی اسمبلی میں حاجی غلام حیدر سکردو سے ممبر بن گئے۔

1994کے انتخابات سے قبل حلقہ بندیاں کی گئی جس کے بعد غلام حسین سلیم سکردو حلقہ1سے جیت گئے۔ 1999کے انتخابات میں سید مہدی شاہ کو سکردو سے کامیابی مل گئی۔ 2004کے انتخابات میں وزیر ولایت علی مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر جیت گئے اور بعد ازاں چند ماہ کے لئے ڈپٹی سپیکر بھی بن گئے۔

2009میں پہلی مرتبہ صوبائی حیثیت مل گئی تو سکردو حلقہ 1میں 28010 ووٹر رجسٹرڈ تھے جن میں سے 11584خواتین اور 16426مرد ووٹر شامل تھے۔ انتخابات میں دو آزاد امیدواروں کے ہمراہ کل 6امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ دونوں آزاد امیدوار 100کے ہندسہ تک نہیں پہنچ سکے۔ موجودہ دوہرے رخ والے سپیکر فدا محمد ناشاد اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر صرف 286ووٹ لے سکے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے ٹکٹ سے راجہ زکریا خان مقپون کو 1190ووٹ مل گئے۔ پاکستان مسلم لیگ ق کے وزیر ولایت نے 1990ووٹ حاصل کیا جبکہ پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر سید مہدی شاہ 6697کی بھاری اکثریت سے رکن اسمبلی بن گئے اور گلگت بلتستان کے پہلے وزیراعلیٰ ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا۔

سید مہدی شاہ گلگت بلتستان میں مفاہمتی سیاست کے بانی بھی ٹھہرے گئے جس نے کم از کم پانچ جماعتوں کوحکومت میں جگہ دیدی۔ سید مہدی شاہ کا پانچ سالہ دور بدترین فسادات اور قدرتی آفات میں گزرگیا جس کی وجہ سے ترقیاتی امور ٹھپ ہوکررہ گئے۔ سید مہدی شاہ کے دور میں ہزاروں کی تعداد میں آسامیاں منظور ہوئی اور متعدد اہم اداروں کو گلگت بلتستان میں تک وسعت دیدی۔2009 کے انتخابات میں کل 10200ووٹ کاسٹ ہوگئے، جس میں مہدی شاہ کا ووٹ دو تہائی تھا جبکہ مجموعی طور پر ووٹ دینے کی شرح 36.4فیصد رہی۔

2015کے انتخابات میں اس حلقے سے کل 16484ووٹ رجسٹرڈ ہوگئے جو کہ ون پرسن ون ووٹ کی بنیاد پر تھے۔ جس میں سے 7613خواتین اور 8817مرد ووٹر شامل تھے۔ انتخابات سے قبل سید مہدی شاہ کے سب سے بڑے سپورٹر راجہ جلال حسین مقپون نے بغاوت کرلی اور تحریک انصاف میں شامل ہوکر صوبائی صدر بن گئے۔پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے صوبائی جنرل سیکریٹری محمد اکبر تابان اس حلقے سے امیدوار تھے۔ مجموعی طور پر کل 8امیدوار تھے جن میں دو آزاد امیدوار بھی شامل تھے۔ مجلس وحدت المسلمین کے زاہد حسین نے 714، اسلامی تحریک کے غلام شہزاد آغا(اب پیپلزپارٹی) نے 925، اور پیپلزپارٹی کے سید مہدی شاہ نے 2709ووٹ حاصل کرلئے۔ 2015کے انتخابات میں یہ واحد حلقہ تھا جہاں پر متعدد مرتبہ ووٹ کی گنتی ہوئی اور تب تک جاری رہی جب تک مسلم لیگ ن کے اکبر تابان کو ایک ووٹ کی برتری نصیب نہیں ہوئی۔

تحریک انصاف کے صوبائی صدر راجہ جلال حسین مقپون نے اس حلقے سے 3330ووٹ حاصل کرلئے جبکہ محمد اکبر تابان نے 3331 ووٹ حاصل کرکے اسمبلی تک رسائی حاصل کرلی۔ انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی کو جی بی سے نشستیں نہ ملنے پر مہدی شاہ سے صدارت اٹھائی گئی، وفاق میں تحریک انصاف میں حکومت ملنے کے بعد میرغضنفر کو گھر رخصت کیا گیا اور راجہ جلال حسین مقپون کو گورنر کے منصب پر بٹھایا گیا جو کہ تاحال ’بیٹھا‘ ہوا ہے۔ محمد اکبر تابان حفیظ حکومت میں پانی و بجلی اور مالیات کے سینئر وزیر مقرر ہوگئے۔

آمدہ انتخابات میں حلقہ 7سکردو1سے 17127ووٹ رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ جن میں مرد ووٹروں کی تعداد 9222اور خواتین کی تعداد 7905ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس حلقے سے 5احمدی اقلیتی مرد اور 1احمدی خاتون بھی رجسٹرڈ ہوئی ہے جو کہ جی بی کے کل 19میں سب سے زیادہ ہے۔ انتخابات کے لئے 28پولنگ سٹیشن بنائے گئے ہیں جن میں 28خواتین کے لئے اور 28مردوں کے لئے ہے۔انتخابی معرکے میں کل کل 6امیدوار سامنے آگئے ہیں۔ جن میں احمد علی آزاد حیثیت سے میدان میں اتررہے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے سید مہدی شاہ، پاکستان مسلم لیگ ن نے محمد اکبر تابان، اسلامی تحریک پاکستان نے محمد عباس، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے سید محمد جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے راجہ زکریا خان مقپون کو ٹکٹ دیدیا ہے۔

حلقہ 1سکردو سے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ کے لئے گورنر گلگت بلتستان راجہ جلال حسین مقپون کے بھائی بھی دوڑ میں شامل تھے تاہم راجہ جلال حسین مقپون انہیں ٹکٹ نہیں دلا سکے جس کی وجہ سے راجہ جلال حسین مقپون کی زاتی حد تک ممکنہ دلچسپی اس حلقے میں نہیں ہوگی۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے سید مہدی شاہ کو اس حلقے کی سیاست کا ہنر خوب آتا ہے، 2015کے انتخابات میں ہارنے اور الزامات کی زد میں آنے کے باوجود انہوں نے اپنا حلقہ خالی نہیں چھوڑا اور حلقے کی سیاست کرتے رہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار راجہ زکریا مقپون بھی اگرچہ سیاسی معاملات میں سرگرم رہے ہیں تاہم ان کا ماضی انتخابی سیاست کے متعلق بہتر نہیں ہے جبکہ اکبر تابان کم از کم تیسری نشست پہ براجمان ہوں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے